بلوچ قومی آزادی کی تحریک تو پاکستان کے قبضہ کے خلاف روز اول سے شروع ہوئی ہے اور مختلف ادوار میں دوڑتی ، چلتی ، گرتی ، پڑتی اور رینگتی چلی آئی ہے لیکن اس بار زیادہ واضح اور زیادہ بہتر بامقصد اور جدید طریقے سے ایک نئی شروعات چند دوستوں نے کی اور بہت ہی محنت ، لگن اور مخلصی سے اسے آگے بڑھایا ، اور ہر بلوچ تک اس سوچ کو پہنچایا جو سوچ کافی عرصہ مفاد پرستوں اور ظالم قبضہ گیر کے مختلف حربوں کی وجہ سے کسی پرانے کھنڈر میں مکڑیوں کے جالوں اور دھول مٹی میں کہیں دب کے نظروں سے اوجھل ہوگئی تھی۔ کچھ مخلص ، بے غرض و بے لوث دوستوں نے اس سوچ سے مکڑی کے جالے اور دھول مٹی کو جھاڑ کر اسے صاف کرکے دوبارہ سب کے سامنے ظاہر کیا ان دوستوں نے مختلف قسم کی تکلیفیں سہیں اور قربانیاں دے کر اس سوچ کو جگا دیا اور لوگ آہستہ آہستہ اس جہد سے جڑتے گئے ، لیکن اس بار جہد کا طریقہ کار پہلے سے مختلف بھی تھا اور سخت اقدامات پر مشتمل بھی تھا ، گذشتہ ادوار کے تحریکوں میں ہم ایک امر کا مشاہدہ کرسکتے ہیں کہ ان تمام تحریکوں میں دشمن کے سامنے ہتھیار بند ہوکر مقابلہ ضرور کیا گیا لیکن کسی بھی تحریک میں اپنے تئیں موجود نام نہاد قوم پرستوں کے حقیقی عزائم وچہرہ فاش کیا گیا اور نا ہی مخبر ، میر و سردار وغیرہ کی صورت میں ہمارے اندر موجود دشمن کے کارندوں کے خلاف محاذ کھولا گیا تھا لیکن موجودہ تحریک میں دشمن کو مارنے کے ساتھ ساتھ اپنے ہی قوم کے ان آستین کے سانپوں کو بھی مارا جانے لگا جنہوں نے اپنی قوم سے غداری کی اور دشمن کے صفوں میں شانہ بشانہ کھڑے رہے اور ساتھ ساتھ ان نام نہاد قوم پرستوں کو بھی بے نقاب کردیا گیا جو قوم کو ہمیشہ دھوکے میں رکھ کر قوم پرستی کے آڑ میں اپنے مفادات کو پروان چڑھاتے رہے اور قوم کا نام استعمال کرکے سادہ لوح بلوچ مخلوق کیلئے وہ زمینی خدا بن چکے تھے ، جن کے بتوں کو توڑنا بہت ہی مشکل ہوگیا تھا لیکن دوستوں کی محنت، سوچ ، عمل اور قربانیوں کی وجہ سے قوم کو یہ دو نوں بڑے فیصلے لینے میں ذرا سی بھی مشکل پیش نہیں آئی کسی نے بھی ان غدار بلوچوں کو مارنے کی مخالفت نہیں کی بلکہ خندہ پیشانی سے قبول کرلیا سوائے انکے جو دشمن کے ساتھ تھے اور نا ہی ان نام نہاد قوم پرستوں سرداروں نوابوں کے بتوں کو توڑنے پر بھی کسی کے گلے کڑوے ہوئے سوائے انکے جن کے ذاتی مفادات ان سے وابسطہ تھے ، ان کٹھن فیصلوں کو قبول کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ حقیقی اور غیر حقیقی ، مخلصی اور مفاد پرستی کے بیچ فرق ظاہر ہوچکی تھی۔ جب واضح خط کھنچ جانے کی وجہ سے قوم پرستی و قربانی نے قدرے اپنے حقیقی معنی و تشریح پالی اور حقیقی و غیر حقیقی کے بیچ فرق پیدا ہوگیا تو معاملات یہیں تمام نہیں ہوئیں ، کیونکہ وقت کے ساتھ آزادی پسندوں کے اندر بھی ایک ایسا طبقہ تشکیل پاتا رہا یا پنپتا رہا یا مزید بہتر بیان کریں گھس پیٹیوں کی طرح تحریک کے اندر گھس کر اپنے مفادات کی بجاآواری کرنے کیلئے ہمگام ہوگیا جو ایک ایسے سوچ کے پیداوار تھے جو ہمیشہ قوم کا نام لیکر اپنے مفادات پورا کرتے رہے تھے ، اب باقی دکانیں بند ہونے کی وجہ سے انہوں نے اپنا ریڑھی آزادی پسندی کے سائبان کے نیچے لگا دیا ، انہیں صرف اپنے مفادات سے ہی غرض ہے اور اپنے مفادات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے یہ لوگ کچھ بھی کرسکتے ہیں ، بس ہر دور میں وقت و حالات کے مطابق انکے طریقہ کار بدلتے رہتے ہیں اب کے بار اپنے مفادات، شہرت و نام کی بھوک ، ذر و دستار کی لالچ اور طاقت کی خواہشات پورے کرنے کیلئے ان مفاد پرستوں نے آزادی کا خوش لباس پہن لیا لیکن اس ٹولے کے خوشنما لباس کے اندر ازل سے وہی پرانی بدبودار اور سڑا ہوا جسم موجود ہے جس کی ہمیں پہچان کرنی ہے ، ہمیں ایک بار پھر اپنے دامن کو جھاڑتے ہوئے حقیقی و غیر حقیقی ، مخلصی و مفاد پرستی کے بیچ خط کھینچتے ہوئے اپنے جسم سے لپٹے خون چوسنے والے جونکوں کو الگ کرنا ہے ، لیکن یہ بتدریج عمل پہلے کی طرح ہرگز آسان بھی نہیں ، پہلے نعروں سے لیکر دعوؤں ، شکل سے لیکر عمل تک سب میں فرق تھا لیکن اب کے بار کے خون چوسنے والے پسو زیادہ مختلف نہیں ہیں یہ ہماری طرح ہی دِکھتے اور ہماری طرح ہی بولتے ہیں ، اسی لیئے انکی پہچان کرنا مشکل ہوتا ہے، یہ لوگ گرگٹ کی طرح اپنے اردگرد کے ماحول کے مطابق رنگ بدلتے ہیں اور نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں اصل میں یہ لوگ جہد کا حصہ نہیں ہوتے ہیں اور نا ہی ساتھ ہوتے ہیں لیکن ظاہر اسی طرح کرتے ہیں جیسے وہ ایک ہیں لیکن حقیقت میں وہ الگ ہوتے ہیں وہ اسطرح سے جڑے ہوتے ہیں کہ وہ ایک ساتھ اور ایک جیسے لگتے ہیں جس کی وجہ سے انکی پہچان مشکل ہوجاتا ہے اور وہ قوم عوام آزادی خوشحالی ، مخلصی ، قربانی ، اور جہد کی باتیں کرکے خود کو اسطرح پیش کرکے ایک مقام تک پہنچ جاتے ہیں اور بت بن جاتے ہیں اور ایک مخلص سوچ کی قربانی کے جذبے اور ایماندار ی و تحریک کے ساتھ پوری طرح جڑے بے غرض لوگوں کی اپنی طرح سے تربیت کرکے انہیں لالچی خود غرض اور کرپٹ بناتے ہیں ایسے لوگ اچھی سوچ کے ساتھ صاف جذبے ، مخلص دوست و کارکنان ، ہمدردوں حمایتیوں کے مخلص جذبات اور سب کی قربانیوں سے کھلواڑ کرتے ہیں اور سب کا استحصال کررہے ہوتے ہیں۔ آج ایسا ہی ایک طبقہ ، ایسے ہی کچھ لوگ ہیں جو اپنے مفادات کیلئے آزادی کی قومی تحریک میں گھس کر اپنے چالبازیوں اور شاطریوں سے ایک مقام بناچکے ہیں اور یہی لوگ ہمارے صفوں میں موجود رہ کر ہمارے اپنے کہلاتے ہوئے تحریک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں اور ایسے ہی لوگ ہیں جو ناکامیوں اور بدنامیوں کا سبب بنتے ہیں کسی بھی جدوجہد سوچ و تحریک کو کامیاب کرنے کا مطلب صرف ظاھری اور باہری دشمن کے خلاف جنگ کرنا نہیں ہوتا بلکہ اپنے ہی صفوں میں موجود اپنے ہی لوگوں میں موجود ایسے کمینہ صفت لوگوں کو پہچاننا اور پہچان کر انکو الگ کرنا یا بے اختیار کرنا بھی اتنی ہی ضروری