یکشنبه, اکتوبر 6, 2024
Homeآرٹیکلزکیا پاکستان ٹوٹ سکتا ہے؟ آرچن بلوچ

کیا پاکستان ٹوٹ سکتا ہے؟ آرچن بلوچ

ھمگام آرٹیکل

آرچن بلوچ

آج پاکستان پھرمعاشی بدحالی کے چکر میں ایسا جھکڑا ہوا ہے جس کے بارے عالمی طاقتوں کو بہت پریشان ہونا چاہیے کیوں اس کے پاس ایٹمی سلح اور جہادی قوتوں کی ایک بڑی فوج ہے لیکن پچھلے ادوار کے برعکس، اس دفع کوئی ملک، خاص کر امریکہ، کسی قسم کا تحفظ اور تشویش کا اظہار نہیں کر رہا ہے، اسکی سبب شاید یہ ہوگی پاکستان پرامن تحلیل Orderly Liquidation  کی طرف جا رہی ہے۔ مگر موجودہ دور میں پاکستان کی کیا حالت  ہے؟ اس حوالے ہم نے کوشش کی ہے کہ سائبر دنیا میں دستیاب ماہرین کی رائے کو ھمگام نیوز کے قارئین تک پہنچائیں۔

ہندوستان ٹائم میں شیشر گپتا لکھتے ہیں کہ پاکستان کو اگلے چھ مہینوں میں تقریباً 10 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ انکے مطابق اگر آئی ایم ایف پروگرام کے ساتھ  وہ صرف اس رقم کو اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوں گے جس میں سعودی تقریباً 2 بلین ڈالر دے گا، متحدہ عرب امارات مزید 1 بلین ڈالر دے گا، چینی چند ارب دے گا اور قطر تقریباً 2 بلین ڈالر میں کچھ اثاثے خریدے گا۔ لیکن یہ صرف جون تک چلے گا۔ اگلے مالی سال میں پاکستان کو مزید 30 ارب ڈالر یا اس سے زیادہ کی ضرورت ہوگی۔ کیا یہی دوست ہمیشہ پاکستان کی کچکول میں پیسہ ڈالتے رہیں گے؟

جبکہ پاکستان ٹوڈے میں ڈاکٹر محمد زیشان یونش پاکستان ڈیفالٹ ہونے کے بارے لکھتے ہیں کہ  پہلا نتیجہ پاکستان کا ڈیفالٹ ہونے کے بعد دوبارہ قرض لینے میں دشواری ہوگی اور اگر موقع ملتا ہے تو اسے بھاری شرح سود ادا کرنا پڑتی ہے۔ اس سے ملک کی برآمدات اور درآمدات پر شدید اثر پڑتا ہے۔ مزید برآں، سرمایہ دار حکومت پرعدم اعتماد کی وجہ سے مالیاتی اداروں سے رقم نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

دوم، غیر ملکی سرمایہ کار اپنے مقامی اثاثے بیچ کر نادہندہ ملک سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے غیر ملکی منڈیوں میں شرح مبادلہ گر جاتا ہے۔ کیونکہ جب ملکی کرنسی کی قدر گرتی ہے تو درآمدات مہنگی ہو جاتی ہیں۔

سوم، قرضوں کی ادائیگیوں کے انتشار سے نمٹنے کی کوشش میں، پاکستان کی معیشت کو ٹیکسوں میں بڑے پیمانے پر اضافے اور اخراجات میں کٹوتیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس کے بعد انتہائی کفایت شعاری کے اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ جس سے سڑکوں پر ہنگامے شروع  ہوسکتے ہیں جس کی وجہ سے معیار زندگی خراب ہو جاتا ہے اور بینکنگ کا شدید بحران ہوتا ہے۔ الجھن اور ابہام کی وجہ سے، عام لوگ اپنی تمام رقم بینکنگ سسٹم سے نکالنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ رقم نکالنے سے بچنے کے لیے، حکومت اپنے بڑے بینکوں کو بند کر سکتی ہے جو بینکنگ کے بحران کو مزید تقویت دے سکتے ہیں۔

