دوشنبه, اکتوبر 7, 2024
Homeآرٹیکلزبلوچوں کی گمشدگیاں اور حراستی قتل کے توجہ طلب پہلو

بلوچوں کی گمشدگیاں اور حراستی قتل کے توجہ طلب پہلو

تحریر ـ حفیظ حسن آبادی

ھمگـام آرٹیکل

دوہزار ایک سے اب تک جس تسلسل سے بلوچ پڑھا لکھاطبقہ غائب کیاجارہا اور اُنکی مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں اگر کسی مہذب ملک میں اس تعداد کے 0.01فیصد پرندے بھی مارے یا زخمی کئے جاتے توبجا طور پر دنیا ہلا دیا جاتا سینکڑوں ڈاکومنٹریز بنتے۔ریسکیوکے بیشمار کارنامے میڈیا میں وائرل ہوتے مگر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز گذشتہ بارہ برسوں سے مسلسل احتجاج کئے ہوئے۔کوئٹہ،کراچی،اسلام آباد سمیت پاکستان کے مختلف شہروں میں احتجاجی کیمپ لگا کر اپنی فریاد دنیا تک پہنچانے کی کوشش کررہی ہے۔بین القوامی طور پر انٹرنیشنل وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اور کئی دوسری تنظیمیں،شخصیتیں یہ مسلہ اُٹھا رہی ہیں مگر نتیجہ صفر ہے اور بلوچ و بلوچستان ایسے نظر انداز ہے جیسے وہ اس کائنات کا حصہ ہی نہیں ہیں یا وہ کسی ایسے دیوار کے پیچھے فریاد کررہے ہیں جنہیں نہ کوئی دیکھتا ہے اور نہ کوئی سُنتا ہے۔
اس پر قابل افسوس بات یہ کہ پاکستانی سو ل سوسائٹی،سیاسی جماعتیں،عدالیں حتیٰ کہ انسانی حقوق کے ادارے بھی بلوچ مسلے پر یا تو پاکستانی اداروں کے سیاہ کارناموں کو درست ثابت کرنے یا اپنی بے عملی چھپانے طرح طرح کی توجیہات پیش کرتے ہیں۔

گمشدگاں بارے سیاسی جماعتوں کاموقع پرستانہ کردار :

