ڈائنوساروں کے ساتھ زمین پر آخری دن کیا ہوا تھا؟ جدید تحقیق  ڈکوٹا ( ہمگام نیوز) ایک نئی تحقیق کے مطابق امریکی ریاست شمالی ڈکوٹا میں چٹانوں میں دفن فوسلز اس بات کا ثبوت ہیں کہ تقریباً ساڑھے چھ کروڑ سال قبل کرۂ ارض سے آخری ڈائنوسار کے خاتمے کے دن اصل میں کیا ہوا تھا۔ یہ دعویٰ ماہر حیاتیات رابرٹ ڈی پالما اور ان کے ساتھیوں کا ہے جن کی تحقیق کو برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے اپنی حالیہ تاریخی دستاویزی فلم Dinosaurs: The Final Day with David Attenborough میں فلم بند کیا ہے۔ گذشتہ ایک دہائی سے شمالی ڈکوٹا کے ہیل کریک نامی پہاڑی سلسلے میں واقع فوسلز سے بھرا ہوا ’ٹینس‘ (Tanis) نامی مقام ڈی پالما کی تحقیق کا مرکز رہا ہے اور 2019 کے بعد سے ڈی پالما اور ان کے ساتھیوں نے اس مقام پر کری ٹیشس (Cretaceous) دور کے خاتمے کے بارے میں بہت سے مضبوط دعوے کیے ہیں۔ (یاد رہے کہ کری ٹیشس اس عہد کو کہتے ہیں جب زمین پر ڈائنوساروں کا راج تھا۔ یہ دور ساڑھے 14 کروڑ سال پہلے شروع ہوا اور چھ کروڑ 60 لاکھ سال پہلے ختم ہوا۔) ڈی پالما کا خیال ہے کہ ٹینس ایک بڑے سیارچے کے زمین سے ٹکرانے کے عمل کے دوران ہلاک ہونے والے جانوروں کا اجتماعی قبرستان ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چھ کروڑ 60 لاکھ سال پہلے ایک سیارچے کا زمین سے ٹکرانے والا واقعہ زمینی ڈائنوساروں (یعنی اڑنے والے ڈائنوساروں کو چھوڑ کر) اور زمین پر موجود کم از کم 50 فیصد دیگر انواع کے بڑے پیمانے پر معدومیت کا باعث بنا تھا۔ البتہ ڈی پالما کے اس دعوے سے کچھ لوگ متفق نہیں کہ یہ مقام سیارچے کے زمین سے ٹکرانے اور اس سے آخری ڈائنوسار کی ہلاکت کے شواہد کی نمائندگی کرتا ہے۔ تو آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں کہ ہم اپنے سیارے کی تاریخ کے اس اہم ترین وقت کے بارے میں کیا جانتے ہیں اور اس حوالے سے کیا چیز اب تک غیر یقینی ہے۔ عظیم سیارچے کا تصادم جب 1980 میں پہلی بار سیارچے کے زمین سے ٹکرانے کے اثرات کا نظریہ پیش کیا گیا تو اس کو ثابت کرنے کے لیے زمین پر کوئی وسیع و عریض گڑھا موجود نہیں تھا۔ اس کا واحد ثبوت دو مقامات تھے جہاں اریڈیم نامی تابکار دھات کی کافی مقدار پائی گئی تھی۔ اریڈیم ایک ایسی دھات ہے جو زمین پر انتہائی کم مقدار میں ملتی ہے، لیکن خلا سے آنے والے شہابِ ثاقب میں خاصی مقدار میں پائی جاتی ہے۔ سائنس دانوں نے دیکھا کہ کری ٹیشس دور کے اختتام کے قریب بننے والی چٹانوں میں یہ دھات خاصی مقدار میں پائی جاتی ہے۔ اسی سے اندازہ لگایا گیا کہ شاید یہاں کوئی سیارچہ گرا تھا۔ اب دنیا بھر میں سینکڑوں مقامات ہیں جہاں اریڈیم کی بڑی مقدار (سپائیک) ظاہر ہو رہی ہے۔ پھر 1991 میں ایک بڑی پیش رفت اس وقت ہوئی جب موجودہ جنوبی میکسیکو میں جزیرہ نما یوکاٹان میں’چکسولوب Chicxulub نامی گڑھا دریافت ہوا۔ 180  کلومیٹر چوڑا اور 20 کلومیٹر گہرا گڑھا ظاہر کرتا ہے کہ یہ کم از کم 10 کلومیٹر چوڑے سیارچے کے سمندر میں ٹکرانے سے پیدا ہوا ہو گا۔ اس ٹکراؤ کی طاقت اتنی زیادہ تھی کہ اس نے سونامی کی بڑی لہروں کو جنم دیا جو چٹانوں کا ملبہ اور اریڈیئم کی بڑی مقدار کو دور تک بہا لے گئی اور اس کے نتیجے میں ایک انتہائی طاقتور ہیٹ ویو بھی پیدا ہوئی۔ زیادہ تر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ سیارچے کے ٹکراؤ کے مرکز کے تقریباً 17 سو کلومیٹر دائرے کے اندر تمام جاندار فوری طور پر بھسم ہو گئے اور یہاں زندگی کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ لیکن ٹینس کا مقام اس سے 28 سو کلومیٹر سے بھی زیادہ دوری پر واقع تھا اور اب تک ’آخری ڈائنوسار‘ کا بھی کوئی نظریہ ثابت نہیں ہوا تو آخر ڈی پالما کے اس اہم انکشاف کی کیا بنیاد ہے کہ ٹینس روئے زمین پر ڈائنوسار کے آخری دن کا پراسرار ثبوت ہے؟ ٹینس کے مقام پر سیارچے کے ثبوت اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ٹینس کا مقام کری ٹیشس دور کے اختتام کے قریب واقع ہے کیونکہ ڈی پالما نے فوسل بیڈ کے بالکل اوپر اریڈیئم کی تہہ کی نشاندہی کی ہے۔ اس اختتامی دور کوK-Pg boundary کہا جاتا ہے۔ انہوں نے شواہد کے طور پر اس کے کچھ ٹکڑے بھی پیش کیے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ مقام اس دن کی نشاندہی کرتا ہے جب سیارچہ زمین سے ٹکرایا تھا۔ سب سے پہلے ٹینس میں ملبے سے بننے والی چٹانوں موجود ہیں جن کے اوپر پانی کی گزرگاہیں بنی ہوئی ہیں۔ یہ کھڑے پانی یا ان تلاطم کے نتیجے میں پیدا ہونے والی لہروں کا ثبوت ہیں جنہوں نے ٹینس کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ اس وقت شمالی امریکہ کے بیچوں بیچ سے ایک سمندری گزرگاہ گزرتی تھی جو براعظم کو دو حصوں میں تقسیم کر دیتی تھی۔ یہ سمندری گزر گاہ ٹینس کے مقام کے قریب سے گزرتی تھی جس کا مطلب یہ ہوا کہ سونامی کی لہریں یہاں تک پہنچ جاتی تھیں اور کئی بار تازہ اور سمندری پانیوں کو ملا کر لہریں پیدا کرتی تھیں۔ سیارچے کے ٹکرانے کے اثرات سے زمین میں پیدا ہونے والی شاک ویوز، جو تباہ کن سونامی کا سبب بنیں، سے یہ آسانی سے زمین کی پرت کے ذریعے ٹکراؤ کے مقام سے ٹینس تک پہنچ گئیں۔ جب سیارچہ زمین سے ٹکرایا تو چٹانیں پگھل کر ایک ملی میٹر موٹی کانچ کی گولیاں بن گئیں جنہیں ایجیکٹر سفیریولز (ejector spherules) کہا جاتا ہے۔ یہ گولیاں اتنی ہلکی تھیں کہ شاک ویو کے اثر سے وہ 32 سو کلومیٹر تک اڑ کر جا سکتی تھیں۔ ڈی پالما کو یہ شفاف گولیاں اسی مقام سے ملیں اور حیران کن طور پر یہی گولیاں ٹینس کی ندیوں میں موجود قدیم مچھلیوں کے فوسلز کے گلپھڑوں سے بھی برآمد ہوئے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ گولیاں اپنی مشترکہ خصوصیات کی وجہ سے چکسولوب تصادم کے اثر سے پیدا ہوئی تھیں جن میں کچھ میں خود سیارچے کے ٹکڑوں بھی موجود تھیں۔ اگر اسے سچ مان لیا جائے تو ٹینس میں ان کا موجود ہونا واقعی اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ وہ ٹکراؤ کے اثر کے اصل دن کی نشاندہی کرتی ہیں کیونکہ وہ ٹکراؤ کے چند گھنٹوں کے اندر زمین پر گر چکی ہوں گی۔ ٹینس پر تحقیق کے نتائج شمالی ڈکوٹا کی ہیل کریک پہاڑیوں میں چٹانوں اور فوسلز کے کئی دہائیوں کے مطالعے کی مدد سے آج ہم جانتے ہیں کہ ٹینس ایک گرم اور مرطوب جنگلوں پر مشتمل علاقہ تھا۔ یہ ماحولیاتی نظام ڈائنوسارز، پٹیروسورز (اڑنے والے ریپٹائلز)، کچھوؤں اور ابتدائی ممالیہ کے جانوروں سے بھرا ہوا تھا۔ ڈی پالما اور ان کے ساتھیوں نے جانوروں کے کچھ ناقابل یقین نئے فوسلز کا انکشاف کیا ہے، اگرچہ ان کی مزید تفصیل ابھی سامنے ںہیں آئی۔ ان کا خیال ہے کہ تباہ شدہ ٹینس کے ساحل پر ہونے کی وجہ سے وہ ٹکراؤ کے اثر کے دن ہی مر گئے ہوں گے۔ ان میں سب سے پہلے سبزی خور ڈائنوسار تھیسیلوسارس کی ایک غیر معمولی طور پر محفوظ ٹانگ ہے جس میں نہ صرف ہڈیاں بلکہ جلد اور دیگر نرم ٹشوز بھی دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن یہ واحد حیران کن چیز نہیں ہے۔ ان میں اایک پٹیروسور کا بچہ بھی شامل ہے جو اپنے انڈے سے نکلنے ہی والا تھا۔ اس کے علاوہ ناقابل یقین حد تک عمدہ حالت میں محفوظ تین سینگوں والے ڈائنوسار ٹرائی سیراٹاپ (Triceratop) کی جلد جو کہ ایک انتہائی غیر معمولی دریافت ہے۔ اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ وہاں ایک کچھوا چھڑی سے چمٹا ہوا ملا ہے جس کے بارے میں ڈی پالما کا خیال ہے کہ یہ ٹکراؤ کے اثر سے اٹھنے والی تلاطم خیز لہروں کی وجہ سے ہونے والی المناک موت کا ثبوت ہو سکتا ہے۔ قدیم مچھلیوں کے فوسل کی ریڑھ کی ہڈیوں اور فِن کے خردبینی اور جیو کیمیکل تجزیے کی بنیاد پر ڈی پالما کا حتمی دعویٰ ہے کہ ٹکراؤ کا اثر اور ڈائنوسارز کا آخری دن مئی میں ہوا ہو گا کیوں کہ سال کے اس وقت ہی ان کی ہڈیاں تیزی سے بڑھتی ہیں جب خوراک وافر مقدار میں دستیاب ہوتی ہے۔