جنگ ہے ، ایسے طبقات دشمن سے بھی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں ، یہ اپنائیت کا لبادہ اوڑھ کر پھر قوم کے قربانیوں پر پانی پھیر کر تحریک کے ناکامیوں کا اصل سبب بنتے ہیں یہ بھی ایک جنگ ہے کہ چیزوں کا ادراک کیا جائے ، یہ بھی ایک جنگ ہے کہ اپنے اندر موجود خامیوں ، غلطیوں اور غلط لوگوں کو پہچان کر سب کے سامنے بے نقاب کیا جائے سیاسی اور مسلح جنگ کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک اہم جنگ ہے جس کے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے مخلص ، لیڈران ، دوست ، رہنما اور جہد کاروں نے اس اندرونی جنگ میں کیا اپنے اندر کی کالی بھیڑوں کو پہچان لیا ہے؟ اگر ہم ایک جامع غور و فکر کے ساتھ جائزہ لیں تو ہمیں یہ بات بالکل ہی صاف طور پر سمجھ آجائیگی کہ جن مخلص دوستوں نے اس تحریک کو دوبارہ سے اور نئے طرز سے شروع کیا ، وہ دوست جنہوں نے دشمن کے خلاف ہر محاذ پر اپنی جدوجہد بخوبی جاری رکھے ہوئے ہیں ، وہ دوست جنہوں نے رایتی بندھنوں کو توڑ کر سب سے پہلے نام نہاد قوم پرستوں کا چہرہ فاش کرکے انکو ناسور کی طرح تحریک کے جسم سے الگ کردیا آج وہی دوست نا صرف ایسی کالی بھیڑوں یا جسم سے چمٹے جونکوں کی پہچان کرلی ہے بلکہ انہیں قوم کے سامنے بھی عیاں کردیا ہے ، ان دوستوں نے اپنے اندر موجود ان رنگ بدلتے نقصان دہ گرگٹوں کو بخوبی جانا ہے اور ساتھ ساتھ انکا اصل چہرہ بمع ٹھوس ثبوت و دلیل قوم کے سامنے واضح کرنے میں کامیاب بھی ہوئے ہیں ، انکے پہچان سے مراد یہی ہے کہ یہ لوگ دِکھاوے کیلئے ہمگام و ہمرکاب ہیں لیکن درحقیقت یہ دیمک کی طرح اندر گھس کر تحریک کو چاٹ کر اسے زمین بوس کرنے کی سعی کررہے ہیں یعنی اس طبقے ، نام نہاد قوم پرستوں اور دشمن پاکستان میں ایک قدر و مقصد مشترک ہے کہ تینوں کے عمل و کردار تحریک کو دانستہ یا نا دانستہ ناکام کرنا ہی ہے ، تو یہاں پر بلوچ قوم کے تمام فرزندوں خاص طور پر ان لوگوں جو کسی بھی طرح تحریک سے جڑے ہوئے ہیں جن کا بالواسطہ یا بلا واسطہ تحریک سے کوئی بھی تعلق اور ہمدردی ہے میرا ان سب سے سوال ہے کہ اگر ہم کسی شخص کو چھاونی میں جاتے دیکھتے ہیں تو اسے مجرم قرار دیکر اسے مارنے کی اپیلیں کرتے ہیں ، ہم میں سے کوئی اگر کسی ایف سی والے کو پانی بھی پلائے تو اسے گالیاں دیتے ہیں اور شفیع، مالک ، سراج ، راشد پٹھان ، نوشیرانی اور جام کے خون کے پیاسے ہیں کیونکہ وہ ہماری قومی تحریک کے دشمن ہیں وہ دشمن کے صف میں کھڑے ہیں اور بلوچ کی غلامی کو طوالت بخشنے میں انکا اہم کردار ہے اور کوئی بھی مخلص بلوچ انکی بوٹیاں تک نوچنے کیلئے تیار ہوتا ہے لیکن پھر ہم ان گھر کے بھیدیوں کی اصلیت جاننے کی باوجود بھی خاموش کیوں ہیں ؟،یا ان کیلئے نرم گوشہ کیوں رکھے ہوئے ہیں؟ حالانکہ انکی وجہ سے تحریک کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر جتنا نقصان پہنچا ہے ، جن کی وجہ سے ایک اہم اور طاقتور تنظیم کے ٹکڑے ہوئے ہیں ، جن کی وجہ سے اتحاد نہیں ہوسکا ، جن کی وجہ سے عوامی حمایت کو نقصان پہنچا ، جو چوری جھوٹ اور دھوکہ دہی کے پیکر ہیں جو ان ظاہری تمام دشمنوں سے زیادہ خطرنا ک ہیں اور کسی بھی اور دشمن سے زیادہ ہمیں ناکام کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں ، میرا سوال یہ ہے کہ جب دشمن پاکستان ، نام نہاد قوم پرستوں اور ان آستین کے سانپوں تینوں کا عمل ، کردار و مقصد دانستہ یا نا دانستہ طور پر ہماری ناکامی پر منتج ہوتا ہے پھر ہمارے ان تینوں کیلئے رویہ ایک جیسا کیوں نا ہو ؟ ان تینوں سے نمٹنے کا طریقہ ایک جیسا کیوں نا ہو ؟ بہت غور کرنے کے بعد میری کم دانست میں یہ بات سمجھ آئی ہے کہ آخر ایسے عناصر اپنا وجود اس تحریک میں کیسے سنبھالے ہوئے ہیں اور کیونکر لوگ ان سے جڑے ہوئے ہیں درحقیقت مختلف قسم کے لوگ مختلف وجوہات کے بنا پر ان سے جڑے ہوئے ہیں ، کچھ تو وہ لوگ ہیں جو قومی اور انقلابی سوچ و نظریے کو بھول کر اپنے چھوٹے چھوٹے فائدے مد نظر رکھے ہوئے ہیں جیسے کہ گھر کے خرچہ جات ، شادی و کمانڈری وغیرہ ، دوسرے وہ لوگ جو انہی علاقوں میں رہائش پذیر ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ انکے خلاف ہونے سے انکے جان و مال و ننگ محفوظ نہیں رہیں گے ، تیسرے وہ ہیں جو خود کو ایک دھوکے میں رکھے ہوئے ہیں وہ سوچتے ہیں کہ یہ لوگ سدھر جائیں گے اور اپنا قبلہ درست کرلیں گے جس کی ذرہ برابر بھی امید نہیں ہے کیونکہ اگر کوئی اپنی غلطی ماننے سے انکاری ہے الٹا اس پر ڈٹ کر کھڑا ہو تو ان سے سدھرنے یا اپنے غلطی سدھارنے کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی ، چوتھے وہ لوگ ہیں جو تصوراتی جذباتی اور خواہشات کے دنیا میں جیتے ہیں جو چاہتے ہیں کہ سب ایک ہوں ، اتحاد و اتفاق ہو ہمیں کوئی مشکل پیش نہیں آئے بنا کسی مسئلے کے ہمیں آزادی مل جائے ایسے لوگ حقیقت سے کوسوں دور ہوتے ہیں ، پانچویں وہ لوگ جو ذاتی دوستیوں اور روایتی لحاظ میں پھنسے ہوئے ہیں چھٹے وہ لوگ جو ڈرتے ہیں کیونکہ انکو اپنا سمجھتے ہیں اور انہیں کھونا نہیں چاہتے ، کوئی سخت اقدام اٹھانے سے ڈرتے ہیں انکو لیڈر یا مقدس گائے سمجھتے ہیں اور انکو اپنے دائرے سے خارج کرنے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ہم کمزور نا ہوجائیں کہیں ہم ٹوٹ نا جائیں تو میں ان سب لوگوں سے یہی کہنا چاہوں گا کہ اگر گھر اور ذاتی مفادات شادی و پرسکون زندگی گذارنے کی اتنی فکر تھی تو اس راہ پر آئے ہی کیوں اپنے گھر میں بیٹھ جاتے ، اب اگر اس راہ پر گامزن ہوئے ہو اور ایک فیصلہ کرچکے ہو اتنا سب کچھ جس مقصد کیلئے چھوڑ چکے ہو تو اس کام کو بہتر طریقے سے پورا کرو ، ایسا نا ہو کہ دھوبی کے کتے کی طرح نا گھر کے رہیں نا گھاٹ کے اور اگر ریاست سے ڈرے بغیر ایک فیصلہ کیا گیا ہے تو پھر ان سے کس بات کا ڈر ، کیا دشمن سے ہمارے جان و مال اور عزت کو خطرہ نہیں ہے اور اگر ہے تو یہ بھی دشمن کی دوسری قسم ہے