تحریر خالد بلوچ
اسلام آباد میں درپیش بھیانک واقعہ کے پیچھے گروہ پرستانہ ذہنیت موجود ہے
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کچھ مخصوص تنظیموں اور بلوچ طلباء کے اندر ایک مکروہ ذہنیت کے لوگ دیگر عام بلوچ طلباء کو آزادی ِاظہار خیال سے روکنے کے عمل پر بھرپور طریقے سے کارفرما ہیں۔ یہ وہی پرانی اور بوسیدہ ذہنیت ہے جس نے بلوچ تحریک میں انتشار و افراتفری پھیلا کر تقسیم در تقسیم کو ممکن بنا کر انتشاری کیفیت کو پروان چڑھایا تاکہ قومی تحریک کو ہائی جیک کرکے چند مخصوص ہاتھوں میں رکھا جاسکے۔ اب قومی تحریک میں ہر محاز پر اجارہ داری اور ایک پورا empire قائم کرنے کی ایجنڈا رکھنے والے گروہ کو یہ ہرگز برداشت نہیں ہوتی کہ کوئی قوم و قومی کاز کی بابت ان سے اختلاف رائے رکھے ۔ اختلاف رائے اور تنقید کرنے والا کوئی بھی اس مخصوص گروہ کو نہیں بھاتا.دوسروں پر آمرانہ رویہ رکھنے کا الزام لگانے والی گروہ نے اس سے قبل قومی سیاست میں کئی بلوچ طلباء کو غداری کے القابات سے نوازا تاکہ سیاسی میدان خالی ہو اور پھر اس میں انٹری مار کر سب کچھ اپنے قبضہ میں رکھا جاسکے۔ یہ رویہ و عمل ایک عام کارکن کی حد تک ہوتی تو شاید اس سے صرف نظر کی جاسکتی لیکن ستم ظریفی ہے کہ اعلی قیادت تک نے یہی رویہ اختیار کیا ہے کہا جا سکتا ہے کہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت یہ مکروہ اپنایا جا رہا ہے اور بھرپور قوت اور رفتار کیساتھ جاری ہے جو کہ قومی تحریک کیلئے زہر قاتل ہے.
اسی مکروہ ذہنیت رکھنے والے گروہ کے ہاتھوں حالیہ واقعہ بلوچ طالبعلم امتیاز بلوچ کو تشدد کا نشانہ بنایا جانا ہے انھیں اس لیے تشدد کا نشانہ بنا کر مارا پیٹا گیا کہ وہ مسلسل سوال کرتا ہے، مطالعہ، تحقیق اور تنقیدی زاویہ فکر رکھنے کا حامل طالب علم ہے اور وہ اپنے بولنے، لکھنے اور رائے رکھنے کے عمل میں بے باک، تنقیدی، سچا اور بے خوف رہتا ہے، اس لئے ان جرائم کے پاداش میں اس نہتے کو سزا دیا گیا۔کبھی اتحاد و اتفاق کا ڈھونگ رچا کر انہیں بلیک میل کرنے کی کوشش کی گئی تو کبھی مسنگ پرسنز کے ریلی میں آنے کے جرم میں بھی سزا دی گئی کیونکہ حق و سچ سے منہ پھیرنے والوں کو خوف ہے کوئی امتیاز جیسا آکر ان کا سیاسی میدان اپنے لوگوں پر رعب و دبدبے سے بنائے جانے والے مقام کے بارے میں سوال اٹھاہے گا اور ان کی اجارہ داری تہس نہس کرے گا۔ یہی ڈر اور خوف ان کو مسلسل کھایا جارہا تھا۔ نیز امتیاز بلوچ کو سیاسی راہ سے ہٹانے کی کوشش کیا گیا، وقتا فوقتاً انہیں ڈرایا گیا دھمکایا گیا تاکہ سیاسی میدان میں ایک نئی کلچر پنپ نہ سکے۔ جب سارے حربے و ہتھکنڈے آزمانے کے باوجود ناکام ہوگئے تو دلیل و منطق سے عاری اس مخصوص گروہ نے دیار غیر میں دھوکے سے امتیاز بلوچ کو بلا کر ان پر بزدلانہ حملہ کیا گیا۔ اس کو زخمی کرکے ویرانوں میں پھینک دیا گیا اور خود منظر عام سے غائب ہو گئے.
یقیناً، اس طرح کے وارداتیں برادر کشی کے ذمرے میں آتے ہیں اور یہ اسی مکروہ ذہنیت کا تسلسل ہے جو ایک دہائی سے جاری و ساری ہے جس کا ذمہ دار قومی تحریک میں موجود وہی مخصوص گروہ ہے جہنوں نے اس ذہنیت کو رواج بخشا۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ واردات انہی کے اشاروں پر کیا گیا۔ اس لیئے، اب جب تک قومی تحریک کے رہنما سنجیدہ، زمہ دارانہ رویوں کا اظہار نہیں کریں گے اور اپنے غیر تربیت یافتہ کارکنوں کو ایسی ہی گالم گلوچ، پروپیگنڈہ کرنا، ماردھاڑ اور بلیک میل کرنے کی تربیت دیں گے اور بدمعاشی کرنے پر ان کا حوصلہ افزائی کیا جائے گا تب ایسے واقعات کا تدارک مشکل ہے اور وقت کیساتھ مزید تیز ہوجائے گا۔ اس لیئے، اب بھی وقت ہے کہ پوری قوم ان کو سمجھیں اور ایک سنجیدہ زمہ دارانہ سیاسست کا بیج بوہیں اور ایک خوبصورت سیاسی کلچر پروان چڑھائیں ورنہ کالونائزر کی نفسیات سے متاثر ذہنیت ہمیں اندر سے تباہ کرکے رکھ دے گا۔