برطانوی انگریز سامراج نے بلوچستان کو 3حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد یہ ایران ہی تھا جس نے متحدہ بلوچستان کی آزادی تحریک کو کامیابی کی طرف جانے میں رکاوٹ رہی۔
آپ یہ پڑھ کر ضرور حیران ہونگے کہ ایران کی قابض حکومت مقبوضہ بلوچستان میں بلوچ سماج کی داخلی تنازعات (بلوچ زهی زهی) کو بھڑکانے کی اصل زمہ دار ہے۔ عام طور پر بلوچ قوم کی سیاسی بیگانگی معاشی بدحالی اور دوسرے جملہ مسائل و پریشانیوں مشکلات کی بنیادی وجہ قابض ایران کے ریاستی پالیسیز ہے۔
جب برطانوی انگریزوں نے بلوچستان پر شروع میں قبضہ کرنے اور اس کے بعد بلوچستان کی قومی وحدانیت کو تین مختلف حصوں میں دوسرے اقوام کے درمیان بندر بانٹ کے زریعئے تقسیم کرکے شمالی حصے افغانستان مشرقی حصے پاکستان اور مغربی حصے ایران کے حوالے کردیئے۔
فرزندان بلوچ نے اپنے مادر وطن بلوچستان کی آزادی کیلئے سیاسی و مزاحمتی جدوجہد کی۔ہر دور میں وہ قابضین کے خلاف اپنی قومی بقا کیلئے مزاحمت کی۔
1970 کی دہائی میں پاکستان کے زیر قبضہ بلوچستان میں پاکستانی فوج اور بلوچ آزادی پسندوں کے مابین خون ریز جنگ ہوئی جو 1973 سے 1978 تک جاری رہا۔پاکستان کے اس فوجی جارحیت میں ایران نے بلوچ قوم کے دشمن پاکستان کو معاشی مدد کے ساتھ ساتھ برائے راست فوجی سازوسامان کی امداد فراہم کی جس میں گن شپ ہیلی کاپٹر بھی شامل تھے۔ایران کی جانب سے پاکستانی فوج کو مدد سے قبل بلوچوں کے جنگ آزادی اپنے منزل کی جانب روان تھی۔لیکن ایرانی گجر (فارس) کی قابض حکومت ہی تھی جس نے آزادی پسند بلوچ آزادی تحریک کے خلاف پاکستان کی برائے راست مدد کی۔جس میں پاکستانی فضائیہ کے ساتھ ایران کے وہ گن شپ ہیلی کاپٹر جس کے پائیلٹ بھی ایرانی تھے۔بلوچ مزاحمتکاروں کے ٹھکانوں بلوچ عام آبادی پر بڑی بے رحمی کے ساتھ بمباری کی،جس میں ہزاروں بلوچوں کو زخمی اور سینکڑوں کے حساب سے ان کو شہید کیا گیا۔بلوچوں کے ازلی دشمن ایران و پاکستان کے اس مشترکہ فوجی جارحیت سے بلوچ مزاحمت کو سخت ترین مشکلات میں ڈال دیا۔
سینٹو معاہدہ جو کہ تین ظالم ملکوں کے درمیان کیا گیا تھا،اور وہ معائدہ جو کہ رضا شاہ پہلوی دور کے دوران ترکی ایران اور پاکستان کے مابین ہوا تھا۔
رضا شاہ پہلوی کے دور حکمرانی میں ایرانی گجر فارس نے پاکستان کے بلوچ کش حکمران ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے ساتھ مل کر مشترکہ طور بلوچ قومی آزادی تحریک کو ختم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہے۔
اور اسی طرح قابض ایران نے بلوچ قوم کے پاکستان کی مدد کرکے انھیں بڑی مقدار میں تیل پیسے اور فوجی کمک فراہم کیا۔
