تحریر جاوید احمد ” نوٹ یہ تحریر 21 اکتوبر 2019 کو ہمگام شائع ہوا تھا ایک بار پھر قارئین کی دلچسپی کے لیئے شائع کیا جا رہا ہے ” بات بظاہر بہت سادہ سی ہے۔ ’’کائنات جب اپنے اختتامی سفر پر ہوگی تو اِنسان تمام علوم پر مکمل دسترس حاصل کرچکا ہوگا۔ ماسوائے ایک عِلم کے ’علمِ فلسفہ‘ اور علمِ فلسفہ میں بھی اُسے تقریباً مکمل Command حاصل ہوچکی ہوگی۔ ماسوائے ایک مضمون و موضوع کے، علمِ نفسیات۔ اور نفسیات کی بھی وہ لگ بھگ تمام گتھیاں سُلجھا چُکا ہوگا ماسوائے ایک Subject کے، ’عورت اور عورت کی نفسیات ۔‘ اور اِس موضوع کو کلی طور پر جانے سمجھے بِنا ہی انسان کا سفر ختم ہوجائے گا۔‘‘ کہا جاتا ہے عورت ایک سربستہ راز ہے ایک معمہ ہے صدیوں سے شاعر فلسفی مفکرین اور اہل دانش اس عقدہ لایخل کی گرہ کشائی میں مصروف ہیں دنیا بھر کے ادب پر نگاہ دوڑائیں عورت کی فطرت اور سرشت پر دو انتہائی مواقف اور مخالف نظریات سامنے آئیں گے۔ جو زیادہ تر انتہا پسندانہ ہوتے ہیں ان میں شاعرانہ خیال آفرینیوں افراط و تفریط اور غْلو سے کام لیا گیا ہے ذاتی کیفیات اور ذاتی تعصبات پر مبنی ایسے نیم حکیمانہ اور یکطرفہ خیالات دلچسپ تو ہو سکتے ہیں لیکن کسی سنجیدہ توجہ کے مستحق نہیں۔ اس تحریر کا مقصد ان رائج العام مفروضات محاورات اور نظریات پر تنقیدی بحث کرنی ہے جنہوں نے عورت کے تشخص کو الجھا کر رکھ دیا ہے۔ ویسے بھی آج کل متوازن رشتوں کے حوالے سے آگاہی کی بہت ضرورت ہے ایک سوال یہ بھی پیدا ہوسکتا ہے کہ آخر ضرورت کیا ہے عورت کی نفسیات کو سمجھنے یا سمجھانے کی؟ ایک حد تک بات یہ بھی درست ہے۔ لیکن اگر اِس بات کو عملاً اختیار کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ بات پیدا ہوتی ہے کہ پھر تو مرد ہو یا عورت، بچہّ ہو یا بوڑھا، کِسی کی بھی نفسیات کو جاننے، جانچنے اور پرکھنے کی ضرورت نہیں، جو ہورہا ہے، جیسا ہورہا ہے، اُسے ہونے دیا جائے۔ اگر اِس فلسفے پر عمل کرلیا جاتا تو آج پچھلے ١٠٠ سالوں میں علمِ نفسیات میں جو تحقیق و ترقی ہوئی ہے، وہ نہ ہوتی۔ اور آج بھی ذہنی مریضوں کو جادو ٹونے اور چڑیلوں اور جنّات کے زیرِاثر کہہ کر زندہ جلایا جارہا ہوتا اور پہاڑوں پر سے سمندر میں پھینکا جارہا ہوتا۔ عورت کی نفسیاتی ساخت اور طبعی رجحانات کو سمجھنے کیلئے بنیادی اہمیت کے حامل چند حیاتیاتی اور نفسیاتی حقائق کا جاننا ضروری ہے۔ تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ عورت کی جسمانی نشونما مرد کے مقابلے میں زیادہ تیز ہے جس سرعت سے ایک بچی کمسنی کے مراحل طے کرتی ہوئی سن بلوغت کو پہنچتی ہے وہ حیرت انگیز ہے جغرافیائی اور نسلی فرق کو ملحوظ رکھتے ہوۓ عام طور پر عنفوان شباب کہ آغاز لڑکیوں میں لڑکوں کی نسبت کم و بیش دو تین برس پہلے ہو جاتا ہے یہی کیفیت انکی ذہنی اور نفسیاتی نشونما کی ہے اپنی ذات اور جنس کہ شعور بھی لڑکیوں میں پہلے بیدار ہو جاتا ہے انکی سوجھ بوجھ کہ یہ عالم ہوتا ہے کہ ایک چھ سات سالہ بچی کو اپنے چھوٹے بہن بھائی کی وقتی نگہداشت کے فرائض سونپ دئے جائیں تو وہ اس سے عہدہ بر ہو سکتی ہے جبکہ لڑکا اس عمر میں عموما نرا بدھو ہوتا ہے۔ تاہم ذہنی یا جسمانی ترقی کی یہ رفتار بعد ازاں برقرار نہیں رہ پاتی شباب کہ آغاز ہوتے ہی لڑکے لڑکیوں سے آگے نکل جاتے ہیں البتہ جِس عورت کی Genes اور Hormones میں پیدائش کے وقت ہی سُپرمین یا سُپروومن والے کروموسوم اور ٹیسٹو اسٹیرون کی مقدار نارمل سے زیادہ ہوتی ہے۔ وہ شروع سے ہی مردوں کی طرح مختلف النّوع کاموں اور دل چسپیوں کی طرف راغب ہوتی ہے۔ ایسی عورت کو اگر سازگار ماحول اور قسمت کا Kick Back مِل جاتا ہے تو وہ یہ بھول کر کہ وہ ایک عورت ہے، ایسے ایسے کام کرڈالتی ہے، جو عام حالات میں مضبوط اور طاقتور مردوں کے بس میں بھی نہیں ہوتے۔ مرد و زن کے ذہنی ارتقا کا موازنہ کرتے ہوۓ فرائیڈ کہتا ہے کہ عورت کو جو کچھ بننا ہوتا ہے وہ کم وبیش تیس بتیس برس کی عمر تک بن چکی ہوتی ہے بعد ازاں ارتقا کا یہ عمل سست پڑ جاتا ہے اور اس پر ایک قسم کا جمود طاری ہوجاتا ہے۔ مرد اسکے برعکس لچک اور تغیر کا رجحان رکھتا ہے اور اگر چاہے تو علم و آگہی کے نت نئے اسرار کی جستجو میں کامیاب رہتا ہے۔ آعلیٰ تحقیقی کام حیرت انگیز فنی کمالات اور عظیم سائنسی کارنامے مردوں نے بالعموم چالیس برس یا اس سے اوپر کی عمر میں انجام دئیے ہیں جبکہ خواتین کے تخلیقی قویٰ اس عمر کے لگ بھگ انحطاط پذیر ہونے لگتے ہیں یہی وجہ ہے عورتیں اعلیٰ پاےُ کی جینیسُ بہت کم پیدا ہوئی ہیں۔ لڑکے اور لڑکیوں کے تعلیمی رجحانات پر بھی بعض ماہرین نے ریسرچ کی ہے انکے مطابق لڑکے بالعموم حساب شماریات سیاسیات معاشیات میں بہتر استعداد کا مظاہرہ کرتے ہیں جبکہ لڑکیاں پیدائشی طور پر رنگوں کی شناخت فنون لطیفہ معاشرتی علوم اور لسانیات کا بالعموم بہتر ادراک رکھتی ہیں اسکے علاوہ سائنسی و تکنیکی علوم میں مردوں کے شانہ بشانہ اور مذہبی عقاید اور توہم پرستی میں مردوں سے دو قدم آگے رہتی ہیں۔ نفسیات کے ایک مستند جریدے انٹیلی جنس میں شائع ہونے والی ایک مقالے میں پندرہ ہزار افرادکے IQ ٹیسٹ کا موازنہ کیا گیا اور مردو و عورت کی ذہنی قابلیت میں کوئی نمایاں فرق نہیں پایا گیا اس طرح کے ہزاروں دوسرے مقالے چھپ چکے ہیں. حال ہی میں چھپنے والے ایک ڈیلی ٹیلی گراف کے آرٹیکل کے مطابق IQ ٹیسٹ کے ماہر سائنسدان جان فلن کا کہنا ہے کہ پچھلے سو برسوں میں مرد و عورت دونوں کی ذہنی استعداد میں اضافہ ہوا ہے لیکن عورتوں میں اس اضافے کی مقدار مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہے اور اب تاریخ میں پہلی مرتبہ عورتیں IQ ٹیسٹ میں مردوں سے زیادہ سکور کر رہی ہیں. یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ایک خاص قسم کی ذھانت جسے ذہانت احساسات (emotional intelligence) کہا جاتا ہے اس میں خواتین کا پلہ ہمیشہ سے بھاری رہا