کہتے ہیں کہ کسی بھی تحریک یا سیاسی موومنٹ کی کامیابی کا انحصار اس کی عوامی قوت اور اسٹریٹیجک اہمیت پر ہوتا ہے بالکل اسی طرح آج بلوچ قومی آزادی کے رواں اس جنگ کا انحصار انہی دو نقطوں پر ہے،ویسے بلوچ قوم نے ہمیشہ ان بیرونی  قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے جنہوں نے بلوچ سرزمین اور اس کی شناخت کو مٹانے کی کوشش کی ہو۔بلوچستان پر پرتگیزیوں،انگریز کے نو آبادیاتی پالیسیوں کے خلاف بلوچ قوم نے ہمیشہ شدت سے مزاحمت کرکے اپنی وطن کا دفاع کیا خواہ وہ قصہ Defence of Kahan ہو یا کہ 1839میں انگریز سامراج کے خلاف  خان محراب خان کی تند و تیز مزاحمت بلوچ نے ہمیشہ تاریخ میں اپنے مزاحمتی کردار سے انمٹ نقش چھوڑے۔
بدقسمتی سے جب سے بلوچستان پر  ایرانی رجیم نے 1829اور پاکستانی پنجابی اسٹیبلشمنٹ نے 27مارچ1948کو انگریز سامراج کی مدد سے  اپنا ناجائز قبضہ جمایا  اس وقت سے لیکر تا ہنوز بلوچ قوم مزاحمت میں مصروف ہے لیکن پاکستان و ایران کی چالاکیوں کے سامنے بلوچ قوم اپنی کمزوریوں کی وجہ سے ہمیشہ ہیچ ثابت ہوئی ہے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔
تاریخ نے بلوچ قوم کو ان قبضہ گیرقوتوں سے چھٹکارا پانے کا کئی مرتبہ موقع فراہم کیا تھا لیکن شومئی قسمت بلوچ قیادت کی آپسی چپقلش اور نااہلانہ فیصلوں نے اس غلامی کو مزید طول دیا،پاکستانی زیر قبضہ بلوچستان پر جب 1948پر قبضہ کیا گیا حالانکہ اس وقت پاکستان کی فوجی قوت بھی اتنی نہیں تھی لیکن خان قلات کی سست رویانہ رویہ اور کمزور سیاسی حکمت نے بلوچ کو اس قابل نہیں کیا کہ وہ شدت سے مزاحمت کرے،گو کہ  تاریخ دان کہتے ہیں کہ اس وقت ایوان زیریں میں  میر غوث بخش بزنجو نے اپنی تاریخی خطاب میں اس الحاق کے خلاف تقریر کی لیکن بعد میں جب پاکستان 1947 کے بعد سے لیکر 1971تک مسلسل پیچیدگیوں اور حکمرانی کمزوریوں کا شکار رہا تھا  اس وقت کے بلوچ قیادت میر غوث بخش بزنجو سمیت باقی بلوچ قیادت میں فیصلہ کرنے کی قوت شاید موجود ہی نہیں تھی کہ وہ ان کمزوریوں سے فائدہ اٹھائیں۔مشرقی پاکستان کے زیرک سیاست دان شیخ مجیب الرحمن نے اپنی مدبرانہ سیاست سے بنگلہ دیش میں ایک تاریخ رقم کی انہوں نے اپنی مدبرانہ سیاست سے عوام کو اتنا موبلائز کیا جس سے نتائج بنگلہ دیش کی آجوئی ممکن ہوئی۔لیکن بلوچ قیادت ہمیشہ مصلحت پسندی کا شکار رہ کر اپنے آپسی چپقلش اور اختلافات سے کسی بھی سیاسی موقعے سے فائدہ نہیں اٹھا پائے۔
