گوریلا جنگ میں کمزور طاقتور پر غالب آکر اسے مغلوب کرتا ہے ،غیر منظم خانہ بدوش کی روم کے خلاف جنگ سے لیکر آ ج کے منظم اور جدید گوریلا جنگ میں نمایا ں تبدیلی رونما ہوا ہے ، Akkadian empireکے خلافGutianکی مارو اور بھاگو گوریلا جنگ کہ جنھون نے۲۲ قبل مسیح میں سلطنت اکد کو شکست دیکر الگ سے سلطنت قائم کی ، نیپولین نے جب روس کے خلاف جاریت کی اس وقت روس کی فوجی طاقت کمزور تھی اس نے فرانس کے خلاف گوریلا جنگ لڑ کر اسے شکست دی روسی اس جنگ کو مھٹی اور کلہاڈی کے درمیان کی جنگ کہتے تھے پھر بعد میں آمریکن جنگ آزادی میں گوریلا جنگ میں تبدیلی لائی گئی اور جنگ کی شکل توڈا تبدیل ہوتا ہوا نظر آیا ۔نیپولین کے خلاف یورپ کے باقی ممالک کی جزیرہ نماآئبیریامیں گوریلا جنگ میں الگ راہ اور مورچہ اپنایا گیا ، Peninsular War (180815014)کی جنگ میں لفظ گوریلا کا استعمال ہوئی ،پھر باقی ممالک میں گوریلا پھیلتی گئی اسکا استعمال عام ہونا شروع ہوا ۔پیلی اور دوسری جنگ عظیم میں T. E. Lawrenceاور فیصل نے ترک کے خلاف گوریلا جنگ لڑی ، مغربی یورپ کے زیادہ تر ممالک نے گوریلا جنگ لڈی دوسری جنگ عظیم کے بعد گوریلا جنگ زیادہ تر قومی آزادی کے لیے لڑی گئی ،کربین جزائر کے ملک ہیٹی نے بھی فرانس کے خلاف غلامی کی مخالفت پر گوریلا جنگ لڈی لیکن بعد میں غلامی کی مہم ایک قومی ریاست کی تشکیل کی شکل اختیار کر گیا یہ جنگ ۱۸۰۸میں لڈی گئی ہیٹی کے لوگ فرانس کے انقلاب سے متاثر تھے اسی طرح کی برابری کے حساب سے انقلاب لانا چاہتے تھے اور پھر وہ جہد قومی الگ ریاست کی شکل میں منطقی انجام تک پنچا ۔ویت نام کی گوریلا جنگ بھی کسی حد تک منفرد تھی اور اس میں پہلے فرانس کو گوریلاجنگ سے شکست دیا گیا اور بعد میں آمریکہ جسے طاقت کو انھوں نے اپنی گوریلاجنگی حکمت عملی سے شکست فاش دیکر فتح یاب ہوئے ۔ویت نام کی جنگ میں تین مرحلے وار جدوجہد کی منصوبہ بندی کی گئی ۔پہلے جنگ کو localisedکیا گیا دوسرا وار �آف مومنٹ کیا گیا اور آخر میں مجموعی چڈھائی کی گئی ۔جہاں تین درجے کی فورس تشکیل دی گئی ایک دیہاتی ملیشادوسرا مکمل وقتی باقاعدہ فوج تشکیل دیکر جنگ لڑی گئی ۔گوریلا جنگ میں جو اہمیت کا حامل ہے وہ ہے کہ کہانی کو کس طرح کا شکل دینا ہے ،کہانی کو صیح شکل دینا گوریلا کی قابلیت اور صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے جس طرح جیاف کی لیڈر شپ اور مہارت ویت نام کی جنگ میں ظاہر ہوا ،جنھون نے دو طاقتوں کو کس طرح کی شکست دیکر اپنی قوم کو غلامی سے چٹکارا دلایا ۔