دوسری جنگ عظیم پہلی سامراجی جنگ کا تسلسل تھی جرمن سامراج کو دنیا کی ازسر نو تقسیم کی ضرورت تھی کلازوٹز کے بقول جنگ دیگر زرائع پر تشدد سے سیاست کا ہی تسلسل ہے ٹراسکی نے 1931ء میں پیشن گوئی کردی تھی کہ اگر ہٹلر برسر اقتدار آگیا تو جرمنی روس کے خلاف اعلان جنگ کر دے گا لیگ آف نیشنز میں شرکت کے باوجود جسے لینن چوروں کا باورچی خانہ کہتا تھا مغربی جمہوریتوں کے ساتھ کسی سمجھوتے تک پہنچنے کی اسٹالن کی سفارتی کوششیں بار آور ثابت نہ ہوسکیں ۔ 1938ء کے میونخ معاہدے کے بعد ہٹلر نے زیادہ قوت صرف کیے بغیر آسٹریا سے الحاق کرلیا سوڈیٹن لینڈ کو ضم کرلیا اور پھر مارچ 1939ء میں چیکو سلواکیہ پر قبضہ کرلیا۔ جرمنی کے ساتھ جنگ سے ہر قیمت پر بچنے کی کوشش میں اسٹالن نے ایک بلکل متضاد فیصلہ کر کے 23 اگست 1939ء کو ہٹلر کے ساتھ عدم جارحیت کا معاہدہ کرلیا۔ خارجہ امور کے کمیسارلٹوینوف جو کہ یہودی نژاد تھا کی جگہ چسلاف مولوٹوف کو لایا گیا ٹراٹسکی نے اعلان کیا کہ حقیقت میں ہٹلر کے ساتھ معاہدے پر دستخط محض ایک اضافی پیمانہ ہے جس سے روسی بیوروکریسی کی انحطاط پزیری اور کانمٹرن سمیت عالمی مزدور طبقے کے لیے اسکی حقارت کو ناپا جاسکتا ہے عام معاہدے کے علاوہ ایک اضافی پروٹوکول بھی تھا جس کے تحت پولینڈ کو روسی اور جرمن داہرہ اثر میں تقسیم کرلیا گیا اور ایک متحدہ ملک کی حیثیت سے اس کا وجود ختم ہوگیا۔ ظاہر ہے کہ پالیسی پولینڈ کی کمیونسٹ پارٹی کے لیے نہایت شرمندگی کا باعث بنتی اسٹالن کی خوش قسمتی ہے کہ 1938ء میں پولینڈ کی کمیونسٹ پارٹی کو اس بہانے تحلیل کردیا گیا تھا کہ اس میں فاشسٹ گھس آئے ہیں اس کے تقریباً تمام لیڈروں کو جو ماسکو میں جلاوطن تھے گولی ماردی گئی. 9 ستمبر 1939ء کو سویت وزیرخارجہ نے ماسکو میں نازی سفیر کو مندرجہ ذیل پیغام بھیجا وارسا میں جرمن فوجوں کے داخلے کے سلسلے میں آپ کا بھیجا ہوا پیغام مجھے مل گیا ہے برائے کرم میری طرف سے جرمن حکومت کو مبارک باد پیش کریں مولوٹوف برطانیہ اور فرانس اس وقت جرمن جارحیت کو قبول کرنے کےلیے تیار تھے جب تک جرمن سامراج کے مفادات مشرق کی طرف رہی تاہم پولینڈ پر حملے سے ان سامراجی ممالک کے ساتھ اس کی جنگ چھڑگئی۔ ٹراٹسکی نے پیشن گوئی کی تھی کہ دوسری جنگ عظیم سوویت یونین کی قسمت کا فیصلہ کردے گی صورت حال 1917 کی طرح جنگ سے پیدا ہونے والی انقلابی کیفیت سے جنم لے گی دوسری صورت کا امکان تب ہوگا اگر جانے کا جس نتیجہ پر ریڈ آرمی کی کامیابی کی صورت میں برآمد ہوا یہ پیش بینی نہیں کرسکا جنگ کے بعد اٹھنے والی انقلابی لہر کو اسٹالنسٹ اور اصلاح پسند قیادت نے غلط راستے پر ڈال دیا۔ ٹراٹسکی پر سٹالنسٹ ابلاغ عامہ کی بہتان تراشیوں کے باوجود جوکہ اسے اور اس کے پیروکاروں کو فاشسٹ ایجنٹ قرار دیتا تھا۔ اگرچہ وہ اسٹالنسٹ بیوروکریسی کا تختہ الٹنے کے لیے ایک سیاسی انقلاب کے حق میں تھا تاہم اس نے سامراجی حملے کی صورت میں سوویت یونین کی غیر مشروط دفاع کی ضرورت پر زور دیا۔ امریکی ٹراٹسکائٹس کے کچھ جن میں نوکرشاہانہ اجتماعیت کے نظریے کی وکالت کرنے والے میکس شاخت اور جیمز برن ہام زیادہ نمایا تھے سوویت یونین کے دفاع کے خلاف تھے معائدے کے ایک ماہ بعد اور دوسری جنگ عظیم کے آغاز پر 25 ستمر 1939ء کو ٹراٹسکی نے اپنی پوزیشن بلکل واضح کردی ہٹلر کے خلاف مسلح جدوجہد کے دوران انقلابی مزدور سرخ فوج کے عام فوجیوں کے ساتھ ہرممکن دوستانہ تعلقات قائم کریں گے ایک طرف ہٹلر کے خلاف ہتھیاروں سے ضرب لگائیں گے ہمیں اس طرح نعرے واضح کرنی چاہیے جن سے مزدوروں کو واضح طور پر نظر آئے کہ ہم سوویت یونین میں کس چیز کے خلاف ایک بے رحم جدوجہد کررہے ہیں طفلی بیوروکریسی اور اس کی کامنٹرن یہ حقیقت ہماری نگاہوں سے ایک لمحے کے لیے بھی اوجھل نہیں ہونی چاہیے کہ سوویت بیوروکریسی کا تختہ الٹنے کا سوال سوویت یونین کے اندر زرائع پیداوار کی ریاستی ملکیت کے تحفظ کے سوال کے مقابلے میں ایک ثانوی حیثیت رکھتاہے مثال کے طور پر 1918ء میں برسٹ لٹووسک کے معاہدے سے صورتحال ایسی تھی۔لیکن پہلی بات تو یہ ہے کہ اسٹالن کی پالیسیوں کی وجہ سے ہٹلر اقتدار میں آیا اور سوویت یونین کو شدید خطرہ درپیش ہوگیا دوسرے یہ کہ جس طرح اسٹالن نے اس پالیسی پر عمل درآمد کیا لینن کے بین الاقوامی طریقوں سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ ایک بار پھر عالمی مزدور طبقے کو روسی بیوروکریسی کے تنگ نظری پرمبنی قومی مفادات پر قربان کردیا گیا تھا علاوہ ازیں جیسا کہ ہم آگے چل کر دیکھیں گے اس چالبازی نے سوویت یونین کو تحفظ نہیں دیا بلکہ اسے زیادہ بڑے خطرے سے دوچار کردیا۔جرمنی کے ساتھ تجارت کو عروج خاص ہو رہا تھا اور ہرکسی کو بالواسطہ طور پر احساس دلایا گیا تھا کہ برلن کے ساتھ تعلقات اچھے اور دوستانہ ہیں۔ 1939ء کے موسم خزاں سے سوویت یونین نے فاشزم مخالف پروپیگنڈا بالکل بند کر دیا تھا اب فرانس اور برطانیہ دشمن بن گئے تھے جیسا کہ مولوٹوف اسے بیان کرتا ہے پچھلے چند ماہ سے جارحیت اور جارح جیسے تصورات ایک نئے ٹھوس مواد کے حامل بن گئے ہیں اور انہوں نے نئے معنی اپنالیے ہیں۔ اب جرمنی جنگ کے جلد از جلد خاتمے اور امن کے قیام کے لیے تگ و دو کررہی تھی جب کہ فرانس اور برطانیہ جو کل تک جارحیت کے خلاف مہم چلارہے تھے اب جنگ کو جاری رکھنا چاہتے ہیں اور امن کو قائم کرنے کے خلاف ہیں جیساکہ آپ دیکھ سکتے ہیں کردار تبدیل ہوگئے ہیں اس لیے جمہوریت کی جدوجہد کے غلط جھنڈے تلے ہٹلرازم کی تباہی کے نام پر جنگ کرنا احمقانہ ہی نہیں مجرمانہ بھی ہے۔