اس تحریر کے ٹائیٹل کیلئے میں نے جس خیال کو ذہن میں رکھ کر اس کا انتخاب کیا ہے میرے خیال میں یہ موضوع خود بخود بلوچ سیاسی اختلافات اور اتحاد کے نہ ہونے کا کسی حد تک درست احاطہ یا نشاندہی کرتا ہے۔
عالمی سیاسی حالات کا اگر گزشتہ 20سالوں سے بغور جائزہ لیا جائے تو اس وقت مختلف اقوام کے درمیان رسی کشی کو دیکھ کر جیو ریجنل اور جیو انٹرنیشنل پالیٹکس دو واضح بلاک میں منقسم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ایک طرف سپر پاور امریکہ، سعودی عرب، عرب امارات، بحرین ،اسرائیل اور نیٹو یہاں یہ بھی واضح رہے کہ مستقبل قریب میں اول الذکر بلاک میں مزید قومیں شامل ہونے کے کافی امکانات موجود ہیں جن میں سر فہر ست انڈیا اور افغانستان کا نام بھی خارج ازمکان نہیں۔
جبکہ دوسرے بلاک میں چین، ایران اور پاکستان شامل ہیں ۔دوسرے بلاک میں پاکستان کا کردار غیر یقینی اور منافقوں جیسا رہے گا،کسی کا بھی اس پر اعتبار کرنا کافی مشکل رہیگا۔یہ تقسیم اس لیئے پیش آئی ہے کہ ہر کوئی اپنے قومی مفادات کے بہتر انداز میں تحفظ کرسکے۔
بلوچ قومی آزادی کی تحریک میں لیڈر شپ کی سطح پر اگرجائزہ لیا جائے ،تو واضح موقف اور سیاسی لائن کے ساتھ فری بلوچستان موومنٹ واجہ حیر بیار مری کی قیادت میں سخت مشکلات کے باوجود درست سمت کے ساتھ اپنے اصل ہدف کی جانب سفر کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ان حالات میں آزادی پسند خاص قبیل کے ساتھ ایک دو اور حلقے تاحال کنفیوز دکھائی دے رہے ہیں۔ انھیں سمجھ نہیں آرہی کہ کس بلاک کا کیسے اور کب انتخاب کیا جائے جہاں ہم سیاسی تنہائی سے بچ کر قوم کے سامنے اپنے علیٰحدہ ساخت و شناخت کے وجود کا جواز پیش کرسکیں۔
میرے خیال میں عالمی سیاست کے داؤ پیچ کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ایف بی ایم ‘درست سیاسی سمت’ کی جانب گامزن ہے۔
سوشل میڈیا میں بلوچ سیاسی کارکنوں کے آپسی بحث و مباحثہ کو دیکھ کر گزشتہ روز کے ڈاکٹر اللہ نظر کا اتحاد بارے ٹوئیٹ کے بعد بحیثیت سیاسی کارکن سب کے ذہنوں میں مختلف قسم کے سوالات موجود ہونگے۔
مثلا پہلا سوال یہ کہ ڈاکٹر اللہ نظر کس قسم کا اتحاد چاہتے ہیں، مسلح تنظیموں کا اتحاد یا سیاسی پارٹیوں کا اتحاد؟
بات اگر مسلح تنظیموں کے اتحاد کی ہو تو ان کا ‘براس’ والا اتحاد پہلے سے تو موجود ہے۔ ماضی قریب میں ان کے ہمنواؤں کی جانب سے قوم کو ہمیشہ اداروں کی اہمیت و افادیت پر تلقین و نصیحت کیا جاتا رہا ہے۔جس کیلئے ضروری یہی ہے اگر ان کا مقصد مسلح اتحاد ہے تو یہی بیان ڈاکٹراللہ نظر کے نام کی بجائے بی ایل ایف یا براس کے نام سے میڈیا میں شائع ہوتا، ان کے موقف کی درست ترجمانی ہوسکتی۔
اگر اس اتحاد کا مطلب سیاسی پارٹیوں کا اتحاد ہے تو بی این ایف کا اتحاد کہاں چلا گیا؟
وہ بھی انھی کے دائرہ اختیار میں تھا۔
اگر پھر بھی ان کا مقصد سیاسی اتحاد ہے تو اس بیان کو بی این ایم کی جانب سے جاری کیا جانا چاہئیے تھا نہ کہ بطور فرد دوسرے اسٹیک ہولڈرز کو اتحاد کیلئے دعوت دینا۔
اگر یہ اتحاد خارجی دباؤ پر نہیں ،بلکہ اندرونی فیصلوں اور قومی چیلنجز کو مدنظر رکھ کر اس اتحاد کو سرانجام دیا جارہا ہے، تو اس کا طریقہ کار فرد کے بجائے ادارتی ہونا چاہئیے تھا،کیونکہ موجودہ طریقوں سے بہت سے سیاسی کارکن سخت کنفیوز رہینگے۔ ادارے کی بجائے فردی دعوت کو ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ کی جانب سے آزادی پسند قیادت کو اتحاد دینے کی دعوت کو کس معنی میں سمجھا جائے؟
