پس میں نے اپنے وہ تھوڈے سے لمحات ،جو میں نے اپنی آسودہ اورآرام دہ زندگی میں رہ کر بلوچ جہد آزادی میں گزارے ہیں اور گزار رہاہوں، کو بلا عرف جلال کی قربانیوں سے موازنہ کیا تو شرمندہ ہوا۔ دیکھاکہ بلا کی قربانی کے آگے میری قربانی مونگ پھلی کے دانے جیسا ہے۔ یوں دل میں عطا شاد کا وہ شعر آیا جوانہوں نے بلا جیسےعظیم انسانوں کےلیے لکھا ہے،کہ،
ہم فقیروں کو یوں حیرت سے نہ تکیو ہم کرب سے گزرے ہیں کرامات سے پہلے آہ بلا! تو نمیرانے۔
جلال: وش آھت ے واجہ
نوکیں سرمچار: وش نام بے واجہ۔ کماش آپ کا نام کیا ہے؟
جلال: گونڈل میرا نام جلال ہے
نوکیں سرمچار: کماش اصلی نام جلال ہے یا فرضی؟
جلال: اصلی نام بلوچ آزادی کی تحریک اور میری زندگی کے لیے نقصان دہ ہے اسی لیے میں نےیہ نام رکھا ہے۔ خیر، آپ اصلی نام کو لے کر کیا کروگے؟ بس جلال کافی ہے۔
نوکیں سرمچار: کماش اصلی نام کو جان کر آپ کے گاؤں، علاقےاورپورے بلوچستان کے بلوچوں کو پتا چلے گا کہ فلاں بندہ دشمن کےخلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ یہ سن کرآ پ کے اہل و عیال اور رشتہ داروں کا سر فخر سے اونچا ہوگا اور آپ کو شہرت بھی ملے گی۔
جلال: سنگت، یہ جنگ میں نے شروع کی ہے بلوچ قوم اور بلوچستان کی آزادی کے لیے۔ آزادی کی جنگیں خاص کر کہ گوریلا جنگوں میں رازداری، اپنی شناخت کو چھپانا، بھڑکبازی سے باز رہنا، انتہای اہم عناصرہیں۔ اس کے علاوہ، پختگی ، ذہنی بالیدگی اور سنجیدگی انتہای اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کے بر عکس اگر میں ہیروازم کا شکار ہو کرنام،نمودونمائش اور شہرت کے لیے اپنا نام ظاہر کروں تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ فلاں بندہ دلیرہے، جنگجو ہے، اپنے دشمن سے لڑ رہاے، تو یہ اعمال دشمن کے لیے آ سانیاں پیدا کر سکتا ہے اور ہماری جدوجہد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔
نوکیں سرمچار: کماش ، کیسے نقصان پہنچے گا؟ اس سے تولوگ زیادہ متاثر ہونگے، اپنے علاقے کے کسی جنگجو کا نام کو سن کر لوگ مزید تحریک کی جانب متوجہ ہونگے۔ بہرحال میں آپ کے اس منطق سے قائل نہیں ہوا اور نہ ہی اس کو سمجھ سکا۔
جلال: گونڈل ، نام ظاہر کرنے سے لوگ متوجہ نہیں ہونگے بلکہ آپ کو غیر سنجیدہ سمجھینگے، دوسری طرف سرکار کےپالے ہوئے مخبر آ پ کی شناخت کرنے کے بعد، آپ کے ہر نقل و حمل پر نظر رکھ سکیں گے۔ تحریک میں رہ کے،آگے جا کے آہستہ آہستہ خود آپ کے سمجھ میں آجاےگا۔
نوکیں سرمچار: کماش کیا آپ مجھے کوئی ایسی تصویر کھینچنے دوگے جسمیں آپ کےایک ہاتھ میں کلاشنکوف ہو اور دوسرے ہاتھ میں بی ایم 12 ؟
جلال:وہ کیوں ؟
نوکیں سرمچار: وہ اس لیے تاکہ میں آپ کی فوٹو فیس بُک میں دے دوں ، دشمن اور دنیا کو دکھا سکوں کہ بلوچ گوریلا جنگ میں ایسے خطرناک جنگجوموجود ہیں۔
جلال: معذرت کرتا ہوں
نوکیں سرمچار: کیوں؟
