تحریر ۔ گلبہار بلوچ

                          ھمگام آرٹیکل

بلوچ قومی آزادی کی جنگ بلوچ کی مستقبل کا فيصلہ اور وجود ہے۔ اس سے بڑھ کر اپنے وجود کا اظہار ہے جو ہر ذی روح سے ليکر قوموں تک کی فطری حق ہے۔ لہذا انسان سے ايک قوم ہونے کے ناطے بلوچ کا اظہار بهی فطری ہے۔ اس جنگ آزادی کيلئے قوم کا اکٹها ہونا اور ايک واضح سمت کا تعين ايک سياسی پروسس کا منتظر کيوں ہے؟ حالاناکہ يہ جانتے ہوئے کہ ہم ايک قوم ہيں، ہماری ايک شناخت، ايک جغرافيہ/رياست اور ايک تہذيب کے وارث ہيں۔ پهر بهی ايک واضح قومی مزاج ہونے کے ناطے ہر سياسی ادوار سے دوسرے کيلئے پهر سے کسی نہ کسی کو نرسری کا کردار ادا کرنا پڑتا ہے چاہے وه کوئی قومی ليڈر ہو يا قومی رياست يا پهر آزادی پسند تنظيميں؟ لہذا بلوچ قوم ہونے کے ناطے تمام قومی ملکيت(انسان، زبان، معاشره، مزاج، جغرافيہ/رياست، تہذيب) کا مالک بهی ہے۔ يہ ملکيت کا ہونا بلوچ کی سياست کا مرکز و محور ہے جو کہ اس دور ميں آزادی کيلئے مرکزيت کی شکل اختيار کرتی جارہی ہے۔ اسے مرکزيت کے سانچے ميں ڈهالنے کے ساتھ ساتھ کچھ مبهم و غير واضح سياسی نظريات، سياسی حکمت عملی کا فقدان، غيرضروری پروپگينڈا، اداروں کی تربيت کا فقدان، احتجاجی ذہنيت (جو کہ آزادی کيلئے نہيں اور اسے ماس موبائلائزيشن کا نام دينا احمقيت ہے)، گوريلا حکمت عملی کا فقدان، عدم برداشت، بحث مباحثوں کی بجائے جهگڑنا، سياسی زبان کا عاری ہونا اور غير سنجيده رويوں کا شکار ہے۔ جن کو ميں نے بلاترتيب شدت سے محسوس کيا ہے۔ اس راه کے مسافر ہونے کے ناطے ميں نے جو سوچا اور سمجها وه يہ ہے۔

1۔ سياست:

سياست خيالات، خواہشات اور تصورات کا مجموعہ کسی شے يا مقصد کو حاصل کرنے کی جستجو يا عمل کو کہتے ہيں۔ اس طرح سياست کيلئے جو کردار يا کردار بنانے کی آرزو يا آرزو بنائے جانے کے عمل کو سياسی ہونا کہتے ہيں يا اپنے خيالات، خواہشات اور تصورات کو کسی خاص مقصد کو پانے کيلئے ايک خاص سانچے ميں ڈهلنے/ڈهالنے کے عمل کو سياسی ہونا کہلاتے ہيں۔ مثلا ايک تصور سياست اور دوسرا اس تصور کو اپنے مزاج و مقصد کيلئے عمل ميں لانا/لينا سياسی ہونا کہلاتا ہے۔ اسی طرح ہر ذی روح اپنے حالات کے مطابق اپنے عمل کو ڈهالتا ہے پر ان سب ميں انسان کا سياست کرنا يا سياسی ہونا تمام ذی روحوں سے برتر ہے۔ حالانکہ يہ برتری انسانوں ميں کسی خاص قوم کی برتری نہيں بلکہ فطری صلاحيتوں کے حوالے سے تمام انسانوں کيلئے ايک ہے۔ جو سب کے سب کسی کے اونچ نيچ ميں پنہاں نہيں۔ ہاں اگر ہے تو کسی کی واضح برتری مضبوط سياسی حکمت عملی کے ہيں يا کسی کا سياست ميں دير سے جاگ کر بهی غير سياسی حکمت عمليوں کا شکار ہونا ہے۔ اسی طرح بلوچ کی سياسی تصور ايک غير سنجيده رويے کی نظر ہو گئی ہے۔ جو آج تک ہميں منتشر اور مبهم نظر آتا ہے۔ اسکی واضح مثال يہ کہ ہماری تاريخ ميں قومی سياست منتشر ہونے کے ساتھ ساتھ رياستی رويہ بھی رياستی نہيں تها وه بهی انفرادی مزاج کی نظر رہی۔ جيسا کہ بم پور، بم پشت، کيچ، سيوی اور قلات تک سياست منتشر اور رياستی رويہ انفرادی رويوں کی نظر رہی۔ جو ميرے خيال ميں آج تک برقرار ہے جيسے آزادی پسند پارٹياں يا مسلح تنظيميں ايک ہی بيان ميں غلام ہونے کے ساتھ ساتھ محکوم اور مظلوم بهی ہيں۔اسی طرح آزادی کی راه ميں خود کو غلام نہ سمجهتے ہوئے محکوم اور مظلوم کہنا سياسی خودکشی کے زمرے ميں آتا ہے۔ حالانکہ آزادی کا تضاد غلامی ہے جو کہ اپنی شناخت کيلئے جنگ کرتا ہے وه کچھ بهی نہيں مانگتا سوائے آزادی کے چاہے اسے اس کيلئے کتنے ہی قربانی کيوں نہ دينا پڑے۔ پر يہ قربانياں کسی غلط حکمت عمليوں کا شکار نہ ہوں تو۔ محکموم کے معنی ہيں رياست کے اندر رہتے ہوئے اس کے حق مل جائيں جس کی واضح مثال بی اين پی مينگل کے ہيں۔ حالانکہ محکوم کے تصور ميں بهی آزادی نہيں۔ تيسرا مظلوم جو کہ اس رياست کے اندر رہتے ہو اپنے حقوق کے مطالبات کرتا ہے جو کہ اس کی سرزمين سے رياست ريونيو پيدا کرتا ہے۔ مظلوم اپنے طاقت کو رياست کی طاقت تصور کرتے ہوئے اپنے طاقت سے بيگانہ ہوجاتا ہے۔ اور مظلوم کبهی بهی آزادی کے دعوے دار نہيں رہے۔ جس کی واضح مثال نيشنل پارٹی کی ہے جو اپنے آپ کو ہم پلہ پاکستانی قرار ديتا ہے۔

2. سیاسی نظریہ:

