جب اکیسویں صدی کی ابتدا میں بلوچستان کے ایک بڑے حصے پر جنگ آزادی کی بنیاد رکھ دی گئی تو اس کے شروعات میں لوگوں کو یقین نہیں آیا کہ بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے ؟ کیونکہ اس جنگ کی بنیاد اس طرح رکھی دی گئی کہ اس کے اثرات پورے بلوچستان میں تیزی سے پھیلنے لگے اس جنگ میں نہ صرف پاکستانی زیر قبضہ بلوچستان کو متاثر کیا بلکہ اس جنگ کے اثرات ایسے تھے کہ ایران کے زیر قبضہ بلوچستان کو نہ صرف متاثر کیا بلکہ وہاں بلوچوں میں قومیت کا جذبہ ابھر کر سامنے آیا ـ
ایران بلوچوں کا ازلی دشمن ہے یہ بات اگر موجودہ حالات و واقعات کو دیکھ کر آپ کی سمجھ میں نہیں آئے گی تو آپ تاریخی کتابوں کا ضرور مطالعہ کریں ـ تو آپ خود جان سکیں گے کہ ایران نے کس طرح بلوچوں کی نسل کشی کی ہے اور ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے ـ اس کی مثال آپ کو آئے دن بلوچستان کے سینے پر مل رہے ہیں ـ
گزشتہ بیس سال کی جنگی تجربات سے یہ نتائج حاصل ہوگیا ہے کہ ایران کو یہ خدشہ لائق ہے کہ بلوچ تو پیدائشی سپاہی ہیں نہ جنگ سے ڈرتے ہیں اور موت سے اور نہ ہی کسی بھی بڑی طاقت سے خوفزدہ ہو کر اپنی مادر وطن سے دستبردار ہونگے کیونکہ ایران کو بلوچوں کی نفسیات اور تاریخ بہ نسبت پاکستان اچھی طرح علم ہے پاکستان گزشتہ ستر یا اس سے زیادہ بلوچستان پر قابض ہے لیکن ایران نو دہائیوں سے بلوچستان پر قابض ہے بلوچ تاریخ اور کلچر سے زیادہ واقف ہے ـ
اسی لیئے اس واقفیت کی بنا پر وہ امریکا اور دیگر مغربی طاقتوں سے زیادہ خوف نہیں کھاتا جتنا کہ وہ بلوچ سے خوف کھاتا ہے اسی سبب انہوں نے بڑی منصوبہ بندی اور سازش کے تحت نہ صرف بلوچ کے اندر پاکستان اور اپنے دیگر گماشتوں کے ذریعے انشتار پیدا کیا ہے بلکہ بڑی حد تک اس نے بلوچ قومی مادر آرگنائزیشن بی ایل اے کو امریکہ کے ذریعے دہشتگرد ڈیکلیئر کرا دیا ہے کیونکہ ایران نے اپنے پروکیسیوں کے ذریعے پس پردہ وہ حربے استعمال کیئے کہ جس سے امریکہ مجبور ہو کر بی ایل اے کو دہشتگرد قرار دیا ـ
دوسری اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ بلوچوں کو پھانسی دینے کے علاوہ گزشتہ 15 سال سے بلوچستان کے سماج میں بلوچ قبائل کو آپس میں ایسے لڑا رہا ہے جسے کسی کو محسوس ہو کہ آپسی جھگڑا بلوچوں کی اپنی ہو، مثال کے طور پر بلوچوں کے درمیان اپنے گماشتوں کے ذریعے قبائلی نفسیات جیسے کہ اونچا ذات، نیچا ذات، غلام، درزادگ، خاندانی تعصب اور طاقتور قبیلے کو دوسرے طاقتور قبیلے سے نبرد آزما کرنا شامل ہے ـ
اس کے علاوہ ایران تمام بلوچ قبائل کو ایک دوسرے کے ساتھ لڑانے کے لیئے نہ صرف قبائلی مسائل جیسے ذات پات کو ہوا دے رہا ہے بلکہ ہر قبیلے میں بے جاہ ہتھیار تقسیم کر رہا ہے اور قبیلے کے اندر میر معتبر کے علاوہ ایک ہی قبیلے کے اندر دو دو سربراہ یا قبائلی متعبر اس لیئے پیدا کر رہا ہے کہ یہی قبیلہ آپس میں الجھ سکیں اور سربراہی و سرداری کے لیے لڑ سکیں ـ