اب حال اور مستقبل کے عالمی سیاسی داؤ پیچ کو دیکھا جائے،
تو تھوڑ پھوڑ کے عمل سے پیدا ہونے والے جگاڑی مسلح اتحاد ‘براس’ کی سیاسی ڈوری اولازکر بلاک (ایران)سے ملتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
جس پر بلوچ لیڈر شپ اور آزادی پسند کارکنوں کو بہت سے خدشات و تحفظات ہیں۔ تب ہی تو انہوں نے ان سے فاصلہ رکھنے میں قومی تحریک کو ہائی جیک ہونے سے بچانے کیلئے اپنی عافیت اسی میں سمجھی۔
دو دہائی قبل یعنی سنئہ 2000 کے دنوں میں اس خطے میں قوموں کے درمیان اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر سیاسی عسکری،مزاحمتی اور معاشی تبدیلی کی جو رسا کشی شروع ہوئی ،اس میں تین قوموں نے وقت کی نبض کو صحیح وقت پر درست طریقے سے سمجھا۔
جس میں اول نمبر پر چین ہے جس نے اپنے سامراجی توسیع پسندی کو وسعت دیتے ہوئے بلوچ گلزمین پر ہمارے دشمن پنجابی کے ساتھ مل کر سی پیک جیسے استحصالی و بلوچ کش منصوبے آغاز کیا۔
دوسرے نمبر پر عالمی طاقتوں میں امریکہ نے وقت کی نزاکت کو بہتر سمجھ کر جواز کے طور پر طالبان و اسامہ کو پیش کرکے افغانستان پر حملہ کرکے مذہبی رجعت پسند طالبان کی حکومت کو بزور طاقت ختم کرکے اپنے قومی مفادات کی نگہبان روشن خیال حکومت کو کابل کے ایوان صدر کے اختیارات حوالے کر دئیے جو کہ آج تک اور آنے والے دنوں میں بھی امریکی مفادات کی بہتر طریقے سے نگہبانی کرسکے گا۔
تیسرے نمبر پر اس گریٹ گیم کو بلوچ قوم نے درست وقت پر سمجھا،جو کہ سابقہ تیاریوں کو چھوڑ کر سال2000 میں باقاعدہ طور اپنے قومی مزاحمتی جنگ کا رسمی طور آغاز کیا۔اس مزاحمتی جنگ کے شعلوں نے بلوچستان کے شرق ، غرب و شمال میں پھیلے ہوئے بلوچ قوم کے تمام مکاتب فکر کو ہر طرح سے متاثر کیا۔جس میں بلوچ قوم خواب خرگوش سے بیدار ہو کر اپنے قومی آزادی کیلئے خان عبداللہ خان قہار کے قول پر عمل پیرا ہوکے یہ کہہ کر سینہ تان کے عملی میدان میں نکل آئی۔
‘کوھنگ اے یہ کوھین قلات کس ء پت ء میراث نہ انت ما گون سگاراں گپتگاں’
آج کہیں بھی بلوچ قومی آزادی کی سیاسی یامزاحمتی عمل ہمیں دیکھنے کو ملتاہے، اس کا اگر قومی ایمانداری سے جائزہ لیا جائے تو اس کے مرکزی کردار مرحوم نواب خیربخش مری اور بلوچ رہبر واجہ حیربیار مری ہی ہیں۔ ماضی قریب کے اس تاریخی و تجزیاتی حوالے کا ہر گز یہ مقصد نہیں کہ بلوچ نیشنل لبریشن کے اس جہد میں شامل دوسری قیادت کی خلوص محنت قربانیوں سے انکاری ہوا جائے، بلکہ اس گریٹ گیم کے شروع ہونے میں بلوچ مفادات کے تحفظ کیلئے قومی آزادی تحریک کے عمارت کی تعمیر میں بیسمنٹ کو ڈالنے یا خشت اول کی چنوائی کا اعزاز انہی کے حق میں جاتا ہے۔
اس جاری عالمی گریٹ گیم میں بلوچ لیڈر شپ کی جانب سے مرکزی کردار ادا کرنے اور اس تبدیلی کو اپنے قومی مفاد کی جانب رخ دینے میں مرحوم نواب صاحب اور واجہ حیربیار مری نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
