کوئٹہ:لاپتہ افراد کے لواحقین کے احتجاج میں مختلف سیاست شخصیات نے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ریاست کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا
کوئٹہ(ہمگام نیوز) مقبوضہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں بلوچ اسیران کے لواحقین کا کوئٹہ میں اپنے لاپتہ پیاروں کے باحفاظت بازیابی کے لیے احتجاج کیا گیا جہاں ان کے ساتھ مختلف سیاسی شخصیات نے اظہار یکجہتی کی۔
تفصیلات کے مطابق مقبوضہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں جبری گمشدہ افراد کے لواحقین نے اپنے پیاروں کی باحفاظت بازیابی کے لیے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیاگیا۔
اس احتجاجی مظاہرے میں مختلف سیاسی شخصیات کا ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے قابض ریاست پاکستان کی اس طرح کے جبروستم پر شدید تنقید کی گئی۔
جبری گمشدہ ہونے والی کبیر بلوچ جو 2009 سے لاپتہ ہے ان کی ہمشیرہ کا کہنا تھا کہ ہم اپنے پیاروں کی باحفاظت بازیابی کے لئے اس قابض ریاست کی ہر در و دروازے پر دستک دیئے لیکن ہمیں مایوس کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں آیا۔ اور آج میں اپنی تقریر کی آخر اس ریاست سے اپنی پیاروں کی بازیابی کےلئے اپیل نہیں کرونگی بلکہ میں یہ کہونگی کہ یہ ریاست ہمیں انصاف فراہم نہیں کرے گی کیونکہ یہ ریاست مدینہ نہیں ہے اور نہ ہی یہاں کے انصاف فراہم کرنے والے ادارے آزاد ہے بلکہ یہاں انصاف کے ادارے بکے ہوئے ہیں۔ ہزارہ برادری کے سیاسی شخصیات طاہر ہزارہ سخت لہجے میں ریاست کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لاپتہ افراد کے لواحقین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں کس سے بات کروں اور کیا کہوں کیونکہ دنیا کے مہذب ریاستوں کا آئین اس ملک کی ترقی، استحکام اور عوام کے مسائل اور نظام کو چلانے کے لیے مقدس دستاویز ہوتی ہیں لیکن یہاں 1973 تک تو کوئی آئین ہی نہیں تھا اور اس ریاست میں نہ شرم اور نہ ہی حیا ہے اگر ہوتی تو وہ اب تک یہ مسئلہ حل کر چکی ہوتی۔
یاد رہے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کی قرارداد 47/133 کے مطابق جبری گمشدگی ایک غیر انسانی عمل ہے ۔اس قرارداد کے آرٹیکل 7 کے مطابق “کسی بھی صورت حال میں ،خواہ جنگ کا خطرہ ہو یا جنگ کی حالت ہو ،اندرونی سیاسی عدم استحکام ہو یا کسی بھی عوامی ہنگامی صورتحال ہو جبری گمشدگی کے لئے ریاست کوئی بھی جواز پیش نہیں کرسکتی اور جبری گمشدگیوں کے لئے ریاست جواب دہ ہوگا۔اور ایسی قرارداد کی آرٹیکل 1 کے مطابق ” جبری گمشدگی کے کاروائیوں کو جرم کے تحت دیکھا جائے گا اور یہ انٹرنیشنل قانون کے مطابق ایک قابل سزا جرم ہے۔