جلال: بیٹا آزادی کے لیے جو گوریلا جنگ ہوتی ہے وہ انتہائی خطرناک اور دشمن کو تھکا دینے والی جنگ ہوتی ہے۔ گوریلا جنگ سے مراد وہ جنگ جس میں آپ چھپ کر دشمن پر وار کرتے ہو اور حملہ کرنے کےبعد ایسے چھپ جاتے ہو کہ دشمن کو پتہ بھی نہیں چلنا چاہیے کہ آپ کہاں سے آئے اور کہاں چلے گئے۔
گوریلا جنگوں سے نمٹنے کےلیے دشمن ریاستیں مختلف ٹیمیں تشکیل دیتی ہیں تاکہ وہ پتہ کر سکیں کہ ان میں نفری کتنی ہے، ان کے پاس کس طرح کا اسلحہ ہے۔ ساتھ ہی ساتھ مخبروں کی ٹیمیں تشکیل دی جاتی ہیں تا کہ وہ لوگوں کو ناموں اور چہروں سے شناخت کر سکیں، یہ معلوم کر سکیں کہ یہ کہاں سے آتے جاتے ہیں۔ اس کے لیے سرکار یا ریاست لاکھوں روپے پیسے لگاتا ہے،اپنی پوری مشینری کو حرکت میں لاتاہےلیکن ڈسپلن اور گوریلا جنگی اصولوں کے پابند ادارے ، اس کےباوجود ریاست کو شکست دے کر اپنی منزل مقصود تک کامیابی سےپہنچ جاتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہم خود بیوقوفی کر کے ٖفوٹو کھینچے اورسوشل میڈیا میں اپلوڈ کریں تا کہ دشمن کا کام آسان ہو۔
مثال کے طور پر آپ ہندوستان میں نکسل ماوسٹ تحریک کو لے لیں جو کئی عرصے سے انڈیا کی سرکار کے خلاف گوریلا جنگ کر رہی ہےلیکن ان کے اکثر لیڈر اور سپاہیوں کے نام اورشناخت مخفی رکھےگئے ہیں۔ انڈیا کو ان سے نمٹنے کے لیے جو سب سے بڑی رکاوٹ ہےوہ ہے ان کے نام اور شناخت تک رسائی حاصل کرنا۔
نوکیں سرمچار: اب سمجھ گیا۔ لیکن آجکل ہمارے سرمچار تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود جنگ میں پہلے دن شامل ہوتے ہی فوٹو سیشن کرتےہیں۔ سوشل میڈیا میں کبھی چےگویرا کی ٹوپی کے ساتھ اور کبھی سنائیپربندوق کے ساتھ والی تصویر دیتے ہیں۔ تو یہ کیسے ہو سکتا ہے آپ اتنے تعلیم یافتہ نہ ہونے کے باوجود، گوریلا جنگی اصولوں کے پابندہو اور ہمارے نوجوان تعلیم یافتہ ہو کہ بھی ان اصولوں کو پاؤں تلےروندتے ہیں؟
جلال:نادان ہیں وہ نوجوان۔ ان حرکات سے خود کو اور تحریک کونقصان پہنچا سکتے ہیں۔ دشمن آسانی سے انکی شناخت کرکے ان کے گھروں تک پہنچ جائے گا اور ان کی ہرنقل و حمل پر نظر رکھ سکتا ہے۔
نوکیں سرمچار: کماش آپ تقریبا کب سے آزادی کے لیے جدوجہدکررہے ہو یا جنگ لڑ رہے ہو؟
جلال:یہ بتانا میں ضروری نہیں سمجھتا۔ بہرحال آپ کی خاطرٹھیک ہےبتاتا ہوں۔ میں جب 16 سال کا تھا تو میں واجہ خیر بخش مری کےکاروان میں شامل ہوا۔ پھر 1992 میں دوبارہ دوستوں کے ساتھ جنگ کی تیاری کی اور 2000میں باقاعدہ جنگ شروع کی۔
نوکیں سرمچار:تو جب آپ نے 16 سال کی عمر میں جنگ شروع کی اوراب 65 سال کے ہو چکے ہو، تو آپ نے کیوں اپنے لئے کوئی الگ تنظیم نہیں بنائی یا کمانڈری کا دعوی نہیں کیا؟ جب کہ آجکل ہمارےنوجوان 3 یا 4 سال جنگ میں رہنے کے بعد یا تو کمانڈری کی مانگ کرتےہیں یا اپنے لیے کوئی علحیدہ تنظیم بناتے ہیں۔