ایک عرصے سے ہمارے ذہن میں بلوچ قومی سیاست میں آزادی کے جدوجہد میں شامل مختلف اسٹیک ہولڈرز کے درمیان اتحاد یا اشتراک عمل سے دوری اور آپسی اختلافات و مجموعی سیاسی انتشار کی وجوہات پر لکھنے کو دل چاہ رہا تھا، مگر مجموعی طور پر بلوچ سیاست کی معروضی موسمی تبدیلیوں کے پیش نظر ہواؤں کے رخ کی تبدیلی کو دیکھ کر آخر اس نتیجے پر آکر پہنچے کہ بلوچ قوم کے سامنے چند لازمی سوالات کو تحریر کی صورت میں کیونکر سامنے نہ لایا جائے، وہ بھی اس صورت میں کہ جو کچھ بھی تحریر ہوگا وہ تنظیمی عصبیت سے بالاتر ہوکر صرف اور صرف وسیع تر بلوچ قومی مفاد ہی خالص مقصد و محور ہوگا، نہ کہ تنقید برائے تنقید یا خود کے حلقہ احباب کو تمام مسائل سے بری الزمہ قرار دینا ہر گز ایسا مطلب نہیں۔نیشنل ازم کے فکر کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ قومی آزادی کے جہد میں جن سے جہاں بھی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں، پہلے مرحلے پر وہ ان سے توبہ کرکے تائب ہوجائے،اس کے بعد قوم کے سامنے یہ عہد کرکے اس کی ضمانت دے کہ وہ بدبختیاں دوبارہ کسی صورت نہیں دہرائی جائینگی۔تب ہی یہ ممکن ہوگا کہ آزادی پسندوں کے ساتھ ساتھ قوم کے اعتماد کو کسی حد تک بحال کیا جاسکے گا۔
قومی اتحاد کے وہ داعی جن کی بلوچستان میں ماضی قریب کے داخلی و خارجی سطح کے غلط سیاسی فیصلوں اور جاری پالیسی کے نتائج سے پیدا ہونے والے برے کارناموں کے انجام نے قوم کو آزادی جیسے مقدس منزل سے بیزار کرکے شدید تحفظات و خدشات اور وسوسوں میں مبتلا کرکے دشمن کے قریب تر جانے پر کس بے رحمی سے مجبورکیا، ایسے ہی قوم دشمن فیصلوں سے سرزد ہونے والی غلطیوں کی وجہ سے سب کے دماغوں میں کچھ ایسے سوالات و خدشات پیدا کیئے گئے ہیں جو ہر بلوچ سیاسی و مزاحمتی جہدکار کے لاشعور میں یقینی طور موجود ہونگے۔
ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے ہم سب بحیثیت بلوچ قوم کے فرزند اتحاد کے بارے میں ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ سے چند ناگزیر سوالات پوچھنے کا اتنا حق ضرور رکھتے ہیں کہ گزرے کل کو آخر وہ فیصلے کیونکر اور کن کے کہنے پر کیے گئے، جن کی وجہ سے بلوچ قوم کی جانب سے حاصل ہونے والی طاقت کو قوم ہی کے خلاف بڑی لاپرواہی سے استعمال کیا گیا۔
وہ فیصلہ ساز کیا اتنا بتا سکتے ہے کہ دشمن سے برسرپیکار مسلح آزادی پسند تنظیموں کو دشمنوں کے بہکاوے میں آکر چند سیاسی نادانوں کی ذاتی خواہشات کے مطابق کیوں توڑا گیا؟
بلوچ قومی جہد میں شامل برسرپیکار سیاسی جہدکاروں کے درمیان غیر پائیدار یا وقتی فیصلے کرکے سیاسی انتشار کیوں پھیلایا گیا؟
اب بات جب اتحاد کی ہو رہی ہے، تو اس تھوڑ پھوڑ کے عمل سے تنظیموں کے ہائی کمان اور حقیقی لیڈرشپ کو ایک طرف رکھ کر انہیں دانستہ طور پر کیوں نظر انداز کیا گیا؟ اس توڑ پھوڑ کے جگاڑی عمل سے پیدا ہونے والے ان کرداروں کی سرپرستی کرکے بجائے ان کو تنظیموں کے سامنے جواب دہ ہونے انہیں مجرمانہ انداز میں سیاسی شرف کیوں بخشا گیا؟
کیا وہ سب کچھ ان فیصلہ سازوں کی بے راہ روی و نرگسیت تھی یا سیاسی کم پختگی و نادانی؟
اداروں کی اہمیت و افادیت سے واقف ہوتے ہوئے بھی پاکستانی طرز سیاست کا انداز اپنا کر صرف جُگاڑ سے کیوں کام لیا گیا؟ آج قوم ان کے اس طرح کے اعمال کو کس معنی میں سمجھے؟
بلوچ جہد آزادی کے نام پر سرگرم ان تنظیموں کی بے لگام و کمزور خود رو تنظیمی اسٹرکچر؟ یا کچھ اور۔۔۔۔۔۔۔!
