اگر ہم اٹھارویں صدی کا مطالعہ کریں  تو اس میں ہمیں  بہت سی قوموں کی تاریخی  عروج و زوال نظر آتی  ہے۔ آج ان قوموں  میں سے ایک بلوچ قوم بھی ہے  جن کی تاریخ فرانس کے ریسرچرز کے مطابق  9000 ہزار سال قدیم ہے۔بلوچوں کی اس خطے میں الگ قومی روایات  زبان  کلچر اور  ایک الگ جغرافیہ ہے جسے دنیا بلوچستان کہتی ہے اور لفظ بلوچستان  پندرھویں صدی میں دنیا کے سامنے آیا۔
میر نوری نصیر خان کے دور میں  جب دنیا میں بلوچستان کو ایک اسٹیٹ کا درجہ دیا گیا تو اس وقت بلوچستان کے رولر یا بادشاہ کو  ( خان آف قلات)  کہا جاتا تھا  کیونکہ اس وقت خان آف قلات پورے بلوچستان کا بادشاہ تھا جب اس وقت برطانوی سامراج نے بلوچستان کو تین حصوں میں تقسیم نہیں کیا تھا۔
  آج بلوچستان کا ایک حصہ ایران  دوسرا حصہ افغانستان اور تیسرا پاکستان کے زیر قبضہ ہے۔ جو کہ اب بھی تین حصوں میں تقسیم ہے۔جب خان مہراب خان کے دور میں 13 نومبر  1839  کو  پہلی مرتبہ برطانوی سامراج بلوچستان کو قبضہ کرنے کیلیۓ حملہ آور ہوئے۔تو خان مہراب خان نے انگریزوں کےخلاف اپنے آٹھ سو 800 سپاہیوں کےساتھ مزاحمت شروع کی۔
انگریز تعداد میں خان مہراب خان کے مقابلے میں بہت زیادہ تھے۔ جب خان کے سپاہیوں کو پتہ چلا کہ انگریز تعداد میں  ہم سے بہت زیادہ ہیں۔ یہ بات انہوں نے کسی طرح سے خان تک پہنچائی جس پر خان نے اپنے بہی خواہوں سے کہا کہ یہ ایک پیغام ہے میری قوم کیلیۓ۔ آج میں اپنی قوم کیلئے ایک اہم پیغام چھوڑ کے جا رہا ہوں کہ ہر جنگ جیتنے کیلئے نہیں ہوتی، بلکہ قوموں کی تاریخ میں کچھ جنگیں اپنی ننگ و ناموس کیلئے لڑنی ہوتی ہیں۔ بےشک آج ہم تعداد میں اگر کم ہیں، لیکن ہم میں آج بھی وہی بلوچیت کا جزبہ اور اپنے مادر وطن پرقربان ہونے کا جوش اپنی زمین کیلیۓ پوری طرح سے موجود ہے۔ کیونکہ میں اپنی قوم کو غلام نہیں رکھ سکتا۔ہم اپنی خود داری کو برطانوی سامراج کے سامنے گروی نہیں رکھ سکتے”۔
خان نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ آخری یہ الفاظ ادا کئے “اس دھرتی ماں نے مجھے اور میرے آباواجداد کو  نام، عزت اور ایک فخریہ پہچان دی ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ میں اپنی پہچان اور دھرتی ماں کا دفاع کروں۔ شاید میں سامراج کے سامنے یہ جنگ ہار جاؤں لیکن میں اپنے آنے والی نسلوں کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ کسی قوم کی بھی
غلامی خود ایک لعنت ہے امید ہے کہ میرے بعد بلوچ فرزند اپنی دھرتی ماں کا دفاع بہتر انداز میں کرینگے۔ یوں بلوچستان کے حاکم دشمن سے لڑتے لڑتے شہید ہو گئے اور ہم سب کے لئے ایک مثال چھوڑ دی کہ رتبہ، بادشاہت، مقام یہاں تک کہ ننگ، ناموس اور عزت بھی آپ کی خود مختاری کے ساتھ گروی رہ جاتی ہیں۔ جب انگریزوں نے قلات کے قلعے پر  قبضہ کیا اور جنگ و مزاحمت بھی انگریزوں کے خلاف چلتی رہی۔ جبانگریز اس مزاحمت سے تنگ آۓ تو انہوں نے بلوچوں سے ایک ایگریمنٹ کیا۔ اسی ایگریمنٹ کے تحت اپنی پالیسیوں کو وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط کرتا رہا اور خان آف قلات کے اختیارات کو کم کرتے رہے اور اسے اپنے ماتحت بناتے رہے۔