ایران نے بلوچ آزادی تحریک کو ختم کرنے کے لئے پنجابیوں کو فوجی سازوسامان مفت میں پہنچائے۔اور وہی فوجی مالی امداد ایرانی ملا رجیم حکومت کے ذریعئہ آج بھی دی جارہی ہے۔
اب بلوچ قوم کو یہ جان لینا چاہئے کہ اگر وہ بلوچستان کی سرزمین کی آزادی چاہتے ہیں تو وہ اپنے ازلی دشمنوں کے ماضی کے مظالم کو نادان بن کر بھولنے کی غلطی نہ کرے۔
بلوچ دشمنی میں ایران و پاکستان دونوں مشترکہ ایجنڈے پر متفق ہیں،لیکن خود بلوچ قوم ان میں سے کسی ایک کو دشمن جبکہ دوسرے کو۔مسیحا سمھجنے کی تاریخی غلطی سے خود اور اپنے حلقہ احباب کو جتنا دور رکھے گا بلوچستان ان کے مظالم سے اتنا ہی معفوظ رہے گا۔
تن تنہا پنجابی پاکستان بلوچ قومی آزادی تحریک کے کارواں کے سامنے کھڑے ہونے کی یوں طاقت نہ رکھتا اگر ان کو ایران کی برائے راست پشت پناہی نہ ہوتی۔
آج دنیا کے سامنے پاکستان کی حیثیت بطورایک بھکاری ریاست کے سامنے آچکا ہے۔ جو کہ چند دنوں تک زندہ رہنے کیلئے بھی بھیک مانگ کر چلنے کی کوشش کر رہی ہے۔لیکن ایرانی ریاست مقبوضہ قوموں کی سرزمین کے معدنیات جیسے کہ عرب ترک کرد بلوچ ترکمن اقوام کے سرزمین کی قومی دولت کی وجہ سے زیادہ سرمایہ رکھتا ہے اور ایران کی جانب سے یہی سرمایہ انہی اقوام کو دبانے کے خلاف استعمال کیا جارہاہیں۔
لیکن ایران کی مرکزی توجہ پاکستان کے زیر قبضہ بلوچستان کے بلوچ عوام کی آزادی جدوجہد پر ہے کہ کس رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے۔
یہاں یہ بات قابل غور رہے کہ ایران ماضی کی طرح حال ہی میں قابض پاکستانی حکومت کی ہر سطح پر بھر پور مدد کر رہی ہیں۔ لہذا ہمارے لیئے بہتر یہی ہے کہ اس منحوس درخت کی جڑ کو نشانہ بنانے اورختم کرنے کے لئے مشترکہ دشمنوں کے بلوچ متحد ہو!
ایران کے زیر قبضہ بلوچستان کے بلوچ قوم کی ساری پریشانیوں و جملہ مسائل کی اصل جڑ ایران گجر (فارس) قابض حکومت کے آخری 93 سالوں کے دوران رہی ہے ، لہذا مغربی بلوچستان میں بلوچ قوم کو بھی گجر کی قابض حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا چائیے۔ اپنی آزادی و قومی بقا کے لئے جاری قومی جدوجہد کو اور بھی تیز کرنا چائیے۔
نیز پاکستان کے زیر قبضہ بلوچستان کے بلوچ جنھون نے پاکستان آرمی کی جانب سے کہی عشروں کے فوجی جارحیت کے مظالم اور سیاسی جدوجہد کے تجربات کو ایران کے زیر قبضہ بلوچستان میں اپنے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ شریک کرناچائیے ، اور ہمیں یہاں قابض ریاستوں کی حکومت کو شکست دینے اور پھر انھیں اپنی سرزمین کی سرحدوں سے پیچھے دھکیلنا چاہئے۔
نوٹ: یہ آرٹیکل کمبر بلوچ نے فارسی زبان میں تحریر کی ہے جسے ہمگام قارعین کیلئے دیدگ آسکانی بلوچ نے اردو زبان میں ترجمہ کیا ہے۔