ہے. انسانی جذبات و احساسات کو سمجھنے کی صلاحیت میں عورتیں مردوں سے کہیں بہترہوتی ہیں اور یہ ایک ایسی سماجی مہارت (socialskill) ہے جسے لیڈر بننے کے لیے مرکزی خیال کیا جاتا ہے. مرد کی انا نے عورت کی سوچ پر سماجی رسوم و روایات کے بڑے کڑے پہرے بٹھا کر اس کی عقل کو مقفل کیے رکھا جہاں عورت نے اپنی آزادانہ سوچ کے یوں دیوار میں چنوائے جانے سے انکار کیا وہاں خود عورت کو ہی دیوار میں چنوا دیا گیا کبھی تو یہ دیوار سیمنٹ اور گاڑے کی ہوتی اور کبھی طعن وتشنیع اور ملامت کی. مرد و زن میں حیاتیاتی اور جنسی فرق تو ایک مسلمہ حقیقت ہے اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ہر دو اصناف کی نفسیاتی ساخت عقلی اور جسمانی استعداد فطری صلاحیتوں اور توانائیوں میں نمایاں تفادت موجود ہے۔ خواتین عالمی طور پر کچھ ایسی اقدار مشترکہ کی حامل ہیں جو انہی سے مختص ہیں مثلا پرورش و تربیت اطفال خانگی معاملات ازدواجی اور ممتائی زمےداریاں گھربار والدین شوہر بچے اسکے لیُے اولین اور گھر سے باہر کے معاملات ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسکے برعکس مرد اجتماعی اور سماجی مسائل انتظامی امور اور بیرون خانہ سرگرمیوں میں زیادہ فعال واقع ہوۓ ہیں۔ زندگی کے بعض پہلوؤں سے مرد و زن باہمدیگر متضاد خصوصیات کے حامل ہیں صنفی زندگی کو ہی لے لیجیے مرد فعال ہیں تو عورت منفعل مرد تشدد اور جارحیت کہ رجحان رکھتے ہیں تو عورتیں نرمی اور نزاکت کا مرد غلبے اور اثراندازی کی صلاحیت رکھتے ہیں تو عورتیں متابعت اور اثر پزیری کی مرد بے جھجک و بیباک ہیں تو عورتیں طبعاُ شرمیلی مرد سادیت پسند ہیں تو عورتیں مسوکیت پرست۔‏‎یہ تجزیہ اپنی جگہ ایک حقیقت لیکن میں سمجھتا ہوں کے عورت ذات کے مزاج میں جتنی لچک قدرت نے دی ہے اگر یہ نہ ہوتی تو گرہستی کا تصور ہی ختم ہو جاتا، ‏‎ مرد کے لئے اتنا متوازن رہنا نسبتا دشوار ہے. اندھیرا، روشنی کی ضِد ہے۔ نارمل کو جانے اور سمجھے بِنا ہم ابنارمل کی نہ وجوہات جان سکتے ہیں، نہ اُن وجوہات کو جان کر اُن کو دور کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ انسانی ارتقاء نے اندھیرے اور روشنی کے فرق کو سمجھا تو اندھیرے میں روشنی پیدا کرنے کے ذرائع دریافت ہوئے اور وقت کے ساتھ ساتھ اُن میں اور احسن طریقے سامنے آتے گئے مرد کی عمومی نفسیات دن کی روشنی اور رات کے اندھیرے کی طرح نہایت سادہ اور دو رُخی ہوتی ہے۔ بہت جلد سمجھ میں آجاتی ہے۔ عورت کی نفسیات میں فطرتاً ان گنت رنگ ہوتے ہیں۔ جو ہمہ وقت جھِلمل جِھلمل کرتے رہتے ہیں۔ ابھی ہم کِسی ایک رنگ کو سمجھ کر اُسے کوئی واضح شکل دینے کو کوشش میں لگے ہوتے ہیں کہ آنکھ جھپکتے ہی عورت کا کوئی دوسرا رنگ سر چڑھ کر بولنے لگتا ہے۔ اور ہماری توجہّ پچھلے رنگ سے ہٹ کر موجودہ رنگ پر مبذول ہوجاتی ہے غرض صلاحیتوں کا یہ تنوع یا تضاد تقاضائے حیات اور منشاےُ فطرت کے عین مطابق ہے اسی سے زندگی میں حسن و توازن ہے اور فطرت کی چند تخلیقی مصلحتوں کی تکمیل بھی۔ افراط و تفریط کی ان دو انتہاؤں سے بچ کر ہمیں معاشرے میں کوئی ایسا متوازن لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت ہے جو فطرت نسوانی سے ہم آہنگ ہو اس ضمن میں سب سے مقدم بات خاندانی ادارے کی اصلاح و استحکام ہے جو تمدن کا سنگ بنیاد ہے جنسی جذبات کا منضبط اور تعمیری نکاس اشاعت و بقاہے نسل افراد خانہ کی جسمانی ذہنی اور جذباتی ضروریات کی تکمیل اور بچوں کی تعمیر شخصیت اس ادارے کے بنیادی فرائض ہیں۔ہمارا معاشرتی نظام اب اس قدر پیچیدہ ہوچکا ہے کہ یہ ماننا بہت مشکل ہے کہ یہ نظام بھی کبھی جانوروں کے سادہ انحصاری نظام جیسا ہی تھا. ہمارا ہر رشتہ ہر جذبہ بنیادی طور پہ ہماری بقاء سے جڑا ہے. ہم اپنے ہر اس رشتے کے لیے مثبت جذبات رکھتے ہیں جو یا تو کسی نہ کسی اعتبار سے ہماری بقاء کے لیے ضروری رہ چکا ہے یا اب ہے یا مستقبل میں رہےگا جہاں باقی ہر رشتے میں باہمی انحصار اہم ہے وہاں ایک رشتے میں یہ شاید باقی تمام رشتوں سے زیادہ اہم ہے اور معاشرے کے تمام رشتوں کے تانے بانے آکر یہیں جڑتے ہیں وہ ہے شوہر اور بیوی کے آپس کا رشتہ اگر یہ رشتہ اپنی تمام نزاکت اور اہمیت کو سمجھتے ہوئے نبھایا جائے تو باقی تمام رشتے نبھانا آسان ہوجاتا ہے. ہماری اب تک کی بات میں یہ رشتہ پہلا ہے جو قدرتی نہیں ہے یعنی اسے صرف نبھانا نہیں ہوتا بلکہ درست فریق کا چناؤ اس کا پہلا اور اہم عنصر ہے. زوجین کے درمیان حقوق و فرائض اختیارات و فرائض کی غیر منصفانہ اور غیر فطری تقسیم عدم موافقت عزت و احترام کی کمی نفسانفسی بدنظمی اور انتشار نا صرف اس ادارے بلکہ پورے نظام تمدن کی جڑیں کاٹ کر رکھ دیتا ہے، پاکستانی معاشرے میں ہمیں اپنے افکار و اعمال میں بنیادی تبدیلیاں لانے کی اشد ضرورت ہے۔ گھر میں کمسن بچی کو یقین دلایا جائے کہ لڑکی ہونا جرم نہیں اور اعضاُ کا فرق لڑکے کی فضیلت کا سبب ہرگز نہیں حتٰی الوسع بچوں اور بچیوں میں غیر صحتمندانہ موازنے سے گریز کرنا چاہیے۔ خواتین کی فلاحی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ مردوں سے محاز آرائی کے بجاےُ اپنی توانائیاں خواتین کے معاشی معاشرتی اور آئینی حقوق کے حصول کی سعی کریں اور مردوں کو اپنا رقیب نہیں رفیق اور مدمقابل نہیں معاون سمجھیں اور کوشش کریں کے معاشرہ اتنا باشعور ہو جائے کہ عورت کو کفالت نان نفقہ وراثت اپنی کمائی پر مکمل تصرف وغیرہ فیاضانہ طور پر ملیں۔ نکاح میں ایجاب و قبول محض رسمی ہونے کے بجاےُ حقیقت کہ غماز ہو گرچہ شادی سہل اور طلاق زوجین کیلئے مشکل ہو لیکن اس بات کہ اہتمام بلاشبہ ضروری ہے کہ عورت کو خلع اور فسق و تفریق کے وسیع حقوق حاصل ہوں۔ بیوی کو طلاق تفویض کاحق بھی مزید موثر بنایا جا سکتا ہے۔مضمون کا اختتام ٹالسٹائی کے اس مشہور سے کرونگا۔ ایک مرد کے لیے ذہین عورت کی صحبت سے زیادہ کچھ اور ضروری نہیں (لیو ٹالسٹائی