جبکہ قابض کی زیادہ کوشش ہوتی ہے کہ hi-tech warشروع کر کے جہد کو ختم کریں لیکن یہ حکمت عملی الٹا جہد کے حق میں جاتا ہے ۔آمریکہ نے ویت نام میں یہ جنگ شروع کیا لیکن اس سے مزامت میں کمی کے بجائے شدت آیا اور خود بخود گوریلاوں کو قابض کے عمل سے عوامی حمایت مل گئی امریکہ نے بی ۵۲ بمبر ،توپ ،پیٹرول کی جیلی ،اور Agent Orangeبھی استعمال کیا لیکن اسے کامیابی نہیں مل سکی zippo raids”کے تحت سارے گاوں جلائے گئے کئی بے گناہوں کو موت کے سپرد کیا گیا لیکن قابض کی اس طرح کی تشدد ظلم جبر سے ویتنامی جہد کو فائدہ ہوا اور لوگ قابض کے خلاف ہوتے گئے ۔لیکن قومی جنگ میں جہاں قوم اور لوگوں کی حمایت جہد کے ساتھ ہوتا ہے قابض کی بربریت سے وہ مزید مضبوط اور منظم ہوتا ہے ۔گوریلا جنگ الجزائر میں ۱۹۵۴ میں شروع ہوکر سخت تشدد کے ساتھ ۱۹۶۱ میں فرانس کی قبضہ گریت کے خاتمے تک ختم ہوا قبرص میں گریک قوم پرستوں نے برطانیہ کے قبضہ کے خلاف ۱۹۵۴ میں گوریلا جنگ شروع کیا جو ۱۹۵۹ میں انکی آزادی تک جاری رہا ،کنیا ،تنزانیہ سب میں قوم پرستی کے پرچم تلے جنگیں لڑی گئی اور وہ اپنے مقصد کے کامیابی تک جاری رے اور ہر جگہ مختلف ہربہ انکے حالات کے مطابق استعمال ہوئے ،ماضی کی جنگیں زیادہ تر طول پکڑنے والی تھی ،جس میں کوئی مددت وقت کا عمل دخل نہیں تھا وہ کہتے تھے جنگ جتنی طول پکڑے گی قا بض کے لیے اتنا مشکل ہوگا لیکن ۸۸ کے بعد اس میں تبدیلی رونما ہوئی اب جتنے بھی جہد کامیاب ہوئے ہیں سب میں ،جنگ علاقائی سے نکل کر بین لقوامی مسلہ بن کر کامیاب ہوئے ،کوسووو ،ہری ٹیریا ،جنوبی سوڈان ،مشرقی تعیمور کی جنگ حالیہ جنگ تھیں جو کامیاب ہوئے ،ان سب میں ایک چیز مماثلت ہے کہ یہ وقت ،بین القواقوامی سیاست ،خطے کے حالات کو اپنے حق میں ہموار کر واکر اپنے ایشو کو دنیا کا ایشو بنا کر کامیاب ہوئے ۔انکی سیاست مفادت،مسلہ،عالمی سیاست میں اثر کرنے والی طاقتوں کے ساتھ باہم متعلق تھے ان میں باہم تعلق پیدا کرکے یہ اپنی جہد کو کامیاب کرواسکے ۔یہ طول پکڑنے والی جنگ کے بجائے باقاعدہ جنگ کی شکل اختیار کرکے کامیاب ہوئے ،اور اس وقت تک low level کوئی بھی انسرجنسی کامیاب نہیں ہو سکا انکی کامیابی کے بہت کم امکانات ہیں اس وقت اس طرح کی بہت سی تحریکں چل ری ہیں جو کم لیول کی انسرجنسی ہیں کم لیول انسرجنسی کامیاب نہیں ہوپا رے ہیں جس میں کشمیر ،جنوبی تائی لینڈ،آسام تحریک ،اوغاڈان ،فلسطین،Chiapas،،،RENAMO،Ituri conflict باسک ، ،فلیمش،چیچن،سمیت سینکڑوں بلوچ جہد کی طرح کی کم لیول کی تحریک چل رہی ہیں لیکن انھین کوئی کامیابی نہیں مل رہی ہے کچھ تحریکں ۲۰۰ سال