جلال:تو پھر اس طرح کے لوگ اور اعمال تحریک کے لیے بہت خطرناک ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی ذاتی نمود و نمائش ، ذاتی خواہشات آ ورانفرادی مفادات کو حاصل کرنے کے لیے تحریک میں شامل ہوتےہیں۔ ان کی ان حرکات سے تحریک مختلف گروہوں، جتھوں اور پارٹیوں میں بٹ جائے گی جس سے تحریک میں مرکزیت ختم ہوگی۔ بقول صورت خان مری کے پھر یہ پولرائیزیشن سے مختلف گرہوں اور اپنے آپسی اور ذاتی مفادات کو اولین ترجیح دینگے جب کہ قومی آزادی کے مقصد کو ثانوی درجہ دینگے ۔ اپنی پارٹی یا ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے ایک دوسرےسے دست گریبان ہونگے۔ اسی لیے میں نے ہر وقت بطور سپاہی کام کرنے کو ترجیح دی۔ نا کمانڈر بننے کی خواہش کی اور نہ ہی قومی تنظیموں کوتھوڈنے کے بارے میں سوچا۔ بہرحال جو کوئی بھی اپنی ذاتی خواہشات اور مفادات کے لیے قومی آزادی کی سیاسی یا مسلح تنظیموں کو تھوڈتا ہے وہ یا تو دشمن کابھیجا ہوا کوئی بندہ ہوگا یا غیردانستہ دشمن کاکام آسان کررہا ہوگا۔آزادی کےلیے دونوں سیاسی اور مسلح تنظیموں کامظبوط ہونا بہت اہم ہے۔ ہم نے یہ جنگ اپنی آزادی کے لیے شروع کی ہے نہ کہ شوق کمانڈری یا ذاتی مفاد کے حصول کے لئے۔
نوکیں سرمچار:سنا ہے آپ پچھلے 15 سالوں سے اپنے گھر نہیں گئے ہواور نہ ہی کسی طرح سے اپنے بچوں سے ملے ہو؟
جلال: کس نے بولا؟
نوکیں سرمچار: آپ کے کسی قریبی دوست سے معلوم ہوا۔
جلال: اچھا؟
نوکیں سرمچار:کیا میں نے صیح سنا ہے؟
جلال:میں اس لیے ہاں میں جواب نہیں دینا چاہتا کہ کل کو کوئی یہ نہسمجھے کہ جلال قوم پر احسان جتانے کی کوشش کر رہا ہے یا اپنی قربانیوں کا پرچار کررہا ہے۔ بہرحال، جب آپ اتنا اسرار کر رہے ہو تو بتا دیتا ہوں۔ ہمارے کارواں کے لوگ اپنی ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو فوقیت دیتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ ہم یا میں کوئی مشین ہیں، میری کوئی خواہشات اور جذبات نہیں ہیں۔ لیکن کبھی کبھی قربان کرنے پڑ تے ہیں۔ پچھلے 15 سالوں سے میرے ذمہ کچھ ایسی قومی ذمہ داریاں تھیں اور اگر میں گھر جاتا تو وہ کام اور ذمہ داریاں ادھوری رہ جاتیں، پوری نہیں ہوسکتیں اور ان کاموں کے پورے نہ ہونے سے جہد آزادی کو کافی نقصان ہوتا۔ حالانکہ، مجھے اپنے بچوں کی یادیں ہر وقت ستاتی تھیں، انکو گلے لگانے کیلے میں ترستا تھا، عید کے موقعے پر بچوں سے دور ہوکر میرا دل خون کے آنسوروتا تھا۔ دوسری طرف میرے بچے بھی اسی قرب سے گزرتے ہونگے۔ میں زندہ ہو نے کے باوجود بھی میرے بچے یتیمی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں لیکن قومی مفادات کو میں نے ذاتی مفادات پر مقدم رکھا۔ اس دوران بچوں کی دوری اور یادوں نے کھبی بھی میرے حوصلے کو پست نہیں کیا اور نہ ہی میرے ارادوں کو کمزوری کیا۔
نوکیں سرمچار:تو ان 16 سالوں کے دوران آپ کے بچے جوان ہوگئے ہوں گے؟
جلال: ہنستے ہوے بولے ،ظاہر ہے۔
نوکیں سرمچار: تو کیا آپ کی تنظیم کے اصول ایسے ہیں کہ اس میں جو بھی آتا ہے تو آسانی سے گھر نہیں جا سکتا یا چھٹی نہیں ملتی؟