لیکن بہت سے زیرک اور معاملہ فہم بلوچ ایران کی اس سازش کو پھانپتے ہوئے تمام قبائل کو ایک دوسرے کے ساتھ شیر و شکر کرنے میں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کر رہے ہیں اس کی مثال پچھلے دہائیوں میں نہیں مل سکتی ـ
دوسری اور اہم بات یہ کہ ایران اب جان چکا ہے کہ بلوچوں نے میری اس سازش کو جان لیا ہے اسی لیئے وہ سماج کے برے اور جرائم پیشہ افراد کو لالچ و مراعات سے لیس کرکے انہیں ڈیتھ اسکواڈز کی شکل میں پرورش کر رہا ہے تاکہ کسی نا کسی طرح بلوچوں کی نسل کشی جاری رہے ـ یہ مسلح افراد نامعلوم ہیں کہ کون ہیں لیکن بلوچ سیاسی شخصیات کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ایرانی خفیہ ایجنسی القدس اور آرمی انہیں استعمال کر رہا ہے مسلح افراد کے ہاتھوں گزشتہ چند سالوں کے دوران سینکڑوں بلوچ شہید ہو چکے ہیں ـ
یہ نامعلوم مسلح افراد نہ صرف عام شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں بلکہ ان شہریوں کو بھی نشانہ بنا رہے جو ان کا کسی بلوچ قبائل کے ساتھ آپسی چپقلش چل رہا ہو تاکہ شک دوسرے قبیلے پر جا سکے کہ اس کے مخالف قبیلے کے لوگوں نے قتل کر دیا ہے ـ
لیکن اس سازش کو بے نقاب انہیں زیرک اور معاملہ فہم بلوچ سیاسی شخصیات نے کیا ہے جو کہ ایسے واقعات کے چشمدید گواہ پیدا ہوگئے ہیں ـ اس کو اس طرح سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کئی بار عینی شاہدین نے مشائدہ کیا کہ مسلح افراد نے کسی چورائے یا کسی جگہ پر ٹارگٹ کو انجام دینے کے بعد فرار ہو کر قابض ایرانی آرمی کے کیمپوں میں جا کر پناہ لی ہو جیسے کہ دشتیاری میں ایک جگہ آرمی کی چوکی کے قریب نامعلوم مسلح افراد نےفائرنگ کرکے ایک بلوچ شہری کو قتل کر دیا اور قاتل فوراً فرار ہو کر اسی چوکی میں گھس گئے اس سے یہ نتیجہ نکل سکتا ہے کہ ایرانی آرمی آئی آر جی سی اور القدس کو ڈیتھ اسکواڈز کی سربراہی کر رہے ہیں ـ
اس صورتحال میں بلوچ آزادی پسندوں کو مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا کہ کس طرح دشمن کی نہ صرف سازش کو ناکام بنانا ہے بلکہ ادارہ جاتی شکل میں منظم ہو کر دشمن کو کیفر کردار تک پہنچانا ہے اگر آج اس کا فہمیدہ رہنماؤں نے اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا تو معاملات اور بگڑ سکتے ہیں کیونکہ دشمن ہر روز اپنی حکمت عملیاں تبدیل کر رہا ہے۔ سرکردہ بلوچ رہنماؤں کو چاہیے کہ اپنے لوگوں کو تحفظ دینے کے لیئے ایسے منظم اور سرگرم قومی ادارے تشکیل دیں جہاں نہ صرف دشمن کی ریشہ دوانیوں کا روکھ تھام ہوسکے بلکن بلوچ عوام کی اپنے سرزمیں پر کھوئی ہوئی حق حاکمیت کی بحالی ممکن ہوسکے ـ