تحریر:مہرآصف
یورپا چاند ایک ایسا چاند ہے جس پر زندگی کے کافی ٹھوس شواہد ملے ہیں. یورپا چاند مشتری کے چار گیلیئن چاندوں میں سب سے چھوٹا چاند ہے… جبکہ ہمارے سولر سسٹم میں سائز کے حساب سے اس کا مقام چھٹے نمبر پر آتا ہے. اس کا ڈایا میٹر 3118km سے 3128km کلومیٹر کے درمیان ہے… جبکہ ایگزیکٹ ویلیو 3122km کلومیٹر بتائی جاتی ہے.
یورپا چاند کا سائز تقریباً 48000000000000000000000KG ہے… آسان اور مختصر الفاظ میں اگر اس کا سائز بیان کرنا ہو تو یہ چار اشاریہ آٹھ ضرب دس کی طاقت بائیس کلوگرام بنتا ہے.
مشتری سیارے کے قریب سے اگر دیکھا جائے تو یہ چاند آئی-او کے بعد دوسرے نمبر آتا ہے. اور سیارے سے اس کا فاصلہ تقریباً 671130KM کلومیٹر بنتا ہے.
یورپا چاند کا اپنے ایکسز پر ایک چکر مکمل کرنے کا دورانیہ ہماری زمین کے 3.5 دنوں کے برابر ہے… مختصر یہ کہ اس کا روٹیشن پیریڈ تقریباً زمین کے 83 گھنٹوں کے برابر ہوتا ہے.
یورپا چاند کی سپیڈ اپنے ایکسز اور سیارے کے گرد دونوں برابر ہیں… یورپا چاند کا آربیٹل پیریڈ بھی زمین کے 83 گھنٹوں کے برابر ہے… یورپا چاند کا سائز ہماری زمین کے چاند سے کم ہے اس لیے یورپا کی سطحی کشش ثقل تقریباً 1.31M/S2 میٹر پر سیکنڈ سکیئر ہے.
سورج سے کافی زیادہ دوری ہونے کی وجہ سے اس کا سطحی درجہ حرارت بھی ہمیشہ منفی میں ہی رہتا ہے… یعنی اس کا اوسطاً سطحہ درجہ حرارت °171C ڈگری سیلسیئس رہتا ہے… بہت زیادہ ٹھنڈ انسان کی رگوں میں خون جما سکتی ہے…
یورپا زمین سے قریب ترین واحد ایک ایسی جگہ ہے جس پر سائنسدانوں کو زندگی کے زیادہ آثار ملے ہیں… زمین کے بعد سب سے قریبی یہی ایک ایسی جگہ ہے جس پر فلحال زندگی ممکن ہوسکتی ہے…
یورپا سے ایسے واضح اور پختہ شواہد ملے ہیں جن کے باعث پتہ لگایا جاسکا ہے کہ اس چاند کی اوپری سطح یعنی کرسٹ کے نیچے پانی کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے… یہ ذخیرہ زمین پر موجود تمام سمندروں کے پانی سے زیادہ ہے…
زمین سے 80 کروڑ سے بھی کم کلومیٹر کی دور پر واقع اس چاند کی سطح پر موجود لال لائنوں میں کہیں کوئی جاندار تو نہیں… یہ سوال سائنسدانوں کو چونکا دینے والا تھا…
یہ ایک برفیلی دنیا ہے یہاں آپ کو لال رنگ کی ان گنت لائنیں نظر آئیں گی… اس کی برفیلی سطح پر لال رنگ کی لائینیں ادھر سے ادھر پھیلی ہوئی دیکھی گئیں. یہ دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے اس کی سطحپر خون کی ندیاں چل رہی ہوں.. مگر ناسا کے ماہرینکو اس کے متعلق زیادہ کچھ پتہ نہیں ہے…
ڈاکٹر نیل رائیڈ ہبل آسٹرونومر کے مطابق یوراپا کہ ماحول اور اس کی نیچر کے متعلق زیادہ تر باتیں ایسی ہیں جن سے ابھی تک پردہ نہیں اٹھایا جاسکا…