جلال: نہیں ایسا کوی اصول نہیں ہے میری تنظیم میں، جنگجو اپنےگھر والوں سے ملنے جا سکتے ہیں۔ لیکن کیونکہ میرے ذمہ کحچھ اہم کام تھے اس لیے نہیں جا سکا۔البتہ میرے کارواں میں شامل میری طرح کے جنگجو، آپ کو اور بھی بہت ملیں گے۔
نوکیں سرمچار: یہ آزاد جو آپ کے تنطیم کاترجمان ہے، کون ہے کیسا دکھتا ہے؟
جلال:آزاد کو میں نے خود بھی نہیں دیکھا ہے اور نہ اس کو جاننے کی کوشش کی ہے۔ جب آزاد سارے کام اصولوں اورنظم و ظبط کے تحت کررہا ہے تو اس کو جاننے کی کیا ضرورت ہے، اور آزاد کو اصولاً اپنی شناخت کو چھپانا چاہئے نہ کہ فوٹو سیشن کرنا چاہئے۔
نوکیں سرمچار: آپ کے ہاتھ، پاؤں اور گردن پر زخموں کے نشان ہیں، کیا آپ جنگ کبھی میں زخمی بھی ہوئے تھے؟
جلال: تھوڈی خاموشی اختیارکرنے کے بعد بولے، نہیں پہاڑ سے گر گیا تھا۔
مراد: (مراد جو جلال کی عمر کا ایک اور گوریلہ سپاہی تھوڈے فاصلے پر بھیٹا ہوا تھا) نہیں یہ پہاڑ سے گرنے کے زخم نہیں ہیں بلکہ2016 اور2017 کو دشمن فوج کی جانب سے تین چار دفعہ ہمارے کیمپ پر فضائی بمباری ہوئی تھی تو جلال نے دوستوں کو بچایا اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کرکیمپ کا دفاع کیا لیکن ہر دفعہ خود زخمی ہوئے۔ یہ نشانات انہی زخموں کے ہیں۔
نوکیں سرمچار: میں نے مست توکلی کے بارے میں سنا ہے کہ وہ سمو کے عشق میں دیوانہ ہوا، شے مرید، ھانی کی محبت میں جلا وطن ہوا تھا۔ دونوں عاشقوں نے شادی نہیں کی بلکہ اپنے اپنے معشوقوں کے خیال محبت میں کچھ اسطرح مگن ہوئے کہ کب بڈھاپے نے انکی کمر ٹیڑھی کی اور کب موت نے ان کو اپنی آغوش میں لیا، ان کو پتہ ہی نہیں چلا۔ لیکن جلال تو نہ کسی سمو اور نہ کسی ھانی کا دیوانہ ہے بلکہ اس نے تواپنی جوانی اور بڑھاپا دونوں صرف اور صرف وطن کی عشق میں لٹادئیے۔ میری حیرانگی کی وسعت نہیں رہی کہ ایسے بھی سرمچار ہوتےہیں۔ اتنی سکت، اتنی برداشت تو میں نے سنا ہے کہ صرف فرشتوں کے پاس ہوتا ہے۔
جمادار مری: تھوڈے فاصلے پہ بیٹھا ہوا تھا جمادار مرینے نوکیں سرمچارکی حیرانگی کو دیکھ کر یہ شعر بولا،
مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کحچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے
کیمپ سے واپس اپنےعلاقے میں جاتےہوئے ایف سی کی چوکی پر میرے گاڑی کو روکا گیا مجھے اترنے کو کہاگیا۔ حسب معمول کچھ سوالات کدھر سے آرہے ہو، کہاں جارہے کے بعد ایف سی والے نے پوچھا کہ بلا کو جانتے ہو؟
میں نے جواب دیا، نہیں کون ہے بلا؟ کوئی فوٹو وغیرہ ہے؟ جس کے جواب میں ایف سی والے نے کہا۔
فوٹو تو نہیں ہے البتہ ہم نے اپنےآفیسروں اور حکام بالا سے سنا ہے کہ اوپر اللہ نیچےبلا۔یہ کہ کر ایف سی نے ہمیں جانے کی اجازت دے دی۔
غالباً 13 تاریخ کو جب میں سوشل میڈیا میں اخبار دیکھ رہاتھا تو دیکھا کہ بی ایل اے کا کوئی عظیم کمانڈر شہید ہوا ہےتصویر دیکھی تونہیں پہچانا۔ جب خبر تفصیل سے پڑھی تو دیکھا کہ بلا مری عرف جلال شہید ہوا ہے۔