سے چل رہی ہیں کچھ ۴۰۰ سال سے تو باقی ۵۰ سے ۶۰ سال سے جہد کر رہی ہیں ائرش تقریا ۲۰۰ سال سے زیادہ کی جہد کا مسلسل ہے اور ۱۹۱۹ سے یہ مسلح جہد کر رہا ہے لیکن انکے مکمل کامیابی کے بہت کم مواقع ہیں ،باسک لوگ بھی لگ بھگ دو سو سال سے جہد کررہا ہے ETAخود ۱۸۵۶ سے جہد کرہا ہے لیکن اج تک کامیاب نہیں ہو سکا ہے کیونکہ یہ کم لیول کی انسرجنسی سے اوپر نہیں جا سکے ہیں اور انکے مفادات دنیا کو تبدیل کرنے والی طاقتوں کے مفادات سے ہم اہنگ نہیں ہیں ،اس لیے یہ کامیاب نہیں ہو پا رے ہیں ۔بلوچ انسرجنسی بھی low level انسرجنسی ہے انگریز کے خلاف سے بلوچ قوم گوریلا اور سیاسی حوالے سے مہم چلا تا ارہا ہے ، لوگ دھرتی کی خاطر لہو نچاور کرتے آرے ہیں جبکہ کچھ لوگ انگریز کے دور سے لیکر اب تک قابض کی دلالی کر رے ہیں کچھ لوگوں جیسا کہ مہراب خان ،بلوچ خان ،خیربخش مری ،نے انگریز کے خلاف جرات رندانہ اور حملانہ کا ثبوت دیا جبکہ کچھ سرداروں نے زلت آمیز حرکت کرتے ہو ئے انگریز کی بھگی کو ریزیڈینسی سے ریلوے اسٹیشن تک کھنچ کر لے گئے ،اس لیے مزار بنگزئی نے اپنی نظم میں خیر بخش کی اس طرح تعریف کیا کہ تھجے آفریں باد خیربخش مری ، ہے آنکھوں میں تیری جو غیرت بھری ، ہے تجھ پر حلال دودھ بھی مادری ، تیری عمرجتنی ہو کوہ چھلگری ، وہ جنگ بلوچ جیت گئے اور خطے کی حالت بھی تبدیل ہوئے اور پھر پاکستان کی شکل میں بلوچ قوم کو غلامی کی مظبوط زنجیروں میں جھکڑا گیا ،قبضہ گریت کے خلاف ۴کے قریب جنگیں لڑی گئی اس میں درمیان کا وقفہ بھی آتا گیا ،بین القوامی حالات بھی ایک وقت میں قوم کے حق میں ہموار تھے ،سب قوموں نے وہاں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قومی ٓآزادی حاصل کی ۔ ۱۹۶۰کے بعد اور آمریکہ روس سرد جنگ کے دوران ،دنیا میں زیادہ تر قوموں نے بڈے پیمانے پر آزادی حاصل کی اس میں الجریا،بنگلہ دیش ،برونائی ،برونڈی،چاڈ،کانگو،چیک ،فیجی ،کینیا وغیرہ ،اس سے پیلے دنیا میں صرف ۵۰ کے قریب آزاد ریاستیں تھی لیکن ۶۰ کے بعد بڈھ کر اب یہ تقریا ۲۰۰ ریاستیں بن چکی ہیں زیادہ تر اس وقت کی حالات کی وجہ سے آزاد ہوچکے ہیں لیکن بلوچ قوم نے ان حالات سے فائدہ اٹھانے کے بجائے نظریاتی جنگ میں خود کو تسلی دیتے رے ،وہ موقع تھا قوم نے اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا ،جنگ بھی لڑی قربانیاں بھی دی ،گھر ویران ہوئے ،بچے یتیم ہوئے،قوم دربدرہوئی لیکن اس موقع سے جہان فائدہ اٹھانا تھا قوم وہاں فائدہ نہیں اٹھا سکا ،پھر قوم کے رازق ،جالب،کہورخان ،بعد میں مالک ،وغیرہ نے جزبات کو ابھار کر