نظريہ کسی خاص مقصد کے حصول کا ايک سانچہ/پيمانہ/زاويہ ہے جس کو قوميں اپنے مزاج و خواہشات کی بنا پر تصور کرتے ہيں تاکہ مجموعی حوالے سے مقاصد کا حصول ممکن بنايا جائے۔ لہذا بلوچ قوم کيلئے بلوچيت ايک واحد فطری نظريہ ہے جو کہ ہزاروں سالوں سے بلوچوں کی نظرياتی ترجمانی کرتی آئی ہے اور آج تک کر رہی ہے۔ اب ضرورت اس امر کہ ہے کہ کس طرح اس نظريے کو نئے تقاضوں کے مطابق ڈهالا جائے تاکہ بلوچيت بلوچ قوم کی مزيد ہزاروں سالوں تک يکجاہی اور ترجمانی کا سبب بنے؟ اس نظريے کو جانتے ہوئے تمام سياسی تنظيموں کيلئے بلوچيت ايک جاہلانہ يا بے جان سياسی نظريہ ہے کيونکہ شايد ان کيلئے يہ ايک فرسوده نظريہ ہے۔ حالانکہ يہ جانتے ہوئے ک جمہوريت، سوشلزم اور نيشنلزم خود پرانے نظريات ہيں صرف فرق اتنا ہے کہ ان کو مزيد نئے تقاضوں کے مطابق ڈهالا گيا ہے۔ اور يہ جانتے ہوئے بلوچوں کی قومی/معاشرتی عہده اور جرگے ميں فيصلہ سب کی رائے کو مانتے ہو بنايا/ کيا جاتے تهے/ہيں۔ يہ جانتے ہوئے کہ پہلے بلوچ سے ليکر آج تک بلوچ اپنے ملکيت کا دفاع کرتے ہوئے۔ يہ جانتے ہوئے کہ بلوچوں ميں نيچرل ريسورسز برابر تقسيم ہوتے تهے جن کو راجی يا قومی زمينيں يا مڈی کہتے ہيں۔ حالانکہ ان سب اصولوں کو انگريز نے بگاڑ ديا۔ اب ان تمام رسموں يا تصورات کو جمہوريت، سوشلزم اور نيشنلزم کے واقف ہونے سے پہلے بلوچيت کہتے تهے اور آج تک کہتے ہيں۔ پر اب قابضوں کی تعليمات کی وجہ سے سب کے رائے کو ليکر چلنا جمہوريت، سب کے برابر حقوق کو سوشلزم اور اپنے تمام ملکيت کی دفاع کو نيشنلزم مگر بلوچيت نہيں کہتے۔ مگر اب تمام مزاحمتی (سياسی و مسلح) تنظيموں ميں بلوچيت اب چادر و چار ديواری کی پامالی قابض کے ڈسکورس کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ حالانکہ يہ جانتے ہوئے کہ بلوچيت بلوچوں کيلئے ايک مکمل عمل و زندگی ہے۔ مگر اس کے باوجود طاقتوروں کے ڈسکورس کو اس طرح اوڑه ليا کہ خود سے نظرياتی حوالے سے دست و گريباں ہيں۔ جيسا کہ سب نيشنلسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف سياسی ڈهانچوں ميں ڈهلے: ڈيموکريٹک نيشنلزم جسکی حدود و اختيارات کی فری بلوچستان موومنٹ کی آئين اور بلوچستان لبريشن چارٹر، نيشنل سوشلزم کی بلوچ نيشنل موومنٹ کی آئين اور بلوچ لبريشن فرنٹ کا قومی منشور اور ڈيموکريٹک نيشنل سوشلزم کو بی ايس او آزاد کی آئين ميں واضح طور پر بلوچ قوم کا سياسی و نظرياتی جہد آزادی کا حصہ بنا ڈالا۔ لہذا ان تينوں کے مبهم نظريات کی بدولت بلوچ قوم آزادی کی بات تو کرتی ہے پر اس ميں نظرياتی کمی ہے۔ جسکی خلا صرف اپنی نظريہ بلوچيت ہی پر کرسکتی ہے جو کہ ہماری مکمل نظرياتی آبياری کرے گا۔

3۔ سیاسی بیانیہ:

سياسی بيانيہ سياست ميں ايک آلہ و ہتهيار کے طور پر استعمال ہوتا ہے جو کہ کسی نظريات کا اظہار کرتی ہے۔ لہذا بلوچ قوم کی يہ بيانيہ شروع سے ليکر آج تک پاپولرنيريٹو کی نظر ہو چکی ہے۔ جيسا کہ اب تمام آزادی پسند تنظيميں نيشنلزم اور آزادی کا دعوا دار ہونے کے ساته ساته محکموم اور مظلوم بهی ہيں نہ کہ غلام۔حالانکہ يہ جنگ بلوچ قوم نے خود شروع کی ہے اپنے آزادی کے حصول کی خاطر۔ يہ جانتے ہوئے آزادی کے معنی اسکے متضاد يعنی غلامی ميں پنہاں ہے، محکوم کا تضاد حاکميت ميں اور مظلوم کا متضاد ظلم ميں پنہاں ہے۔ کيونکہ جب لفظ غلامی کا استعمال ہوگا تو اس کا مطلب يہ ليا جاتا ہے کہ يہ لفظ جس کيلئے استعمال کيا جارہا ہے وه اپنی ملکيت(جو ميں نے پہلے بيان کيا ہے) سے بے اختيار کيا گيا ہے اور آزادی کا مطلب حصول ملکيت چاہے وه جيسے بهی حاصل کرے۔ لہذا آزادی کے دعوے دار محکوم و مظلوم نہيں ہوتے۔ اسی طرح محکوم کے معنی ہيں کسی حاکميت کے تابع جيسا کہ اسکی ملکيت کو کوئی خطره نہيں بس وه اس رياست کے اندر رہتے ہوئے اپنے جائز حقوق چاہتا ہے۔ لہذا محکوم، غلام اور مظلوم نہيں ہوتا۔ اسطرح مظلوم کے معنی ہيں رياست کے اندر رہتے ہوئے کوئی اس پر ناحق ظلم کر رہا ہے وه اس پر نہ ہونے کی بات کرتا ہے لہذا مظلوم اور محکوم، غلام نہيں ہوتا مگر اس صورت ميں ہو سکتے ہيں جب وه بهی اپنی مکمل آزادی کی بات کريں۔ لہذا بلوچ قوم اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہا ہے تو وه غلام ہے کيونکہ اسے اپنی ملکيت پر کوئی اختيار نہيں اور وه اپنے قومی طاقت کو استعمال کرتے ہو آزادی کيلئے، غلامی کے خلاف جنگ کررہا ہے۔ اس کا مطلب ہوا اسے اپنی رياست چاہيئے نہ کہ کسی دوسرے رياست کی تابعداری۔ اسی کنفيوژن کی وجہ سے کبهی پاکستانی عدالتوں کے بارے بيانات دينا کہ عمران خان کيلئے تو رات باره بجے کهلتی ہيں پر بلوچوں کيلئے بے جان ثابت ہوتی ہيں، کبهی ايلون مسک سے گزارش کرنا، کبهی بلوچستان کو وار زون قرار دلوانا، کبهی “چار بے عقليں بچک” اور تعلی و تعفن کا استعمال ہماری آزادی پسند سياسی بيانيہ کی عکاسی کرتی ہے۔

4۔ سیاسی رویہ:

رويہ ايک شعوری عمل ہے جو آپکے کسی نظريے کے عمل کا اظہار ہے۔ جيسا “حر مہ بو س ُرمباں مچار، ہشتر کہ بلوچی ميں اس کيلئے ايک ضرب المثل ہے کہ بہ بو دور بچار”۔ آپکے اظہار و عمل آپکے رويہ کو بناتے ہيں کہ آپ کس طرح کے سفر کے مسافر ہو۔ يہ سفر اور مسافر کا ہونا آپکے رويے کی ترجمانی کرتی ہے۔ جيسا کہ وليم جيمز کہتے ہيں کہ

“The will determine your destination and your destination determine your destination.”

پر ہمارے رويے بلکل تبليغيوں کی عکاسی کرتی ہيں جو تبليغ پہ جانا چاہے تو ماشاءالله اور جو نہ جانا چاہے تو اس کيلئے انشاءالله اور جو بلکل ان دونوں کا متضاد ہو تو الله آپکو ہدايت دے۔ ہمارے سياسی رويے بهی کچه اسی طرح ہيں کہ اگر آپ ہماری تنظيم کا ممبر بن گئے تو سنگت اور اگر تمهاری کا ممبر تو کنفيوز يا پهر مختلف ٹيگز اور اگر ہماری و تمهاری دونوں ميں نہ رہا تو تحريک مخالف اور پهر سوشل بائيکاٹ سے ليکر مارنے تک جاتے ہيں۔ حالانکہ يہ جانتے ہوئے کہ ايک نظريہ و عمل کے مسافر سے سوشل بائيکاٹ کرنا اور اختلاف پر مارنا بلوچوں کے مزاج کے بر خلاف ہے۔ دوسرا نظريات ہم فکرہونے کے ساته ذاتی مخالفت کی وجہ سے کبهی يہ کہا جاتا ہے کہ فلاں تنظيم تنظيمی معيار پر نہيں اترتا، کبهی وه قومی مڈی کا گناہگار، کبهی تو کئی تنظيموں کے وجود کو نہ ماننا اور ايک دوسرے کی فکر و عمل کو دلالی سے جوڑنے کے ساته ساته ان کے سياسی يا مسلح عمل کے بيان کو بهی اپنی نيوز چينل يا سائٹس پر پبلش کرنے سے کوسوں دور نظر آتے ہيں۔ يہ ہماری سياسی رويے ہيں جو ہماری فکری دانست کا اظہار ہيں۔