جب 1951کو بلوچستان پر قبضے کے تین سال بعد پاکستانی وزیر اعظم لیاقت علی خان قتل ہوئے تو اس کے بعد پاکستان پر ایک فالج زدہ  ملک غلام محمد کو گورنر جنرل بنا دیا گیا جس سے  نا اس وقت  پاکستان میں کوئی آئین تھی اور نا ہی انتظامی سطح پر پاکستان میں کوئی حکومتی نظام وجود رکھتا تھا،حالانکہ اس وقت  بین الاقوامی سطح پر اقوام اور ان کی قومی تشخص کی حفاظت کے لئے United Nation معرض وجود میں آچکا تھا بلوچ قیادت اگر سیاسی قیادت مندی کا مظاہرہ کرتے تو یقینا بلوچ کیس کو اس وقت اقوام متحدہ لے جا سکتے تھے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔تاریخ دان یہ بھی کہتے ہیں  کہ پاکستان کے اس وقت کی فالج زدہ گورنر جنرل ملک غلام محمد پاکستان میں عوامی امنگوں کو سمجھنے سے بالکل قاصر تھے کیونکہ وہ کوئی زیرک سیاست دان نہیں تھا بلکہ ایک بیوروکریٹ تھا جنہیں اٹھا کر گورنر جنرل کے عہدے پر فائز کیا گیا۔گو کہ بلوچستان پر پاکستانی قبضہ گیریت کے خلاف آغا کریم اور بعد میں بابو نوروز نے ایک حد تک مزاحمت کی لیکن ان مزاحمت کو ما بعد  بلوچ قیادت نے ہی پاکستانی چالبازیوں میں آکر ختم کروایا اور اس وقت پاکستان سے کئی دغا بازیوں کا  ایک نیا سلسلہ شروع ہوا جو بعد میں بابو نوروز کی فوتگی تک جا پہنچا۔
1951سے لیکر 1971تک پاکستان میں سیاسی بے چینی،سیاسی افراتفری اور توڑ جوڑانہ سیاست کا رواج تھا،یوں کہیں کہ پاکستان سیاسی طور پر کسی صورت Stable نہیں تھا لیکن ستم بالائے ستم بلوچ سیاسی قیادت نے ان کمزوریوں سے کوئی بھی فائدہ نہیں اٹھایا۔پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں کسی بھی وقت مکمل جمہوری سیاست یا جمہوری قیادت کو پروان چڑھنے نہیں دیا گیا ہم اس بات کا اندازہ کچھ یوں لگا سکتے ہیں کہ جب پاکستان پر فالج زدہ گورنر جنرل مسلط کی گئی تھی اس کے بعد جب انہیں زبردستی فوجی آمر ایوب خان اور اسکندر مرزا نے مجبورکرکے استعفیٰ دلا کر لندن بھیجا پھر بعد میں جب اسکندر  مرزا پاکستان کے نئے گورنر جنرل بنے بھی تھے تب بھی پاکستان میں جمہوری رویے پروان نہیں چڑھ پائے وہیں سے مشرقی پاکستان یعنی آج کے بنگلہ دیش پر سیاسی ظلم اور ستم کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو بنگلہ دیش کی آزادی تک جا رکا لیکن اس دوران بلوچ قیادت نے کسی صورت ان حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی بلکہ وہ ہمیشہ پشتون اور پاکستان میں موجود دوسرے سیاسی قوتوں کے ہاتھوں استعمال ہوتے رہے جس کا برملا اظہار بعد میں جاکر  موجودہ بلوچ مزاحمت کے سرخیل نواب خیر بخش مری نے کئی دفعہ کیا تھا۔
ہم سیاسی طور پر پاکستان کی کمزور حکمرانی اور سیاسی افراتفری کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ 1948سے لیکر 1958 تک پاکستان میں کسی بھی طرح مکمل جمہوری نظام نہیں تھا پاکستان کے حکمران اپنے موڈ کے حساب سے کسی بھی وقت کسی بھی طریقے سے موجود  وزیر اعظموں کو بدلتے تھے اسی ضمن میں ہندوستان کے وزیر اعظم پنڈت نہرو کا وہ قول تاریخ کا حصہ بن گیا کہ ”میں اتنی دھوتیاں نہیں بدلتا جتنی تیزی سے پاکستان کے وزیر اعظم بدلتے ہیں”
