رپورٹ: آرچن بلوچ
زاھدان (ہمگام رپورٹ) گزشتہ جمعہ کے روز ایرانی مقبوضہ بلوچستان میں بلوچ خواتین نے محسا امینی کی موت کے بعد بڑے پیمانے پر شروع ہونے والے مظاہروں میں شمولیت اختیار کی۔ انٹرنیٹ پر گردش کرنے والی ویڈیو زاہدان میں درجنوں خواتین کو دکھایا گیا ہے جہاں بلوچ خواتین ’’عورت، زندگی، آزادی‘‘ کے بینرز اٹھا رکھے تھے۔ چادر پہنے ہوئے خواتین نے نعرہ لگایا، پردے کے ساتھ یا اس کے بغیر، چلو انقلاب کی طرف چلتے ہیں۔ کرد نژاد 22 سالہ امینی کی موت کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں سے ایران ہل گیا ہے ۔ اوسلو میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق، سکیورٹی فورسز نے اب تک کم از کم 448 مظاہرین کو ہلاک کیا ہے، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق بلوچستان سے تھا۔ تنظیم کے ڈائرکٹر محمود امیری نے زاہدان میں خواتین کے حالیہ مظاہرے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، “یہ واقعی اپنی نوعیت کا ایک نایاب مظاہرہ ہے، ان مظاہروں نے خواتین اور اقلیتوں کو بااختیار بنایا ہے، جن کے ساتھ چار دہائیوں سے دوسرے درجے کی شہری کے طور پر سلوک کیا جا رہا ہے بلوچستان، جو کہ زیادہ تر سنی ہیں، ایران کا غریب ترین خطہ ہے، جب کہ اس کی بلوچ آبادی امتیازی سلوک کا شکار ہے۔
جبکہ دوسری طرف ایران میں انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق بلوچستان میں کم از کم 128 افراد ہلاک ہوئے، جو کہ ایران کے 31 میں سے 26 صوبوں میں ریکارڈ کی جانے والی ہلاکتوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ کردستان میں ہلاک ہونے والے احتجاجیوں کی تعداد 53 ہے جو تعداد کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر آتا ہے، کیونکہ یہ امینی کی جائے پیدائش ہے، ایرانی کردستان جو مھاباد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے عراق کے ساتھ مغربی ایران میں واقع ہے۔
بلوچ روحانی رہنما مولوی عبدالحمید نے کل جمعہ کے خطبے کے دوران کہا کہ ایرانی شہرنیوں نے گزشتہ 44 سال سے غیر ضروری پابندیوں کو برداشت کیا اور اب وہ احتجاج کر رہا ہے۔ انہوں نے تہران سے مطالبہ کیا کہ ’’گرفتار قیدیوں کے خلاف ’’محاربہ‘‘ کے حربے کے حکم کو استعمال نہ کیا جائے‘‘۔ ایران میں محاربہ کی سزا ان لوگوں کو دیا جاتا ہے جو بقول رجیم خدا کے ساتھ لڑ رہے ہوتے ہیں جن کی سزا موت ہے۔