نتیجہ آج سب کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہے،اتحاد کے داعی ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ سب سے پہلے خود اپنی انا کے خول سے نکل کر حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرکے نوشتہ دیوار بخوبی سے پڑھینگے یا بلی و کبوتر کے کھیل کی طرح مزید آنکھیں بندھ کرلینگے؟
بلوچ جہد برائے قومی نجات کے سفر میں اپنے قوم اور عالمی طاقتوں کے سامنے ایک آزادی پسند تنظیم یا لیڈر کی پالیسی صاف و شفاف ہونی چاہئیے نہ کہ پاکستانی پارلیمانی طرز سیاست کے جوڑ تھوڑ کی طرز سیاست مبہم و غیر پائیدار فیصلے۔
اپنے زاویہ نظر سے وقت کی معروضی ناگفتہ بہ سیاسی صورتحال کے نزاکت کو دیکھتے ہوئے اتحاد بارے گزرے کل کی یعنی ماضی قریب کے حالات مجھے اس پر تحریر کرنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے، جبکہ اس کی اہمیت و افادیت کیلئے میں شروع دن سے مشروط طور پر اس طرح قائل رہا ہوں، کہ اگر کسی کیلئے سیاسی اتحاد کا واضح مقصد قومی نجات ہی ہو، اپنی اس گلزمین کیلئے جس کی جغرافیائی باونڈری میرنوری نصیر خان کی طے کردہ زمینی جغرافیہ کے آزادی کیلئے ترجمانی کرے۔ تب اس کی تحریری صورت ضمانت دینی ہوگی۔ وگرنہ ایک دہائی سے جاری قوم دشمنی کے غلط فیصلوں سے بدگمانیوں اور گھمبیر مسائل کو صرف معمولی اختلافات و ذاتی انا تک محدود سمھجنا یہ سیاسی نازانتی کے سوا کچھ بھی نہیں، جس کیلئے کوئی بھی آزادی پسند مزید تجربات و آزمائش کرنے کیلئے مشکل ہے کہ آمادہ ہوسکے۔
اصل میں ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ اتحاد کے داعی کی جانب سے بلوچ قومی دشمنوں سے بیزاری کا فاصلہ عملاً صاف نظر آئے۔ اگر اس کے برعکس ہوا، تو معذرت کے ساتھ ایسے اتحاد کی دعوت کو بلوچ مزاحمتی و سیاسی جہدکار سیاسی اسکورنگ یا سیاسی شعبدہ بازی ہی سمجھنے پرمجبور ہونگے۔
یہاں اتحاد کے موضوع کی مناسبت سے موضوع زیر تحریر ہے یعنی اتحاد جیسے سیاسی اصطلاح سے تو بہت سے مخلص مگر سادہ لوح سیاسی کارکن و جہدکار جذبات میں آ کر بعض دفعہ سیاسی جادوگروں کی چالوں میں آکر ان کے سیاست بازیوں کی جلد ہی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔
وقت گزرتا گیا،بہت سے رویوں کی وقت نے پرورش کی خیر کرتے کرتے ایک دن ضرور یہ موجودہ دوری جس وقت ان کی سیاسی سمت درست ہوا تو عین قانون فطرت کی طرح مقناطیسی قوت آزادی پسندوں میں نزدیکی یقینی طور خود بخود پیدا ہوگی۔ سب کےساتھ ملانے کے کشش پیدا کرنے کی صلاحیت سامنے آئیگی پوری قوم ان سے خود ہی جڑ جائیگی۔ تب دوری کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔
ہم سب کی ایک دوسرے سے دوری کا سبب ہی تو یہی وہ پالیسیز ہیں کہ دوسروں کے بہکانے پر ان کے سیاست کی سمت درست تجربہ ثابت نہیں ہوا۔