بلوچ قیادت کو 1958 اور 1969 کو وہ پہلا موقع مل چکا تھا کہ مکمل طور پر پاکستان میں فوجی آمر جنرل ایوب  نے جب پاکستان پر پہلا مارشل لا نافذ کیا تھا جنہوں نے  جمہوری روایات کا قلعہ قمعہ کرکے ایبڈو اور فراڈا جیسے قوانین بنا کر پاکستان میں سیاہ و سفید کے مالک بن چکے تھے اس آمریت سے فائدہ اٹھا کر بلوچ سیاسی قیادت کسی بھی طرح سے بلوچستان کی قبضہ گیریت کے خلاف اپنا جدوجہد تیز کرکے بلوچستان کو آزاد کرسکتے تھے لیکن انہوں نے بجائے ایسے مدبر سیاسی فیصلہ کرنے کے ہمیشہ پاکستان کے دوسرے سیاست دانوں کے ماتحت رہ کر ہر وقت کئی مواقعوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع گنوایا جس کا سلسلہ  تا ہنوز بھی جاری ہے۔
جب 1969 کو جنرل یحیٰ خان نے جنرل ایوب کو مجبور کرکے ان سے استعفیٰ دلوایا پھر ایک سال بعد ستر کی دہائی میں بلوچستان کی آزادی کے لئے مری و مینگل سمیت بلوچوں کی ایک مضبوط مزاحمت شروع ہوئی اس سے ایسا لگ رہا تھا کہ اس مزاحمت سے ہچکولے کھاتی پاکستانی نیّہ جلد ڈوب جائے گا اور وہ مجبور ہوکر بلوچستان کی پہلی حیثیت جو 1947 سے تھا بحال کرے گا لیکن شومئی قسمت اس بار بھی بلوچ سیاسی قیادت کی کوئی بھی حکمت عملی کام نہیں آئی لہذا پاکستان نے ایرانی فاشسٹ شاہی رجیم کے ساتھ مل کر بلوچ مزاحمت کو کچل ڈالا۔حالانکہ 1971 کو جب سولہ دسمبر شیخ مجیب الرحمن کی انتھک سیاسی جدوجہد اور پاکستان کی کمزور نیّہ سے فائدہ اٹھا کر بنگلہ دیش کو آزاد کیا گیا تھا اس وقت بھی بلوچ سیاسی قیادت کو دوسرا بڑا موقع فراہم ہوچکا تھا  کیونکہ 1970 کے صدارتی الیکشن میں مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب کلین سوئپ کرچکے تھے اور مغربی پاکستان میں زولفقار بھٹو کا اکثریت تھا لیکن بعد میں پیدا ہونے والی سیاسی بے چینی اور مشرقی پاکستان میں ابھری سیاسی مزاحمت سے پاکستان انتہاء درجے تک کمزور ہوچکا تھا بجائے بلوچ قیادت ان موقعوں سے فائدہ اٹھاتے وہ ہمیشہ حسبِ روایات پاکستان کے دوسرے سیاست دانوں کے ہاتھوں استعمال ہوئے۔
نیشنل عوامی پارٹی کو توڑنے کے بعد جب پاکستان  میں سیاسی بے چینی اپنے انتہاء کو چو رہی تھی تب بھی بلوچ سیاسی قیادت بجائے اپنا ایک مکمل سیاسی قوت تشکیل دیتے  جس سے کم از کم سیاسی صورت میں بلوچ قوم کی سیاسی پوزیشن واضع ہوسکتا تھا لیکن نیپ میں جس طرح بلوچ قیادت آپس میں ایک دوسرے کے متضاد رویوں کے شکار ہوئے جس سے بلوچستان میں ایک طویل سیاسی Break Down کا سلسلہ شروع ہوا تب سے لیکر آج تک یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔حالانکہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جب 16 دسمبر 1971 بنگلہ دیش آزاد ہوا تھا اس وقت پاکستان مکمل طور پر ٹوٹ چکا تھا دوسری جانب ہندوستان اس پوزیشن پر تھا کہ لاہور اور سیالکوٹ تک اپنا قبضہ جمائے،بین الاقوامی مداخلت سے  ہندوستان پھر Back  کرگیا لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس دوروان بلوچ لیڈر نواب اکبر خان بگٹی بنگلہ دیش گئے تھے جہاں ان کی ملاقات شیخ مجیب الرحمن سے