اور خود کو خود دھوکہ دینا بند کریں ، کیونکہ اگر کوئی اپنی غلطی ماننے سے انکاری ہو اور الٹا اس پر ڈٹ کر کھڑا ہو تو ان سے سدھرنے یااپنی غلطی سدھارنے کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی کیونکہ جب ہم ایک غلطی کو ماننے کے بجائے اس پر ڈٹ کر بدستور اور لگاتر قائم رہیں اور اسکا دفاع بھی کریں تو پھر وہ غلطی نہیں کہلاتا بلکہ انکا نظریہ کہلاتا ہے ، آج یہ عناصر جو کچھ بھی کررہے ہیں یہ انکی غلطیاں نہیں ہیں بلکہ انکا نظریہ ہے اور انکا یہ نظریہ ہماری ، ہماری تحریک کی اور ہمارے آنے والے روشن صبح کی موت ہے ، ہمیں تصورات و خواہشات کی دنیا سے باہر نکل کر حقیقت سے روبرو ہونا پڑے گا ، حالانکہ ایسا کون نہیں چاہتا ہے کہ اتحاد و اتفاق ہو ہم ایک ہوں سب مخلصی و ایمانداری سے اپنا فرض نبھاتے ہوئے ایک آزاد ملک و ایک بہتر سماج بنائیں لیکن ہمیں اپنی آنکھیں کھول کر حقیقت کا سامنا کرنا پڑے گا ہم معروضی حالات سے آنکھیں نہیں چرا سکتے اور سچائی جتنی بھی کڑوی ہو اسے قبول کرنا پڑے گا اور اگر کوئی شخص کوئی مہلک بیماری میں مبتلا ہو اور اسکے بیماری کی تشخیص ہوجائے لیکن اسکا مشکل اور سخت علاج کی وجہ سے وہ شخص علاج نا کرے اور اس بات کو ماننے سے انکار کردے کہ وہ بیمار ہے تو اسطرح سے اسکی بیماری ختم نہیں ہوگی بلکہ وہ خود ہی ختم ہوجائے گا اور ہمیں روایتی لحاظ و ذاتی دوستیوں سے آگے انقلابی سوچ کے تحت اجتماعی قومی مفاد میں سوچنا ہوگا اگر ہم اپنے جان سے عزیز دوستوں اپنے پیاروں کو اس جنگ میں دشمن کے ہاتھوں کھونے سے نہیں کترائے ہیں ، صرف اس تحریک کے کامیابی کی خاطر تو پھر ایسے نام نہاد قوم پرست آزادی پسند اور مفاد پرست لیڈروں کو کھونے سے کیوں ڈر رہے ہیں ڈر اور وہم کی سب سے بڑی وجہ لاعلمی ہوتی ہے تو ہمیں اس بات کا علم ہونا چاہیے کے ایسے نام نہاد تعلقات کے زنجیروں کو توڑ کر ہی ہم کامیابی پاسکتے ہیں، ہمیں یہ علم ہونا چاہیئے کہ ایسے لوگوں کو ساتھ رکھ کر ہم ناکامی خرید رہے ہیں۔ انقلاب فرانس کے وقت صرف اس بناء پر ان لوگوں کے بھی ہاتھ کاٹ دیئے گئے جو صرف آسودہ تھے اور جنہوں نے کوئی کام نہیں کیا تھا اور انکے ہاتھ نرم و ملائم تھے تو ایسے لوگوں کے ساتھ ہمیں کیا کرنا چاہئے جو سب سے زیادہ نقصاندہ ہیں جو ناکامی کا سبب بن رہے ہیں ، جن کو جتنا بھی پیار سے دوستی کا قوم کا قربانیوں کا شہیدوں کا اسیروں کا واسطہ دیکر سمجھاو تو بھی اپنی غلطی ماننے کے بجائے سوال اٹھانے والوں کو قتل کردیتے ہیں یا گالیوں اور فتووں سے نوازتے ہیں جو معاشرے سے گندے سے گندے جرائم میں ملوث ہیں ، جو شہدا ء اور اسیران کا کوئی بھی مان رکھے بغیر اپنے لیئے جی رہے ہیں جن کے ساتھ آپ جتنا بھی اخلاق اور حسن سلوک سے پیش آئیں وہ اتنا ہی الٹ اور شدید راستہ اختیار کرتے جائیں گے ، جو لوگ دشمن سے بی زیادہ دشمن ہیں میں تو سمجھتا ہوں کہ ان لوگوں سے سخت لہجے میں بات کرنا اور گالی دینا تو کیا گولی ماردینی چاہئے۔