پانچویں، ان تمام سرکار کے تمام اداروں  سے پیدا ہونے والی ہلچل اسٹاک ایکسچینج میں محسوس کی جا سکتی ہے۔ جب تک صورت حال مستحکم نہیں ہوتی، کوئی بھی سرمایہ کار غیر یقینی کے دور میں حصص خریدنے کے لیے تیار نہیں ہو سکتا۔ مزید برآں، پاکستان کی ساکھ کو نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور اس کی معاشی درجہ بندی میں کمی آسکتی ہے جس سے قرض لینا اور تجارتی سودے کرنا اور بھی مشکل ہو سکتا ہے۔ کوئی پوچھ سکتا ہے پاکستان سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور مقامی کرنسی کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے پہلے سے طے شدہ مدت میں پاکستانی روپے کیوں نہیں چھاپ سکتا؟ زیادہ رقم چھاپنے سے رقم کی سپلائی میں اضافہ ہائپر انفلیشن کا باعث بن سکتا ہے جو ڈیفالٹ سے بھی بدتر ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، حکومتی اخراجات کے لیے زیادہ رقم چھاپنے سے مرکزی بینک کی آزادی کے مختلف اشاریوں پر اسٹیٹ بینک کی درجہ بندی خراب ہو سکتی ہے‘‘ـ۔

اوپر کی ممکنہ صورتحال کا یہ نتیجہ نکلنا ضروری امر ہوگا کہ پنجاب سندھ اور پشتونستان جوکہ آبادی اور خوشحالی  کے لحاظ سے بلوچستان سے بہت آگے ہیں اور انکی معاشی زندگیاں زیادہ تر شھری سہولیات سے وابستہ ہے، ڈیفالٹ کی صورت میں پاکستان نا بجلی پیدا کرسکتا ہے اور نا ہی ٹرانسپورٹ اورخوراک کا بندوبست کرسکتا ہے اس سے روزگار کے مواقع ختم ہونگے۔  روس کی طرح ایک روٹی کیلئے قطاریں لگ جائینگے گی سول سروس میں سرکاری ملازموں کو تنخواہ کیا بلکن انکے فوجی جوان اپنے بندوقوں کو بقول بی بی سی بازاروں بیج کر گھر جائینگے۔

کیا پاکستان سویت یونین کی طرح ٹوٹ سکتا ہے؟ اس  میں کوئی شک نہیں کیوںکہ پاکستان سری لنکا نہیں بلکن سویت یونین کی طرح ایک کثیرالقومی ملک ہے اس میں بھی بہت بڑےا قوام رہتے ہیں۔  سوویت نظام 1990 کے آخر تک معاشی جمود کا شکار ہوا کیوں کہ اس سویت کی  زیادہ تر وسائل جوہری اور فوجی ہتھیاروں کو برقرار رکھنے میں خرچ ہوئے۔ بدعنوانی، حکومت میں شفافیت کا اجازت نہ دینا اور ایک وسیع زمین میں سارا اختیارات ماسکو کی مرکزیت کی وجہ سے جمود کا شکار ہوگیا آج پاکستان عین سویت یونین کا وہ سناریو پیش کر رہا ہے، جہاں ریاست جمود کا شکار ہوکرcollapse  انہدام  ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ اس ملک کے تمام وسائل اسکی فوج پر خرچ ہو رہے ہیں، سارے اختیارات پنجاب کے پاس ہیں، شفافیت ایسا کہ سی پیک ریکو ڈیک سوئی گیس جیسے اداروں  کے  بارے بلوچستان کے وزیراعلی تک کو اجازت نہیں ہیں ان پروجکٹس کے بارے انہیں تفصیلات معلوم ہوں۔ یہ یاد رہے سویت یونین کو کسی مغربی ملک نے بیل آوٹ نہیں دیا اس حقیقت کے باوجود کہ اس کے پاس ہزاروں نیوکلئر اسلحے موجود تھے لیکن اس کے برعکس آئی ایم ایف نے پاکستان کو 22  دفع بیل آوٹ پیکیج دیا ہے۔ حالیہ وقتوں میں تصور کیجیے  کہ چین سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اسے بیل اوٹ کے  قرضے اور دوسرے تیل کے سہولتیں نا دی ہوتیں تو کیا پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرتا؟