جبری گمشدگاں بارے تمام پاکستانی پارلیمانی سیاسی جماعتوں کا کردار موقع پرستانہ و کسی حد تک منافقانہ رہا ہے۔چونکہ ہم پاکستانی جماعتوں سے کوئی خیر کی توقع نہیں رکھتے اس لئے اُن کے بارے میں مختصراً اتنا کہنے پراکتفا کرتے ہیں کہ بلوچستان بارے پرویز مشرف کے بعد پیپلزپارٹی نے نہ صرف اُن پالیسیوں کو برقرار رکھا بلکہ”قتل کرکے پھینک دو“پالیسی کو باقاعدہ رواج دیا۔بعد میں مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی حکومتوں نے دوسری چھوٹی بڑی جماعتوں کے ساتھ ملکر ان ظالمانہ رویوں میں کوئی تبدیلی لانے کی سعی نہیں کی۔
جبکہ غیرقانونی گمشدگاں بارے زبانی ہمدردیاں جتانے میں کوئی کسی سے پیچھے نہیں رہا۔اس دؤراں ایک افسوناک قدر مشترک تمام جماعتوں میں یکساں پائی گئی وہ یہ کہ جو بھی جماعت اپوزیشن میں آئی اُسے بلوچ و پشتون جبری گمشدگاں وبے گور وکفن مسخ شدہ لاشیں بہت یاد آئے مگر جونہی اقتدار ملی طرزتکلم بدل گیا۔
تاہم اُن جماعتوں کے رویوں کے بارے میں ضرور کچھ کہیں گے جو بلوچ و بلوچستان کو اپنی سیاست کا محور کہتے ہیں،اسکے ساحل و وسائل و ننگ و ناموس کی دفاع کو اپنے ایمان کا حصہ کہتے ہیں اور وہ بلوچستان کے ہی ووٹوں سے اسمبلیوں میں جاتے ہیں۔ نیشنل پارٹی،بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل و عوامی دونوں)،جمہوری وطن پارٹی اور محدود حد تک جمعیت علماء پاکستان و جماعت اسلامی کے بلوچ لیڈر اور کئی ایک اہم شخصیات وغیرہ۔
ان جماعتوں اور کچھ شخصیات نے دو ہزار پانچ سے لیکر دوہزار اٹھارہ کے الیکشن تک بلوچ جبری گمشدگاں اور بلوچ آزادی پسندوں اور اسلام آباد کے درمیان بات چیت کی راہ ہموار کرنے اور بلوچستان میں مسلسل فوجی آپریشنز کی بندش و ریاستی سرپرستی میں ڈیتھ اسکواڈ ز کے خاتمےکا وعدہ کرکے لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کیں اور انہی وعدوں کو تکمیل تک پہنچانے کے نعروں کے تحت ووٹ لیکر اقتدار حاصل کیا مگر وہ وعدے ایفاء کرنے ہرگز کامیاب نہیں ہوئے جن کی وجہ سے وہ پارلیمنٹ تک آئے تھے۔
عدلیہ کی بے بسی یا ریاستی جرم میں برابر کی شراکت داری:
ستمبردوہزار تیرہ کو چیف جسٹس آف پاکستان سپریم کورٹ جسٹس افتخار چوھدری نے بلوچ گمشدگاں کے کیس کی شنوائی کے دوراں کہا کہ ”اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ کچھ کیسیز میں ایف سی کے اہلکار ملوث ہیں“ اپنے اداروں پر برہم ہوکر اس نے یہاں تک کہا ”کہ کیوں نہ انسپکٹر جنرل ایف سی کو اس وقت تک کورٹ میں کھڑا کیا جائے جب تک گمشدگاں بازیاب نہیں ہوتے“
https://www.dawn.com/news/1043525
ٓتقریبا نو سال بعد سترہ جون دوہزار بائیس کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے گمشدگان کے کیس کی شنوائی کے دوراں ڈپٹی اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ”لوگ ابھی تک کیوں ماورائے عدالت اُٹھائے جارہے ہیں۔مرکزی حکومت اس سلسلے میں کیا اقدامات اُٹھا چکی ہے اور ان کازمہ دار کون ہے؟“ اُنھوں نے مزید کہا کہ ”بادی النظر میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پرویز مشرف کے دؤر کا لوگوں کو اُٹھا کر غائب کرنے کی پالیسی ابھی تک برقرار ہے۔اس دؤراں غائب کئے گئے لوگوں کیلئے کوئی تو زمہ دار ہے۔“ ایک ملک جہاں قانون کی حکمرانی ہو وہاں لوگوں کو ماورائے عدالت غائب کرنے کے واقعات قابل قبول نہیں۔ہم کیوں نہ ملک کے چیف ایگزیکٹو کو بلا کو جوابدہ ٹھہرائیں“سرزنش کے طور چیف جسٹس نے یہاں تک کہا کہ ”آج گورنمنٹ نے یہ ثابت کیا کہ وہ اس سنگین مسلہ بارے کتنے غیر سنجیدہ ہیں“
https://tribune.com.pk/story/2361976/state-involved-in-enforced-disappearances-says-ihc-cj

