تحریر: عالیہ شاہ
دنیا کے تہذیب یافتہ قومیں جب ترقی کرتے ہیں تو سب سے پہلے اپنی قوم پر توجہ دیتے ہیں ان پر پہلا فرض ان کی قوم کی ترقی و خوشحالی ہوتی ہے۔ ان قوموں کی ترقی کی وجہ بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ ہر چیز میں سب سے پہلے اپنے قوم کے لوگوں کو ترجیح دیتے ہیں۔
دنیا میں وہی قوم آگے بڑھتے ہیں جو اپنے قوم کے لوگوں کو آگے بڑھنے کا موقع دیتے ہیں، اپنے وجود کو تسلیم کروانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ تاکہ دنیا میں ان کا بھی شمار ترقی یافتہ ممالک اور قوموں میں شامل ہو جائیں۔۔۔
چائنا ایک ایسا ملک ہے جو ہر ملک میں اپنی کاروباری مراکز میں سب سے پہلے اپنے قوم کے لوگوں کو موقع دیتی ہے تاکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں ان کا ہی حکمرانی ہو، صرف چائنا ہی کیوں بلکہ دوسرے اقوام بھی یہی کرتے ہیں، ایران سے اچھی مثال اور کیا ہو سکتی ہے۔ تعلیمی اداروں پر نظر ڈالیں تو یہ واضح نظر آتی ہے کہ وہ اپنے قوم کو اپنی زبان کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
آج موضوع ایران، چائنا یا کسی اور ملک کی تعریف اور خوبیاں بیان کرنا نہیں ہے۔ بلکہ ہمارے موجودہ دؤر کی ترقی یافتہ اور باشعور قوم کی خامیوں پر ہے۔ جن میں جھوٹ اور خود غرضی کی پالیسی سب سے زیادہ واضع ہے۔
تربت یونیورسٹی کی شناخت بطور ایک ایسے تعلیمی ادارے سے ہے جو بہت اہمیت رکھتی ہے بلوچ قوم کے لیئے مکران کے لوگوں کے لیئے صرف ایک تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ اہل مکران کے نوجوانوں کا آنے والا کل ہے ان کی مستقبل بھی ہیں۔ وہاں سب اپنی جگہ پر درست ہیں تربیت اور تعلیمی نظام بھی متاثر کرتے ہیں اعلیٰ درجے کی تعلیم بھی دیتے تھے مگر یہ سب کل کی بات لگتی ہے۔۔۔ کیونکہ آج افسوس کی بات یہ ہے کہ وہاں قابض پاکستانی فوج اور پاکستانی پالیسیاں زیادہ مقدار میں مداخلت کر رہے ہیں۔
تربت یونیورسٹی میں پوسٹ ان کو ملتی ہے جو عہدے داروں کے فیملی، رشتے دار، یا خاص و ناس ہوتے ہیں، ان کو نہیں جو صحیح معنوں میں لائق اور حقدار ہوتے ہیں، پالیسی ہے کہ جو 2.50 CGPA حاصل کرتے ہیں وہی قابلِ قبول ہونگے مگر بد قسمتی سے وہی ویزیٹنگ لیکچرر مقرر کیئے جاتے ہیں جو نرسری اسکول کے بچوں کو بھی نہیں پڑھا سکتے، وہی ویزیٹنگ لیکچرر منتخب کیئے جاتے ہیں جو اپنے کیریئر میں ریسرچ تھیسز میں بھی فیل ہوئے ہیں۔۔۔ اور جو لائق اور قابلِ قبول ہوتے ہیں ان کو مسترد کیا جاتا ہیں یہ کہہ کر کہ میٹرک 3rd ڈویژن ہے حالانکہ ویزیٹنگ لیکچرر کے لیئے تقاضے میں میٹرک کا کوئی ذکر نہیں ہوتا، صرف ایم۔اے، یا ایم ایس کا ذکر ہوتا ہے یا مشکل اور پیچیدہ روایتی ٹیسٹ لے کر مسترد کرتے ہیں۔۔۔ بات یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے فیملی ممبرز کو پوسٹ نہ دیں بے شک وہ دے سکتے ہیں، مگر بات بلوچ قوم کے مستقبل کی ہے یہ آج جو پڑھ رہے ہیں آنے والے کل کی امید ہیں آج اگر ان کو صحیح معنوں میں تعلیم حاصل ہوگی تو کل کے روشن ستارے بن سکیں گے۔ صرف یہ پالیسی نہیں بلکہ ایک اور عجیب و غریب پالیسی بھی ہے، طلباء و طالبات کے لیے بس کی سہولیات بھی ہے مگر نہیں مل سکتی ! کیوں؟ کیونکہ بس کے لیے بھی ایک خوبصورت اور دلچسپ پالیسی ادارے کی جانب سے ہے۔ سب سے پہلے درخواست جمع کروائی جائے پھر درخواست کی تصدیق کی جائے، کیا واقعی ہی طلباء کو بس کی ضرورت ہے، تو ادارے کے قابل افسران سے جا کر ہاتھ جوڑ کر ایک مجبوری واضح کرنا ضروری ہے وگرنہ بس کی سہولت نہیں مل سکتی ہے۔۔۔ سارے اداروں کے افسران %95 بلوچ ہیں اور تربت شہر کے ہی واقف اور بڑے جانے مانے لوگوں سے ہیں، ان سب کو اچھی طرح سے معلوم بھی ہے کہ تربت یونیورسٹی شہر سے کافی دور گنہ میں واقع ہے جہاں سے آنا جانا کتنا مشکل ہے، طلباء و طالبات کا گاڑیوں سے آنا جانا بھی مہنگائی کی وجہ سے بہت مشکلات میں دوچار ہونا پڑتا ہے۔ گاڑیوں کا کرایہ 2000rs سے اوپر ہوتا ہے ہر کسی کیلئے یہ آسان نہیں ہوتا۔۔۔۔
کہنے کا مقصد بس اتنا ہی ہے کہ اگر ہماری اپنی ہی قوم کے باشعور لوگ اپنے ہی بچوں کے مشکلات کو کم کرنے کی بجائے ان کو بڑھائیں گے تو ہم پاکستانی حکومت سے کیا امید رکھ سکتے ہیں؟ اب اپنے ہی قوم سے حقوق کے لیے لڑتے رہیں گے تو دشمنوں کو تو اور موقع مل جائے گا ہم پر حکمرانی کرنے کا۔۔۔
قابض پاکستانی حکومت کے ناجائز پالیسی اپنے قوم کے لوگوں پر آزمانا بند کر دیا جائے، ایف سی اور اس جیسی پالیسیوں کو خود پر اس قدر حاوی نا ہونے دیں جس کی وجہ سے بلوچ نوجوانوں کی تعلیم و تربیت میں کمی رہ جائے، ایسی پالیسی اور غیروں جیسے سلوک سے گریز کریں جس کی وجہ سے اس قوم کو مزید نقصان اور پسماندگی کا شکار ہونا پڑ جائے، پنجاب کے یونیورسٹیوں میں بلوچ طلباء پر اپنے حق کے لیے ریلی نکالنے کی نوبت آتی ہے، اب کیا اپنے ہی شہروں میں اپنے ہی لوگوں کے خلاف بھی ریلی نکالیں؟
اپنے قوم کے نوجوانوں کے لیے آسانی پیدا کرنا سب سے بڑی اور اہم ذمہ داری ہے نہ کہ انہیں مزید ٹارچر کرنا۔
قابض پاکستان کو اس کی کیا پرواہ بلوچ قوم کے نوجوان پڑھے یا نہ پڑھے بس انکا مقصد یہی ہے دنیا کے سامنے یہ ثابت کرنا کہ مقبوضہ بلوچستان ایک پسماندہ صوبہ ہے وہ خود مختاری کے قابل نہیں ہے، دشمن کو یہ موقع کبھی نہیں دینا کہ مقبوضہ بلوچستان کو ایک صوبہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔
بلوچستان ایک ملک ہے اور یہاں بھی شعور یافتہ لوگ ہیں، بلوچستان کے ہر بچے میں ہنر ہے، بس انہیں تراشنے کی ضرورت ہے ان کے ساتھ کھڑا ہوکر ان پر توجہ دینا چاہیئے، تربت یونیورسٹی کے اور دیگر نزدیک کے بلکہ پورے مکران کے طلباء و طالبات کے لیئے امید کی ایک کرن ہے، جو بچے کوئٹہ اور اسلام آباد جیسے جگہوں میں پڑھنے کے لیئے نہیں جا سکتے ان کیلئے تربت یونیورسٹی میں آسانیاں پیدا کرنا چاہیئے تاکہ بلوچستان میں کوئی بے تعلیم یا کم تعلیم یافتہ رہ نہ جائے۔ اپنے فیملی اور عزیزوں سے اٹ کر تمام طلباء و طالبات کو ویزیٹنگ لیکچرر ہونے کا موقع دینا چاہیئے تاکہ وہ مایوس نہ ہوں، یا وہ احساس کمتری کے شکار نہ رہے یا ان میں کم سے کم یہ احساس پیدا نہ ہو کہ وہ پڑھنے کے بجائے گاڑیوں کا ڈرائیور بن جائیں کیونکہ پڑھنے کے بعد دکاندار یا ڈرائیور بن جاتے ہیں، کیونکہ یہ تو ان کو ترجیح دی جاتی ہے ڈین اور افسران کے بیٹے یا بیٹیاں ہوتے ہیں۔ یہاں بس ہر کوئی اپنوں کو مقرر کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کو نوکری دینے کی خاطر ان آنے والے بچوں کی مستقبل کو اندھیرے میں نہ ڈالیں۔
تربت یونیورسٹی سب سے بہترین یونیورسٹیوں میں سے ایک تھی، مگر آج کے جو ویزیٹنگ لیکچرر کی وجہ سے کہیں ایسا نہ ہو کہ تربت یونیورسٹی بس نام کا یونیورسٹی رہ جائے، ناکام ہو جائے۔ میرٹ کی بنیاد پر قابل سے قابل ترین استاد کا انتخاب کیا جائے، تاکہ ان کا مستقبل روشن ہو۔ صرف یونیورسٹی میں آنے جانے کا روایت نہ ہو۔۔۔۔ کبھی سوچ کر دیکھیں یہ بچے کتنے دور سے یونیورسٹی پڑھنے کیلئے آتے ہیں، بیشتر تو ہاسٹل میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان بچوں اور بچیوں کو ڈین اور افسران کی بیٹی یا بیٹوں کی نہیں بلکہ قابل اساتذہ کی ضرورت ہے۔ آپکے ہاتھوں میں مکران کی مستقبل ہے، کوئی مزاحیہ کھیل نہیں۔ ویزیٹنگ لیکچرر میں قابل طلباء اور طالبات کی انتخاب بھی ہو سکتی ہے۔ بشرطیکہ کوئی بیت بہاؤ نہ ہو۔
یونیورسٹی آف تربت کو قوم کی ترقی کی مرکز بنایا جائے۔ یونیورسٹی آف تربت کو تعلیم اور دانشوروں کا مرکز بنایا جائے۔ صرف اچھی تعلیم دینا ہی ذمہ داری نہیں ہوتی قابل طلبا کو مناسب موقع دینا بھی ادارے کی ذمہ داری ہے۔ کچھ بچے اپنے زندگی کے چار سال اور کچھ دو سال یونیورسٹی میں جی جان لگا کر محنت کر کے پڑھتے ہیں، ان کی محنت کا ثمر ملنا بھی ان کا جائز حق ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ جو شخص قابل اور باشعور ہے اسے تربت یونیورسٹی کی خالی آسامیوں پر تعینات کیا جائے نا کہ ان ناقابل بے شعور لوگوں کو بلوچ نوجوان نسل پر مسلط کیا جائے جو ایم کے امتحان بھی پاس نہیں کر پاتے ہیں اور نا ہی افسران کے رشتہ داروں کی تعیناتی کیا جائے۔