رپورٹ۔ ھمگام
ایرانی تاریخ کے مطابق 20 آبان 1307بمطابق 11 نومبر 1928 کو رضا پالانی (پہلوی) اور امان اللہ جہانبانی کی کمان میں برطانیہ کی مدد سے بلوچستان کے مغربی حصے پر بزور طاقت قبضہ کرکے بلوچ قوم کی ہزاروں سال پرانی تاریخ کلچر اور زبان پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ بلوچ فرزند آج بھی اپنی نسل کی بنیادوں کو کھوج رہے ہیں ۔
مغربی بلوچستان کی کئی ادوار کی مزاحمت کے بعد بالآخر ایران 11 نومبر 1928 مغربی بلوچستان پر قابض ہونے پر کامیاب ہوئے۔ سردار دوست محمد خان بارانزئی اور اس کے اتحادیوں پر حملہ کرکے سینکڑوں بلوچ جنگجوؤں کا قتل عام کرکے دوست اور ان کے کئی ورزا کو گرفتار کرکے تختہ دار پر لٹکا دیا۔
اس وقت سے لیکر آج تک ایران نے ہر بلوچ بغاوت کو روکنے اور آزادی کے حصول کے لیے بلوچ قوم کو زیر تسلط اور کنٹرول کرنے اور اسے محکوم بنانے کے لیے ظالمانہ پالیسیوں کے استعمال سے دریغ نہیں کیا، جس میں تاریخ کو مسخ کرنا اور بلوچ قوم کی نسل کشی ، بلوچستان کے شہروں کے نام تبدیل کرنا، دزاپ جیسے کیپٹل سٹی کا نام تبدیل کرکے زاہدان رکھنا گمبدان کو بندرعباس رکھنا سمیت بلوچ سماج میں منشیات کا عام کرنا شامل ہے۔
اس کےعلاوہ فارسی حکمرانوں کی بلوچ قوم کی شناخت، ثقافت اور زبان کو تباہ کرنے کی کوششیں بھی تاحال جاری ہیں۔ تعلیمی نظام کے ذریعے باقاعدہ بلوچی زبان میں تعلیم کی ممانعت کی گئی ہے بلوچی شناخت کو ختم اور فارسی زبان کو بلوچ قوم پر مسلط کیا گیا ہے۔
بلوچ عوام کی شناخت اور ثقافت کی تباہی کو تیز کرنے کے لیے پہلوی حکومت نے بلوچستان کو کئی ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا ہے۔
اسی طوح بلوچستان کے شمال اور مغرب کے کچھ حصوں کو خراسان، کرمان اور ہرمزگان میں شامل کیا گیا ہے، ایران کی تسلط شدہ نظام نے بلوچ عوام کی شناخت، ثقافت اور زبان کافی حد تک ختم کر ڈالا ہے۔
موجودہ دور میں پہلوی پالیسیوں کو جاری رکھنے والی قابض ایران کی موجودہ حکومت بھی بلوچ قوم کے تشخص کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے لیے بلوچستان کو دوبارہ تقسیم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
بلوچ عوام کو ہوشیار رہنا چاہیے اور بلوچستان کے دفاع اور 9 دہائیوں سے جاری ایرانی قبضے کو ختم کرنے کے لیے اپنی پوری قوم کو متحد کرنے کی ضرورت ہے۔