ًنامعلوم مگر معلوم زمہ دار کون ہے؟

جیسے کہ ہم نے اُوپر دو چیف جسٹسز کے ریمارکس کا حوالہ دیا تو اسکے بعد کسی کے زہن میں یہ سوال ہی پیدانہیں ہونا چائیے کہ یہاں لوگوں کو غائب کرنے،اُنکی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کے پیچھے کون ہے؟ اس حقیقت کے تناظر میں یہاں ہمارے لئے تین بنیادی سوال پیدا ہوتے ہیں پہلا یہ کہ اگرسپریم کورٹ کا چیف جسٹس خود اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ ظالم کون اور مظلوم کون ہے تو وہ قانون کو حرکت میں لاکر مظلوم کو کیوں انصاف نہیں دلاسکتا؟کیوں بلوچ بارے چیف جسٹس اور ایک نام نہاد سیاسی لیڈر کے زبانی جمع خرچ بیان میں کوئی فرق نہیں؟ اگر دیکھا جائے تو ہمیں عدالت عظمٰی سے یہ سُننے کی ہرگز ضرورت نہیں کہ ہمیں کون قتل کررہا ہے، کون جبری طور پر لاپتہ کررہا ہے،کون گمشدگاں کے لواحقین اور اُنکی بازیابی کیلئے آواز اُٹھانے والوں کو کبھی ہراساں،کبھی غائب اور کبھی قتل کررہا ہے؟کیونکہ ہمیں سب کچھ پہلے سے خود معلوم ہے اگر ہمیں کسی چیز کی ضرورت ہے تو اس کی کہ آپ بحثیت چیف جسٹس اس بربریت کے خاتمے کیلئے کیا عملی قدم اُٹھاسکتے ہیں؟ اگر کچھ کرنے سے حاجز ہیں تو کیوں؟۔
دوسرا یہ کہ کسی بھی ملک میں جب کسی شہری کیساتھ ناانصافی ہوتی ہے یا اسکے خلاف کوئی جرم ہوتا ہے تو وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس جاتاہے یہاں جب قانون نافذ کرنے والے ہی ناانصافی اور جرم کے مرتکب ہورہے ہوں تو مظلوم جائیں تو جائیں کہاں؟سوشل میڈیا کی بدولت آج پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ بلوچوں اور پشتونوں کو غیر قانونی طور پر لاپتہ کیا جاتا ہے، انھیں حبس بے جاہ میں برسوں رکھکر انھیں اپنی صفائی کا موقع نہیں دیا جاتا،انھیں اپنے دفاع کیلئے وکیل کا حق نہیں دیا جاتا،اُنھیں فورسز کی تحویل میں تشدد کا نشانہ بنا کر مار کر اُنکی لاشیں پھینک دی جاتی ہیں تو بین القوامی انصاف کے ادارے کیوں اس سنجیدہ مسلے پر سنجیدگی سے غور کرکے اپنے ہی بین القوامی قوانین کی خلاف ورزیوں پر پاکستان سے بحثیت دستخط کندہ ریاست سوال نہیں کرتے اور اس بربریت کو روکنے کو ئی راہ حل تلاش نہیں کرتے؟
تیسرا اور بہت اہم و معصومانہ سوال یہ کہ جن لوگوں کو لاپتہ کیا جاتا ہے انھیں کیوں پاکستانی عدالتوں میں پیش نہیں جاتا؟ اور عدالتیں بھی کیوں اُن قوتوں کے سامنے بس ہیں؟ کیا وہ ہر قانون سے بالا تر کوئی مخلوق ہیں؟
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اورجبری لاپتہ افراد کے لواحقین شروع دن سے یہی مطالبہ دہراتے آرہے ہیں کہ اگر جبری لاپتہ افرادنے کوئی گناہ،کوئی جرم کیا ہے اُنھیں اپنے ہی عدالتوں میں پیش کرکے اُنھیں اپنے ملکی قوانین کے مطابق اپنی صفائی پیش کرنے کاموقع دیں اگر وہ مجرم ثابت ہوئے اُنھیں بیشک سزا دیں مگر انھیں منظر عام پر لائیں انھیں غائب کرکے اسکی فیملی سمیت پوری قوم کو اذیت نہ دیں.
یہ مطالبہ جو ہر لحاظ سے جائز و برحق ہے مگر وہاں کے سیاسی حکمراں،وہاں کی عدالتیں،سیاسی جماعتیں،سول سوسائٹی پاکستان کی سیکورٹی فورسز کو یہ مطالبہ ماننے آمادہ نہ کرسکے ہیں یا سیکورٹی فورسز اس بات پر مطمئن ہیں کہ کوئی اُن سے جواب طلبی نہیں کرسکتااسی لئے وہ کسی کی بھی نہیں سُنتے۔
لاپتہ افراد کے لواحقین یہ بھی کہتے آرہے کہ ہمارے لوگ بیگناہ ہیں مگر عام پاکستانیوں نے اُنکی اس بات کو ہمیشہ درخوراعتنا نہیں سمجھا یا جان کر بھی سُننا نہیں چاہا۔ مگر اب جس شخص نے اس بابت جو کہا ہے اُسمیں نہ صرف بلوچ و پشتونوں کے بیگناہی کے تردید کی کوئی گنجائش نہیں رہتی بلکہ یہ اظہاریہ ایک لحاظ سے پاکستانی سیکورٹی فورسز کی طرف سے اعتراف جرم اور اپنے آپ کو ہر قانون سے بالاتر ہونے کامجرمانہ اقرار ہے۔
سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ جب میں نے سیکورٹی اداروں کے سامنے مسنگ پرسنز کو عدالتوں میں پیش نہ کرنے کا سوال اُٹھایا تو مجھے کہا گیا کہ”چونکہ ان لوگوں کا جرم ثابت کرنا مشکل ہے۔اگر ہم انھیں عدالتوں میں پیش کریں تو وہاں عدم ثبوت کی بنا پریہ لوگ رہا ہو کر نکل آتے ہیں اور پھر ہمارے فورسز پر حملہ کرتے ہیں“