 وقت کے ساتھ جب 1884 کو  خان خدائے داد خان کے دور میں انگریزوں نے  ریاست قلات کو کافی حد تک کمزور کیا تھا  اور اس کے اختیارات کو بھی محدود اور اپنے ماتحت کیا تھا اسی طرح  1920  کو انگریزوں نے بلوچستان کے دو ٹکڑے کیۓ  جو آج سیستاں بلوچستان یا ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے نام سے جانا جاتا ہے۔اسی طرح برطانوی سامراج نے بلوچستان کے کچھ حصے افغانستان میں شامل کیے، اور افغانستان  کے کچھ حصے بلوچستان میں ایران اور بلوچستان کے درمیان ایک لکیر بنا دی گئی جسے انگریزوں نے خود گولڈ اسمتھ لائن کا نام دیا تھا۔ اسی طرح افغانستان اور بلوچستان کے درمیان برطانیہ نے پاکستان کو بنانے کیلئے ایک اور غیر فطری لکیر کیھنچ دی جسے  ڈیورنڈ کہا جاتا ہے جو آج تک بلوچ اور افغان دونوں اقوام کیلئے قابل قبول نہیں۔
اس دوران بلوچ حکومت بہت کمزور ہوئی تھی جوخان آف قلات کے برائے نام ٹائیٹل تک محدود ہوا۔بلکل اسی طرح انگریزوں کے شیطانی سامراجی منصوبے کے مطابق ہندوستان کے دو ٹکڑے کئے گئے۔  ایک کو پاکستان کا نام دیا گیا جو شاطر انگریزوں نے اپنے لانگ ٹرم  مفادات کے لئے کالونیل ایجنٹ کی حیثیت سے بنایا جو آج بھی انہی کی بنائی گئی پالسیز کو لیکر چل رہا ہے۔
27 مارچ  1948 کو انگریزوں کے مفادات میں  پاکستان بلوچ سرزمین پر حملہ آور ہوا اور اس فوجی مداخلت کے نتیجے میں بلوچستان کے اوپر جبراً قبضہ کیا گیا۔ وہ ایگریمنٹ جو انگریز اور خان آف قلات کے مابین ہوا تھا وہ اس طرح تھا کہ جب انگریز بلوچستان سے واپس ہونگے تو بلوچستان کے وہ حصے جہاں انگریز حکومت کر رہے تھے وہ واپس ریاست قلات کے حوالے کردیئے جائینگے۔ لیکن  پھر کچھ یوں ہوا  کے جب انگریز خطے سے جانے لگے تو  ہندوستان جیسی بڑی ریاست و طاقت کو مذہب کی بنیاد پر دو ٹکڑوں میں تقسیم کر گئے جن میں سے ایک کو پاکستان کا نام دیا گیا جو ایک کالونیل اسٹیٹ کی حیثیت سے آج بھی دنیا کے نقشے پر ایک سردرد کی حیثیت سے موجود ہے۔
اُس وقت کے خان قلات خان احمد یار خان کو انگریزوں نے کہا کہ تمہارے پاس صرف یہی ایک آپشن ہے کہ تم پاکستان میں شامل ہو جاؤ۔تو اس وقت خان نے انگریزوں سے یہی کہا کہ یہ ناممکن ہے اسی طرح انگریزوں نے جناح کی سر براہی میں بلوچستان کو جبری طور پر پاکستان کے ذریعے قبضہ کروا دیا۔
