تحریر: عالیہ شاہ
بلوچستان ہر لحاظ سے نمبر ون پوزیشن پر ہے، ہر چیز میں اعلٰی ترین درجے پر ہے۔
غربت کی شرح میں ایک نمبر پر ہے، ظلم وبربریت میں اعلٰی مقام حاصل ہے، جبری گمشدگی میں بھی ہر روز اول ہی آ رہی ہیں، طلباء سے لے کر اساتذہ تک، شاعروں سے لے کر ہر طبقے کے لوگوں تک بچوں سے لے کر نوجوانوں تک اور نوجوانوں سے لے کر بزرگوں تک اور عام عوام تک، بلوچستان کے تمام اضلاع میں ہر روز ہر جگہ ظلم وَ زیادتی سہنے میں اول نمبر پر آچکی ہیں، ہر روز اول نمبر پر آنے والا یہ بلوچ قوم جو روز انسانی حقوق کے عالمی تحفظاتی اداروں سے انصاف کیلئے اپیل کرنے میں بھی نمبر ون پوزیشن پر آگئی ہے۔
قابض پاکستان، تاریخ دہرانے میں بھی نمبر ون کی پوزیشن حاصل کر چکی ہے۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان آپریشن کے نام سے بنگال پر پاکستان نے ناجائز ظلم وبربریت طرح طرح سے کیئے تھے آج وہی تاریخ بلوچستان میں بھی دورائی جارہی ہے۔ پاکستانی ریاست نے نسل کشی اور انسان کش کیمیکل مواد کی مدد سے جان لینے میں بھی حیرت انگیز طور پر کامیابی حاصل کرچکی ہے۔ بلوچستان کی مٹی بھی سونا ہے اور وہ بھی لوٹنے میں نمبر ون درجے پر ہے۔
آج بلوچستان غربت کی شرح میں اگر نمبر ون درجے پر ہے تو کس نے اسے اس مقام تک پہنچایا؟
بلوچستان میں اپنا سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرسکنا ایسا کیوں؟
پنجاب میں کتے کی موت بھی بریکنگ نیوز بن جاتی ہے! اور بلوچستان میں صحافی بھی مر جائیں تو کسی کو پتہ تک نہیں چلتا۔۔۔یہ بے حسی کی رواج بھی پاکستان میں فہرست کی اول یعنی نمبر ون کی پوزیشن لینے میں کامیاب ہے۔
بلوچستان میں ہونے والے ہر وہ ظلم پاکستانی حکومت اور فوج کی جانب سے ہوتی ہے، حیات کی قتل سے لے کر مقبول ناصر کے گھر پر ہونے والا بے بنیاد چھاپہ بھی نمبر ون جارحیت میں شمار ہوگی۔
مگر درحقیقت بلوچستان کے گھروں پر آدھی رات کو چھاپے مارنا اور نوجوانوں کو گہری نیند سے اٹھا کر لے جانا بھی اول درجے پر ہے۔ گوادر کی سی پیک سے لے کر چاغی جو سونے کی چڑیا کی مانند ہے ان کا بے شمار مواد وَ معدنیات کی لوٹ ماری میں بھی قابض پاکستان نمبر ون درجے پر فائز ہوئی ہیں۔ بلوچ قوم جو اپنے خواتین پر چاند کی روشنی بھی پڑھنے نہیں دیتے آج وہ بھی اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے سڑکوں پر در در کی ٹھوکریں کھانے میں اونچےٰ درجے پر آرہی ہیں۔ پاکستان اور اسکی جانبدار میڈیا بلوچ قوم پر ظلم کرنے اور پاکستانی میڈیا کی جانب سے ان پر پردہ ڈالنے میں بھی وہ اول نمبر کی پوزیشن حاصل کرچکی ہے۔ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اندھے اور بہرے ہونے والے فہرست میں پہلے نمبر پر آگئے ہیں۔
لیکن آخر کب تک بلوچستان کی مظلوم قوم کو انسانی حقوق سے محروم رکھا جائے گا؟
پاکستان میں بے بس بلوچ، پشتون اور سندھیوں کی نسلیں کب تک روند دیئے جائیں گی؟
مقبوضہ بلوچستان میں علم و شعور یافتہ ہونا سب سے بڑا جرم ہے۔ جس میں شعور بیدار ہوگی یوں سمجھ لو کہ وہ بھی ریاست فورسز کی جانب سے کسی روز مار دیا جائے گا یا پھر پاکستان کی خفیہ اداروں میں جبری گمشدگی کی صورت میں تا عمر زندہ دفن کر دیا جائے گا۔ اور ہاں قابض پاکستانی فوج آج کل گمشدہ کرنے کے بعد کیمپوں میں منتقل بلوچ قوم کو قتل کرنے میں اور چوری سے دفنانے میں بھی نمبر ون تک پہنچ ہے۔ آج نہیں ہر روز اکثر ایک گمشدہ تو دوسری طرف خدا جانے وہاں چوری چھپے کتنوں کو دفنایا گیا ہوگا۔۔۔
بلوچستان صرف غربت میں ہی کیوں نمبر ون پر آیا ہے، یہ کیوں نہیں کہا جاتا کہ مقبوضہ بلوچستان بے بسی اور لاچاری میں بھی اول درجے پر ہے۔
کیا بلوچستان کی صرف غربت ہی واحد چیز ہے جو نظر آتی ہے؟
بلوچستان میں ہونے والے بے شمار ظلم و بربریت، کبھی نا ختم ہونے والی نا انصافی کب دنیا کو نظر آئے گی؟
اقوام متحدہ اور عالمی عدالتوں میں مقبوضہ بلوچستان پر کیا کبھی غور کریں گے؟ بلوچستان کو بھی سکون سے جینے کا حق حاصل ہے۔ تو قابض پاکستان میں حقوق کی آواز بلند کرنے والے افراد کی قتل اور جبری گمشدگی میں کیوں نمبر ون درجے پر ہے؟