فضول سرداری نوبی مڈل کلاس کے بحث میں ڈال کر مواقع گنوائے اور بعد میں سب پاکستان کے پسندیدہ لوگ بن گئے اور ا س وقت کے لیڈر شپ بھی اس موقع سے فائدہ نہ اٹھانے کا ذمدار بھی ہے،اب دوبارہ قسمت تقدیر بلوچ کے دروزے پر دستک دے رہا ہے اور کسی نہ کسی حد تک بلوچ قوم کے مفادات دنیا کی سیاست اور جغرافیہ کو تبدیل کرنے والی طاقتوں کے مفادات سے ہم ہنگ ہورہا ہے ،جنگ بھی بلوچ لڑ رہا ہے ،اب بلوچ مسلہ کو دنیا کا مسلہ بنانا ہوگا اور ساتھ ہی ساتھ گوریلا جنگ کو low level ا نسرجنسی سے نکال کر باقاعدہ اور منظم جنگ کی شکل دینا ہوگا ،اس کے لیے عوامی حمایت بے حد ضروری ہے اور قوم اور لوگوں میں اپنی حمایت کے بحالی کے لیے عملی اقدامات اٹھاناہوگا ،یہ جنگ بقول نواب اکبر خان بگٹی بلوچ قوم کی آخری جنگ ہے اور اگر گودر کی شکل میں قابض کا اسکیم کامیاب ہوا تو بلوچ قوم نیست نابود ،اور فنا ہو جائے گا ،اگر اس سنجوگ سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا اور اسے ماضی کی طرح ہاتھ سے نکالنے دیا گیا پھر قصور وار قو م کے زانتکار ،ادیب دانشور،لیڈر ہونگے ،پھر اس طرح کے مواقع کا ملنا دیوانہ کا خواب ہی ہو سکتا ہے ،گوادر اسکیم بلوچ قومی آزادی کی چابی بھی ہو سکتا ہے اور بلوچ قوم کو نیست نابود کرنے کا ذریع بھی بن سکتا ہے ،اس میں وقت کی بہت بڈی اہمیت ہے ،سب کچھ ایسی کم مدت میں کرنا ہے Jean de La Fontaineنے وقت کے حوالے کہا کہ قائم مزاجی،ثابت قدمی اور وقت سکت طاقت ، و قوت اورجوش وجزبہ سے زیادہ ہم اور کار گر ہے اگر اس وقت سے قوم نے فائدہ اٹھایا اور جہد میں شدت لاتے ہوئے جنگ کو سفارتخاری سے قلابہ ربط کرتے ہوئے بلوچ معاملہ کو دنیا کا معاملہ بنایا اور قومی مکمل حمایت کو کم مدت میں دوبارہ حاصل کیا تو بلوچ اس جنگ کو باقی ماندہ جہد کی طرح جیت سکتا ہے اگر ماضی کی طرح غیر زمدار ہوکر انقلاب ، قوم پرستی سے ہٹ کر دوسرے نظریہ،طاقت کو اپنے لوگوں کے خلاف اسعتمال کرتے ہوے صرف سیاست کی تو باقی ماندہ سو سے زیادہ low levelانسرجنسی کی طرح ۴۰۰ سال سے چلنے والی جہد یا ۲۰۰،سال یا ۱۰۰ سال تک کی جہد کی طرح بلوچ جہد کی کامیابی کے امکانات نہیں ہو سکتے ہیں ،اور بلوچ کے پاس ۱۰۰ سال تو بہت دور ۱۵ سال کا وقت نہیں ہے بلوچ قوم کا مقابلہ پاکستان ،چین ،ایران ،کے ساتھ ساتھ وقت کے ساتھ بھی ہے اسی لیے اس کم ایام اور فرصت میں قومی جہد کو فیصلہ کن رخ اختیار کرنا ہوگا یا قومی آزادی یا کہ مکمل قومی تبائی ،،اب اس پر لوگ لکھیں اور بحث مباحثہ کریں کہ کس طرح کم مدت میں جہد کو کامیاب کیا جاسکتا ہے