سن 2001 میں ناسا کے ایک ریسرچر بریڈ ڈالٹن (Nasa planetary scientist) نے یورپا کی ان لال لائنوں والی پہلیوں پر دھیان دیا… ان کا کہنا تھا کہ یہ لال رنگ کی لائنیں زنگ سے مشابہت رکھتی ہیں، مگر یہ کچھ چپ چپا سا بھی تھا، کسی گوند کی طرح… ان کا کہنا تھا کہ ہم نے زمین پر کافی جاندار ایسے دیکھے ہیں جن کا رنگ لال اور بادامی ہے، ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ یہ کوئی جاندار ہی ہوں… ہوسکتا ہے کہ یہ مائکروبز ہی ہوں… ڈالٹن کے مطابق گیلیو اسپیس کرافٹ سے انفراریڈ والے حصے کو دیکھ کر اس کی مشابہت زمین پر موجود yellow stone national park کی زمین سے نکلنے والے گرم پانی کے پھواروں میں رہنے والے جانداروں کے نمونوں سے کی گئی. ان کا کہنا تھا کہ ہم نے یورپا پر جو کچھ دیکھا تھا وہ کافی حد تک زندگی سے ملا جلا تھا…
کافی ریسرچرز نے ڈالٹن کی اس بات سے اتفاق نہیں کیا… کچھ سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ یہ لال پٹیاں ضرور کسی کیمیکل کی موجودگی کی وجہ سے ہوگی… یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ان پٹیوں کے لال رنگ کے پیچھے شاید گندھک ہو…
ناسا نے ڈالٹن کی بات پر غور کرنے کے بعد یورپا پر پانی کی تلاش شروع کی ان کا ماننا تھا کہ اگر وہاں پانی کے ذخائر ملتے ہیں تو اس بات کی امید کی جاسکتی ہے کہ وہاں پر زندگی موجود ہے، تو معلوم ہوا کہ وہاں پر پانی کے بڑے ذخائر موجود ہیں.
کمال کی بات یہ ہے کہ ناسا کے سائنسدانوں نے معلوم کیا کہ اس چاند کی برفیلی سطح کے نیچے پانی کا بہت بڑا سمندر ہے… اور وہ پانی مائع حالت میں موجود ہے…
سن 2013 میں ہبل ٹیلیسکوپ کے ذریعے دیکھا گیا کہ یورپا کے پھوارے نما سوراخوں سے گرم پانی نکلتا دیکھا گیا،اس طرح سائنسدانوں کو مزید پختہ ثبوت ملتے گئے…
ناسا کے Dr.Sethi Shostak (seti astronomer) کا کہنا تھا کہ یورپا پر پانی پچھلے چار ارب سال سے موجود ہے تو ہوسکتا ہے کہ وہاں پر زندگی کی شروعات بھی ہوچکی ہو… اور ایسا ہونا ممکن بھی ہے…
ناسا کے آسٹرو بائیولوجسٹ نے مشاہدہ کیا تو معلوم ہوا کہ ایکسٹریمافائل ایسے جاندار ہیں جو ایسی جگہوں پر رہنا پسند کرتے ہیں جہاں انسان نہیں رہتے… اور یہ ایسے جاندار ہیں جو اپنے ماحول کو خود روشن کرسکتے ہیں…
… اور یہ ایسے جاندار ہیں جو اپنے ماحول کو خود روشن کرسکتے ہیں… یہ نمک کا رنگ کھارا کردیتے ہیں. اور یورپا پر موجود لال رنگ کی پٹیاں بھی بنا سکتے ہیں. لیکن مانا جاتا ہے کہ یورپا کا سمندر سطح کی نسبت زندگی کے وجود میں آنے کے لیے زیادہ بہتر جگہ مانی جاتی ہے…
اس سمندر میں فوٹوسینتھیسز کا عمل نہیں ہوسکتا کیونکہ یہاں ہر وقت اندھیرا رہتا ہے… سورج کی روشنی نہ ملنے کی وجہ سے یہاں پودوں کا رہنا تو بہت مشکل ہوگا… مگر اس سمندر کی نچلی سطح پر ایسی دراریں ہوسکتی ہیں جن سے گرمی باہر آتی ہو… یہاں زمین پر موجود سمندروں میں بھی اسی گرمی کی وجہ سے جاندار زندہ رہتے ہیں… ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ یہ جاندار زمین کے نچلے سمندری حصے پر رہنے والے جانداروں سے کافی حد تک ملتے جلتے ہوں…
ناسا کے مطابق صرف دیکھ کر وہاں کا اندازہ بہت کم لگایا جاسکتا ہے… اگلا قدم شاید یہ ہو کہ وہ وہاں کسی انسان یا روبوٹ کو بھیجیں اور وہ یورپا کی کرسٹ پر کھدائی کرنے کے بعد نیچے سمندر میں جاسکے، اور وہاں کی مکمل معلومات زمین تک پہنچا سکے.