جنگ اتار چڑھاؤ کا نام ہے، کبھی آپ دشمن پر بھاری تو کبھی دشمن آپ پر بھاری پڑتا دکھائی دیتا ہے۔ کسی جنگ یا تحریک کا حتمی فیصلہ آپ اس وقت تک نہیں سنا سکتے جب تک اس تحریک یا جنگ میں ‘ایک’ شخص باقی ہے اور اپنی کوشش کو جاری رکھا ہوا ہے، کیونکہ امید و حوصلے بلند سے بلند ترین پہاڑ کو بھی زمین بوس کردیتے ہیں۔
آزادی کی جنگیں اکثر طویل و صبر آزما ہوتی ہیں، مختلف مراحل سے گزر کر پرورش پاتی ہیں، اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں آزادی کی راہ پر گامزن ایسی کئی مثالیں ملیں گی جنہوں نے وقتی سوچ سے ہٹ کر دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حتیٰ کہ دشمن اور قابضین کے ساتھ جنگ بندی بھی کی، جہاں تک میری رائے ہے جب چیزیں آپ کے ہاتھ سے نکل جائیں تو خود کو مایوسی کی حالت میں تباہ کرنے سے بہتر ہے کہ کچھ وقت کیلئے رک جائیں ذرا خاموش رہیں اور آہستہ قدموں کے ساتھ چلیں اور سبق لیکر اپنے اندر موجود تمام کوتاہیوں خامیوں و غلطیوں کی اصلاح کرکے ایک نئے رنگ و صورت میں دوبارہ وقت کے ساتھ ابھر کر سامنے آئیں۔
جب ایک انٹرویو کے دوران نواب خیر بخش مری سے سوال کیا گیا کہ پاکستان کے ساتھ جنگ لڑنے کے بعد افغانستان جانا اور وہاں سے واپس آنا آپ کیلئے کتنا نقصاندہ یا فائدہ مند رہا؟ بقول نواب خیر بخش مری کے اتنا نقصان بھی نہیں ہوا جتنا فائدہ ہوا۔
اگر ہم نواب صاحب کے اس مختصر مگر پرمعنی جواب اور بلوچستان کی موجودہ جنگ کا موازنہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اگر نواب صاحب واپس نہ آتے تو کیا وہ اور ان کے فرزند اس جنگ کو اس قدر دوبارہ منظم کرپاتے؟ کیا نواب صاحب نوجوان نسل کو اپنا پیغام بروقت پہنچاتے؟ کیا نواب صاحب کے فرزند قومی تحریک کے وہ جملہ لوازمات پورا کر پاتے جس کے وہ تگ ودو میں تھے؟
اب آتے ہیں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) یعنی موجودہ جنگ کی پہلی بلوچ مسلح آزادی پسند تنظیم آج سے چار سال قبل جب بی ایل اے ٹوٹا یا تھوڑ دیا گیا اور ساتھ میں بی ایل اے ہی کی طرف سے معطل کیے گئے چند کمانڈروں نے بی ایل اے کے نام سے اپنا ایک الگ گروہ تشکیل دے دیا، اور بڑی تیزی کے ساتھ قابض پاکستانی فوج پر حملے شروع کیے جبکہ بلوچ لبریشن آرمی بار بار یہ واضح کرتا چلا آیا کہ ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں، بقول نواب خیر بخش مری کے یہ جنگ ہے اس میں اتار چھڑاو آتے ہیں بلکل اسی طرح بی ایل اے اور اس کے ہائی کمان نے دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنگ میں بھڑک بازی یا جذباتی ماحول کے پیدا کرنے سے گریز کرتے ہوے صبر و تحمل سے کام لیا۔ اور آہستہ آہستہ خود کو دوبارہ ری آرگنائز کرنے کیلئے دن رات جدو جہد کی ہوگی۔
اس دوران دشمن اور کئی نادان دوست اس بات کی خوشی میں مگن ہوگئے کہ ہم نے بی ایل اے کو تھوڑ کر ختم کردیا، یا انھیں غیر فعال کردیا۔
4 سال کی سخت و دشوار گزار حالات کے دوران بہت سی باتیں ہوئیں ہر کوئی اپنی سوچ کے مطابق بی ایل اے کی طرف انگلی اٹھانے لگا، خود بی ایل اے کے بہت سے کامریڈز اس دشوار حالت کو برداشت نہ کرپائے اور ہر کوئی اپنا راستہ الگ کرکے گھومتا رہا۔ مگر وہ جو خود پر اعتماد و یعقین رکھتے تھے اور جنھوں نے بی ایل اے کی اصولی موقف پر ڈٹ کر کھڑے رہے بھوک، بیماری، سخت لہجے، تہمت و سرینڈری جیسے طعنہ دینے والی الفاظ برداشت کرتے رہے مگر اپنے مضبوط موقف پر ڈٹے رہے۔ پر ایک دن خبر آئی کہ بولان کے سنگلاک پہاڑ پھر سے آباد ہورہے ہیں اور کچھ ہی وقت میں جوانان بی ایل اے نے دشمن پر آگ برسا کر قابض پاکستانی فوج کے گیارہ اہلکاروں کو جہنم واصل کردیا اس بات کو کچھ زیادہ وقت گزرا نہیں تھا کہ دیمی سی ہوا کانوں کو چھو کر ایک میٹھا سا پیغام دے گئی کہ مکران کے پہاڑ بھی اپنے فرزندوں کی آمد میں خوشیاں منا رہے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے خبر سامنے آئی کہ بی ایل اے کے شیر دشمن فوج پر ایک ایسی جگہ (گوادر) طوفان بن کر برس پڑے ہیں جسے دشمن اپنا سب سے محفوظ قلعہ مانتا تھا۔ اس کے بعد آزاد بلوچ کے بیان میں دیکھا گیا کہ بی ایل اے کہیں بھی چاہے اپنے وطن و قوم کی دفاع میں دشمن پر قہر برسا سکتا ہے اور اگر کوئی جاکر اس جگہ کو دیکھے جہاں بی ایل اے کے سرمچاروں نے حملہ کیا ہے انہیں بھی اس بات پر یقین ہو جائے گا کہ بی ایل اے جب بھی چاہے جہاں بھی چاہے دشمن پر اپنا ضرب لگانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
آہستہ مگر درست سمت کی جانب گامزن ہوتے ہوئے بی ایل اے کا سفر آج بھی جاری ہے اور یہ سفر آزاد بلوچستان کی مکمل آزادی تک جاری رہے گا۔ بقول ایک دوست کے بلوچ لبریشن آرمی دشمن کے گالوں پر اسی طرح تمانچے پہ تمانچہ مارتا جائے گا اور اپنے ہر کاروائی کے بعد دشمن اور نادان دوستوں کو اس بات کی یاد دہانی کرتا چلا جائے گا کہ ہم رکے نہیں اور نہ ہی جھکے ہیں۔
آخر میں اپنے پڑھنے والوں کو خاص کار ان افراد کو جو بنا سوچے سمجھے الزامات تراشتے رہتے ہیں کو نواب صاحب کا ایک تاریخی جملہ ضرور یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ابھی بلوچ کی “جنگ جاری ہے ہاری نہیں”!