ہوئی تھی اور وہ اس پوزیشن پر تھے کہ نیپ کے فلیٹ فارم پر وہاں بلوچستان کی آزادی کا اعلان کریں لیکن بلوچ قیادت کی آپسی چپقلش،انا اور ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر رہنے کا خلا ان تمام محرکات کے آگے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئی اور اس رویے کے بعد بلوچستان پر گویا آسیب کے وہ سائے منڈلانے لگے جس کا اندازہ شاید ہی تاریخ میں کوئی کرے، اور ہاں انہی رویوں کی دَین ہے کہ آج تک بلوچ قیادت کے اندر ایک دوسرے پر خامخواہ سبقت لے جانے کی بازی جاری ہے جس سے بلوچستان آئے روز آس و آہن کی لپیٹ میں اپنا دامن بچانے کی کوشش میں ہے۔
وقت گزرتا گیا بلوچ سرزمین اپنی غلامی کی طویل داستان کو سکینڈ اور منٹوں سے حساب لگاتا جارہا تھا کہ اس دوران موجودہ بلوچ مزاحمت کے سرخیل نواب خیر بخش مری کو یہ احساس ہوچلا کہ ”اب بس” انہیں اس امر کا ادراک ہوگیا کہ ماضی کے پے در پے  ناکام تجربات اور پاکستان میں موجود دوسرے سیاسی قوتوں کے ہاتھوں مزید استعمال ہوکر پاکستانی دائرہ کار میں رہنا حماقت ہی ہوگی۔لہذا انہوں نے 1999 سے لیکر 2000 تک بلوچ قومی جنگ کو ایک نیا ولولہ دیا اس جنگ کو سائنسی بنیادوں پر گزشتہ تمام ناکام تجربات کو سامنے رکھ کر نئے ڈھنگ سے لڑنے کی کوشش کی مسلسل دس سال تک یہ جنگ بلوچستان کے کونے کونے تک پہنچ گیا،جو قوتیں ابھی بھی چاہتی تھیں کہ وہ پاکستانی Frame work میں رہ کر بلوچ حقوق حاصل کرلیں گے اس  موجودہ جنگ نے ان کا اصل چہرہ بلوچ قوم کے سامنے عیاں کیا اور یہ ثابت ہوگیا کہ پاکستانی سیاست بلوچ کے لئے زہر قاتل کے سوا کچھ نہیں۔
اس جنگ نے بلوچ قومی تحریک کو وہ انمول ہیرے دیے جن کی قیادت مندانہ سوچ سے یہ جنگ انتہائی تیزی سے سیاسی و مزاحمتی سطح پر اپنے منزل کی جانب رواں دواں تھا،لیکن کہتے ہیں کہ دوران جدوجہد جب سیاسی قیادت کے مفادات ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں تو کسی بھی جدوجہد کی باقیات ہی شاید پھر بچ جائیں اس لئے پھر سے جنم لیتی مفادات کے حصول مجموعی قومی تحریک کے سامنے پھر سے حائل ہونا  شروع ہوئے اور بلوچ قومی قیادت ایک مرتبہ پھر تقسیم در تقسیم کا شکار ہوا۔ان تمام وجوہات کو مدنظر رکھ کر دشمن نے انتہائی  پھرتی سے اپنی پالیسیاں تبدیل کرنا شروع کیا گویا وہ بلوچ کے سیاسی نفسیات پر حاوی ہوتا گیا اور آج جب بلوچستان میں ریاستی پالیسیوں پر نظر دوڑا کر دیکھا جائے تو بلوچ قومی قیادت کے لئے ایک بڑا سیاسی چیلنج پیدا ہوچکا ہے اور اس سیاسی چیلنج کو بلوچ قومی قیادت کی مشترکہ پالیسیاں اور پائیدار سیاسی عمل سمیت مثبت رویے ہی سے مقابلہ کیا جاسکتا ہے ۔اب وقت کا یہ تیز دھارا بلوچ سیاسی قیادت کے درمیان مزید دوریاں پیدا کرے گا یا انہیں ایک مرتبہ پھر ایک ساتھ ملائے گا یہ بلوچ سیاسی قیادت کی بصیرت پر منحصر ہے کہ وہ کس رستے کا مسافر بننے کی کوشش کریں گے.