کیا پوری دنیا میں ایسی لاقانونیت اور خودسری کی مثال ملتی ہے کہ چونکہ ہم اتھارٹیزملزم کاجرم ثابت نہیں کرسکتے اس لئے اسے عدالت پیش نہیں کرتے۔
کیا آپ کی ناکامی کا ازالہ ایسے ہو گا کہ کسی بیگناہ کو فقط شک کی بنیاد پر برسوں اذیت خانوں میں رکھ کر اُسے ٹارچر کرتے رہیں جب وہ اذیتوں سے جان سے جائے تواس کو فورسز کیساتھ ان کاؤنٹر میں مارنے کا بیان جاری کریں جس طرح پچھلے دنوں زیارت میں نو بلوچوں کو دہشتگرد کہہ کر ان کاؤنٹر میں مارے جانے کا اعلان کیا گیا جبکہ بعد میں اُن میں سے سات لوگ وہ نکلے جو پہلے سے پاکستانی فورسز کی تحویل میں تھے اور اُنکے لواحقین بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجی کیمپ میں اپنے پیاروں کی تصویروں کیساتھ اُنکی بازیابی کی اُمید لئے احتجاج میں بیٹھے تھے۔ یاکئی کو ایک ساتھ اجتماعی قبروں میں دفنا کر لاتعلقی و لاعلمی کا اظہار کریں،نمائشی جی آئی ٹی بنائیں،نمائشی کمیشن بنائیں، پیشیوں پر پیشیاں رکھیں اور لاپتہ افراد کے لواحقیں کے دکھوں کا مداواکرنے کے بجائے اُنھیں باربار پیشیوں پر طلب کریں،لاشوں کی پہچان کیلئے بلائیں،جھوٹی تسلیاں دے کر اُنکے زخموں پر نمک چھڑکیں۔
بلوچوں اور پشتونوں کے ماورائے عدالت گمشدگی اور قتل کے تناظر میں یادآوری لازم ہے کہ دنیا کے کئی ممالک میں سزائے موت پر اس لئے پابندی ہے کہ کہیں کسی معمولی غلطی یا ثبوتوں کے بروقت عدم دستیابی سے کسی بیگناہ کی جان نہ چلے جائے۔یہاں تو ایک سابق وزیر اعظم کہتا ہے آرمی والے لاپتہ لوگوں کو اس لئے عدالت کے سامنے پیش نہیں کرتے کیونکہ وہ اُنکے خلاف کافی ثبوت نہیں رکھتے۔ جبکہ ایک اور وزیر اعظم شہباز شریف نے کوئٹہ میں جبری لاپتہ افراد بارے کہا تھا کہ”وہ اس سلسلے میں اختیار دار لوگوں سے بات کریں گے“ اس کا مطلب وہی ہے کہ لاپتہ افراد پاکستان آرمی کے پاس ہیں جہاں نہ سیاستدانوں کی بس چلتی ہے نہ جج وہاں کچھ کرسکتے ہیں اور نہ پاکستانی سول سوسائٹی کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہے ۔ایسے میں مظلوں کی آنکھیں صرف اور صرف بین القوامی بڑی قوتوں،بین القوامی عدالت انصاف اور انسانی حقوق کے اداروں کی طرف ہیں جنہیں اگر یوکرائن میں روس کا قبضہ نظر آتا ہے تو اُنھیں بلوچستان میں پاکستانی جبری قبضہ بھی نظر آنا چائیے اگر انھیں وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور انسانی المیہ دکھائی دیتا ہے تو اُنھیں بلوچوں کے مسخ شدہ لاشوں اور جبری گمشدگاں کے لواحقین کے سسکتے بلکتے بچے،بوڑھے اور خواتیں بھی دکھائی دینے چاہئیں ۔ختم شُد

یہ بھی پڑھیں

فیچرز