حقیقی مسائل سے چشم پوشی اختیار کرکے اگر سطحی اتحاد ہی تمام مسائل کا حل ہوتا تو کچھ عرصہ قبل چار (4)جماعتی اتحاد ( جے ڈبلیو پی ، بی این پی مینگل ،نیشنل پارٹی اور حق توار ) کے اتحاد کا نتیجہ بلوچ قوم کے سامنے واضح ہے،اس اتحاد سے سب سے پہلے بزرگ قوم دوست رہنما مرحوم نواب خیر بخش مری نے میڈیا میں یہ کہہ کر دوری اختیار کرنے میں اپنی عافیت ہی جانا کہ ‘حق توار’ کی کوئی رسمی باڈی موجود نہیں، لہٰذا بلوچ قوم ‘حق توار’ کو چار جماعتی اتحاد کے ساتھ شامل نہ سمجھے۔
مرحوم نواب مری نے خود کو اور اپنے ہم خیال دوستوں کے ساتھ میڈیا میں واضح موقف کے ساتھ چار جماعتی اتحاد سے سیاسی لاتعلقی کا کیوں اعلان کیا تھا؟ کیونکہ نواب صاحب اس وقت کے بہت سے سیاسی کرداروں کی نیت کو پہچان چکے تھے کہ یہ لوگ نہیں چاہتے کہ یہ جہد آزادی کامیاب ہوسکے، بلکہ اس میں قابض کی گندی سیاست کو بلوچستان میں گروہی مفاد و کچھ دوسرے مقاصد ان کے محور ومقصد ان کے ایجنڈے میں شامل تھا۔
کیا نواب صاحب کی طرف سے اس اتحاد سے سیاسی لاتعلقی ان کی سیاسی ادراک تھی ،یا حقیقی مسائل سے نظریں چرا کر ان کو چھوٹے مسائل پیش کر کے صرف ذاتی انا جیسے دو الفاظ تک محدود کرنا؟ بلوچ سیاست کے تاریخ ساز فیصلہ نواب صاحب کی زیرک نظری ہی تھی اور قومی آزادی تحریک کو ہائی جیک ہونے سے بچالینا تھا،جس میں وہ کامیاب ہوئے۔
اس کے بعد پونم کی طفلی اتحاد اور سیاست و نتیجہ پوری قوم کے سامنے ہے جس کو تفصیلی حوالہ سے زیر بحث نہیں لایا جاسکتا۔یہاں اس کا صرف حوالہ دینا ہی کافی رہے گا ،کیونکہ اس پر بحث کرنا مضمون کی طوالت کا سبب ہوگا،اور اصل موضوع ثانوی حیثیت میں چلا جائیگا۔
ڈاکٹر صاحب پچھلے 10 سالوں سے جاری گھمبیر مسائل کے انبار کو نظر انداز کرکے ٹوئیٹر میں ان کو صرف دو الفاظ ‘انا اور چھوٹے مسائل’ سمجھ کر میڈیا کے ذریعے قوم کے سامنے پیش کرنا کسی طرح بھی دانشمندی نہیں کہلایا جاسکتا۔ بالکل آپ کے خیال میں یہ ہو سکتا ہے اس طرح سے حقیقی مسائل و سیاسی اختلافات کو چھوڑ کر صرف چند سیاسی ناپختہ لوگوں کو محدود عرصے کیلئے خاموش کرایا جاسکتا ہے لیکن پوری قوم کو مطمئن کرنا ناممکن نہیں مشکل تو ضرور ہوگا۔اب حقیقی مسائل کو نظر انداز کرکے اس اتحاد کے دیر پا (Sustainable) ہونے کی ضمانت کون دے گا؟
اس لیئے حقیقی رہنما و جہدکار قوم کو خوش نہیں کرتے بلکہ قومی جہد کو کامیاب کرنے کیلئے طویل المدتی اور صاف و شفاف اقدامات اٹھاکر پائیدار پالیسی بنا کے واضح موقف کے ساتھ اپنی جہد کو جاری رکھتے ہیں۔ ان حالات میں عالمی سیاسی داؤ پیچ کو دیکھتے ہوئے آج کے آزادی پسند سیاسی کارکن کو اس بات کا انتخاب خود کرنا چاہئیے کہ انہیں ایران و چائنا والی کمزور بلاک میں شامل ہوکر کھچڑی والی اتحاد چاہئیے جس میں پھنس کر ایک بند گلی میں داخل ہونا مستقبل قریب کی منزل ہوگی یا فری بلوچستان موومنٹ کے پلیٹ فارم سے قومی جہد کو آگے بڑھاتے ہوئے قومی آزادی حاصل کرنا۔