سویت یونین کے انہدام کے حوالے یہاں میں بی بی سی کی کالم نگار الن لیٹل کے آرٹیکل   Ukraine war: Putin has redrawn the world – but not the way he wanted کے اس پیراگراپ کو نقل کرتا ہوں جس میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’میں بیلاروس میں شکار کیلئے اس lounge میں گیا جہاں 1991 کے آخر میں روسی فیڈریشن کے صدر بورس یلسن اپنے یوکرین اور بیلاروس کے ہم منصبوں کے ساتھ ملاقات کر رہا تھا ۔ یہاں، انہوں نے ایک دوسرے کےساتھ اپنے Soviet Republicans   یعنی ’’صوبوں‘‘ کو ’’آزاد قومی ریاستوں‘‘ کے طور پر تسلیم کرنے پر اتفاق کیا۔ اس کے بعد انہوں نے سوویت رہنما میخائل گورباچوف کو فون کیا اور انہیں بتایا کہ وہ ملک یعنی سوویت یونین جس کے وہ سربراہ مملکت تھے اب وجود نہیں رکھتا۔ یہ ایک ایسا مرحلہ تھا جس میں خطرات تھے اور بھترمواقع بھی۔ بیلاروس اور یوکرین کے لیے یہ موقع تھا کہ وہ ماسکو کی حکمرانی اور روسی  سامراج کے تسلط  یعنی زارسٹ اور سوویت  دونوں شکلوں میں سے آزاد ہو جائیں ۔ یلسن نے ایک سامراجی طاقت کے طور پر اس کے تاریخی کردار سے روس کو بھی آزاد کرنے کے موقع کی نمائندگی کی ۔

اب آتے ہیں پاکستان کی ممکنہ تحلیل کے بارے، بلوچ پاکستان کو ہمیشہ ایک غیرفطری ملک قرار دیتے ہیں، اور اس میں دورائے بھی نہیں، اسکو بنانے میں کسی بھی ایک قوم بشمول پنجابیوں کی رضا شامل نہیں تھا سوائے کچھ بنگالی، گجراتی ، یوپی، سی پی اور بریٹش راج کے ان پنجابی فوجی افسران کے جو انگریز کے وفادار تھے، ان تمام نسلوں کا موجودہ پاکستانی جغرافیہ سے کوئی فطری تعلق بھی نہیں تھا۔ اس طرح پاکستان بنانے کے اسکیم میں کوئی بلوچ سیاسی رہنما بھی شامل نہیں تھا۔ اسی غیرفطری  نقص نےپاکستان کو اسکی فطری جمود یعنی Dead End تک پہچا دیا ہے، اب اسکی وجود کو مزید برقرار رکھنا پنجابی فوجی طاقت کے بس سے باہر نکل چکا ہے جہاں  بلوچ مزاحمت کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اب انکے پاس نہ وہ مالی وسائل ہیں اور نہ ہی وہ مکر وفریب  اب قابل عمل ہیں جن سے وہ  امریکہ اور خلیجی ممالک سے ڈالر بٹورتا تھا۔ اب اس Dead End سے آگے پنجابی فوجنتا کو اپنی ماضی اور حال کی اجارہ داریت کی کردار کو از سر نو غور کرنا ہوگا۔ کیوںکہ اجارہ داریت کی یہ منفی کردار خود پنجاب کو تباہی کے دھانے پر پہنچا چکا ہے۔ بندوق کی طاقت ہمیشہ ساتھ دے نہیں سکتا۔ اس خطے کی قسمت کو بدلنے کیلئے امن چاہیے اور پاکستان کی پرامن تحلیل Orderly Liquidation  نہ صرف اس خطے کی تمام محنتی اقوام کے حق میں ہے بلکن خود پنجاب کی وسیع تر مفاد میں بھی ہے اور یہ فیصلہ  پاکستانی فوج کی کورکمانڈرز کو ہی کرنا ہے کیوںکہ یہی وہ ادارہ ہے جو گزشتہ 75 سالوں سے اس ملک کی اندرونی اور بیرونی فیصلوں کو لتے آ رہا ہے!

یہ بھی پڑھیں

فیچرز