امریکا کے محکمہ دفاع (پینٹاگون) نے منگل کے روز اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ 2035ء تک چین کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد تین گُنا سے بڑھ جائے گی اور یہ تعداد 1500 تک ہو جائے گی۔
پینٹاگان نے بیجنگ کوامریکا کے لیے سب سے اہم چیلنج قراردیا ہے اور چین کی فوج سے متعلق سالانہ رپورٹ میں اس کی جوہری اور روایتی افواج دونوں میں بہتری اور ترقی کی نشان دہی کی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’محکمہ دفاع کا اندازہ ہے کہ (چین کے) آپریشنل جوہری ہتھیاروں کے ذخائر400 سے تجاوزکرچکے ہیں۔اگرچین نے اپنی جوہری توسیع کی یہی رفتار برقرار رکھی تو ، وہ ممکنہ طور پر 2035ء تک قریباً 1،500 وار ہیڈز کا ذخیرہ تیارکرلے گا‘‘۔
تاہم،اس کے باوجود یہ تعداد امریکا اور روس کے جوہری ہتھیاروں کے مقابلے میں بہت کم ہوگی کیونکہ ان دونوں ممالک میں سے ہرایک کے پاس اس وقت کئی ہزار جوہری ہتھیارہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین اپنے بیلسٹک میزائلوں کو جدید بنانے کے لیے بھی کام کررہا ہے۔یہ میزائل جوہری ہتھیاروں کو ہدف تک لے جانے کی صلاحیت کے حامل ہیں۔چین نے2021 کے دوران میں 135 میزائلوں کی آزمائش کی تھی یا تجربات کیے تھے اور یہ تعداد بھی ‘باقی دنیا کے مجموعی میزائلوں سے کہیں زیادہ’ ہے۔
اس کے علاوہ چین کی فضائیہ تیزی سے مغربی فضائی افواج کے ہم پلہ ہونے کے لیے پیش قدمی کر رہی ہے۔ایک سینیر دفاعی عہدہ دار نے امریکا کی اس رپورٹ کے اجراء سے قبل بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’چینی فضائیہ تمام محاذوں پربشمول سامانِ حرب ، آلات اور ہوابازوں کے ساتھ تیزی سے ترقی کررہی ہے‘‘۔
رپورٹ میں چین کی جانب سے بحرہنداور بحرالکاہل کے خطے میں اپنی فوج کو استعمال کرنے کے طریق کار کو ہدف بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس نے ‘مزید زبردستی اور جارحانہ اقدامات کیے ہیں۔اس میں تائیوان کی طرف اشارہ ہے جہاں چین نے حالیہ مہینوں میں بعض فوجی مشقیں اور اقدامات کیے ہیں۔’
اگست میں امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی نے تائیوان کا دورہ کیا تھا۔ان کے اس سفرنے چین کو مشتعل کردیا تھا۔اس نے 1990 کی دہائی کے بعد سے جزیرے کے آس پاس اپنی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ جارحانہ مشقوں کے ساتھ ردعمل کا اظہارکیا تھا۔
اس کے بعد سے دونوں ممالک درجہ حرارت کو کم کرنے کے لیے پیش رفت کررہے ہیں، لیکن سینیر دفاعی عہدہ دارنے کہا کہ اگرچہ تائیوان کے اردگرد چین کی فوجی سرگرمی میں کمی آئی ہے، لیکن یہ اب بھی پہلے کے مقابلے میں زیادہ ہے اور بیجنگ ’’اسپیکر پیلوسی کے دورے کے بعد تائیوان کے ارد گرد فوجی سرگرمی کی سطح کے لحاظ سے ایک نئے معمول پرعمل پیرا ہے‘‘۔
ایک اوراعلیٰ عہدہ دار کا اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ ’’اگرچہ ہم ایک ممکنہ حملے کو نہیں دیکھتے ہیں لیکن یہ ظاہر ہے کہ تائیوان کے ارد گرد ڈرانے، دھمکانے اورزور زبردستی کی سرگرمی ہمارے لیے تشویش کا باعث ہے‘‘۔