5۔ سياسی عدم برداشت:

سياسی برداشت کے معنی ہيں ايک ہی نظريے کے پيروکاروں ميں اختلافات فطری و سياسی عمل کا حصہ ہے۔ اور يہ ہماری سياسی عمل کی خوبصورتی ہے کہ کوئی اختلاف کرے تاکہ ہميں َشر اور ِشر کا اندازا ہو۔ سياسی نظريات مختلف ہو سکتے ہيں مگر سياسی اختلافات کا مطلب ہے ايک ہی نظريے کے پيروکاروں

ميں کسی حکمت عملی يا پاليسی کو مختلف زاويہ نگاه سے ديکهنا تاکہ غلطيوں کا امکان کم رہے۔ لہذا اختلافات کا مطلب ہرگز عدم برداشت نہيں، اختلافات کا مطلب ہے کہ اپنے حکمت عملی کو پهر سے سوچ بچار کے پيمانوں سے گزارنا۔ اور ان اختلافات کو کهلے دل سے قبول کرنا سياسی حکمت عملی ميں نيک شگون تصور کيا جاتا ہے۔ لہذا اپنے اختلافات کو نيک شگون سمجهتے ہوئے نئے منزل کی تلاش اور اپنے ٹارگٹ کو مزيد واضح کرنا ہے۔ پر پاکستانی ذہنيت بهی بلوچ سياسی/مسلح ورکرز اور ليڈرشپ ميں اس طرح رواج بن گيا کہ کسی بهی چهوٹے اختلافات کا مطلب نظريات سے منحرف ہونا سمجها جاتا ہے۔ جيسا کہ گزشتہ سالوں ميں آپ بلوچ اسٹوڈنٹس ايکشن کميٹی کی مثال لے سکتے ہيں جو کہ ايک چهوٹے سے سياسی اختلاف سے شروع ہوا۔ اور دونوں گروپس صرف ايک لفظ “ازسر نو” کی وجہ سے جدا ہوگئے۔ اب دونوں ايک ہی پٹری ميں ديکهائی ديتے ہيں جيسا ايکشن کميٹی ويسا اسٹوڈنٹس فرنٹ۔ اگر قومی مقاصد کی خاطر بهی سوچتے تو ميرے خيال ميں دوستوں کا جدا ہونا ناممکن تها۔ پر دونوں کی غلطی ہونے کے باوجود ضد اور انا پہ ٹهرے رہے۔ اور اب دونوں تنظيميں اسٹوڈنٹس کی تربيت سے کوسوں دور صرف شخصيت پرستی اور تنظيمی تشہير ميں مبتلا ہيں۔ اسی طرح بی اين ايم اور ايف بی ايم بهی ايک ہی ريل گاڑی ميں بيٹهے قومی آزادی کيلئے موبلائزيشن کی بجائے شخصيت اور تنظيمی تشہير کے مرض ميں مبتلا ہيں۔ حالانکہ دوہزار سے ليکر آج تک سياسی حکمت عملياں بنانے کی بجائے ايک دوسرے کے دست و گريباں نظر آتے ہيں۔

جاری ہے