اس وقت جناح پاکستان کے گورنر جنرل تھے  جب جناح نے  27 مارچ 1948 کو بلوچستان میں فوج کشی کی۔ اس وقت پرنس کریم مکران کے گورنر تھے اور خان آف قلات کے چھوٹے بھائی تھے۔ پرنس کریم نے پاکستان کے خلاف مزاحمت شروع کی۔ افغانستان میں اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ جلاوطنی اختیار کی یوں مزاحمت چلتی رہی اور بلوچستان کی قبضہ گیریت کے خلاف بلوچ جنگجو لڑتے رہے۔ آخر کار جناح نے پرنس کریم کو روکنے کیلیۓ قرآن کا سہارا لیا اور جھوٹے وعدے کئے جس کے بعد اسے گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔   اسی طرح بلوچ مزاحمت اگلی قیادت کو منتقل ہوگئی اور ثابت کرتی رہی کہ قومی مزاحمت و جنگ شخصیات کی مرہون منت نہیں ہوتی بلکہ نسلوں میں منتقل ہوکر آگے بڑھتی ہے۔ بابو نوروز خان کو بھی قرآن  اور جھوٹے وعدوں کے ذریعے مکار پنجابیوں نے گرفتار کرلیا جس کے بعد بابو نوروز خان کے ساتھیوں کو پھانسی دی گئی اور بزرگ بابو نوروز خان شہید کو جیل میں رکھا یہاں تک کہ ان کی جیل میں ہی موت ہوگئی۔
   جب  ون یونٹ کے بعد 1970  کے دور میں پاکستان نے بلوچستان کو اپنے آئین  اور  دنیا کے نقشے میں اپنا  حصہ بنایا  ۔جب بلوچ قوم پاکستان کے نام نہاد شہری  بنے اسی طرح پاکستان نے بلوچوں کو یہ احساس دلایا کہ تم ایک قوم نہیں بلکہ ایک غلام کی حیثیت سے اس ملک میں رہو گے  اور بلوچستان آج تک ایک مقبوضہ علاقہ ہے کیونکہ پاکستان کو بلوچ قوم کی ضرورت نہیں بلکہ بلوچستان کی ضرورت ہے  جسے جنرل ٹکا خان نے ڈاکا یونیورسٹی میں کہا تھا کہ ہمیں بنگالیوں کی ضرورت نہیں ہمیں زمین کی ضرورت ہے۔ اسی طرح پاکستانی فوج نے 70 کی دہائی میں بلوچوں کی لاشوں کو ہیلی کاپٹروں سے پھینک کرباپنی نفرت کو اس حد تک ظاہر کیا اور بلوچ بیٹیوں کو اغواء کرکے منڈیوں میں بیچنے لگے۔
 وقت گزرتا گیا اور دنیا تبدیل ہوتی گئی۔ آج کے دور میں جب دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ مگر پنجاب  ہمیں مختلف ادوار میں بار بار یہ احساس دلاتا رہا ہے کہ تم ایک غلام قوم ہو۔
آج بلوچ قوم یہ محسوس ہی نہیں کرتی کہ وہ ایک غلام قوم ہے  کیونکہ  نوآبادیاتی نظام میں  ریاست اسے بیگانہ بنانے کی بھر پور کوشش کر رہی ہے آج ریاست بلوچ قوم کی سوچ کو صرف کھانے پینے تک محدود کرنے کی کوشش کر رہا ہے اسی وجہ سے بلوچ قوم میں علم و شعور کا فقدان ہے۔ اسی وجہ سے قوم اپنی قومی مقصد سے بیگانی ہوتی جارہی ہے۔
1839 سے لیکر آج تک پہلے انگریز اور اب پاکستان مقبوضہ بلوچستان کو ایک کالونی بنا کر اس پر حکومت کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں اور یہاں بلوچستان کے اوپر اپنے قبضے کو مستحکم کرنے کیلیۓ بلوچ قوم کو مزید تقسیم کرنے کی کوشش کررہا ہے تاکہ بلوچوں کے معاشی اور سماجی طور پر  استحصال کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوں اور اپنی ناکام چالوں سے اب ترقی کے نام پر جنوبی بلوچستان کے نام کو استعمال کررہے ہیں۔
اگر دیکھا جائے  بلوچستان کے ماضی میں  یہاں جتنے بھی معدنیات نکلے ہیں ان سب سے پنجاب امیر سے امیر تر ہوتا چلا گیا اور بلوچستان غریب سے غریب تر  اگر کوئی بھی انسان اس نا انصافی کو دیکھے تو سوال تو کرتا ہے  آخر کیوں ؟؟؟