ھمگام آرٹیکل
دیدگ بلوچ
دنیا کے حالات و جغرافیہ کو دیکھ کر ہمیں یہی اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان دنیا میں اکیلا رہ چکا ہے ، چائینا اور امریکہ ڈوبتے کو فقط تنکے کا سہارا دے رہے ہیں ۔ اگر پاکستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کے سیاسی ڈھانچے بالکل کمزور ہو چکے ہیں۔
جہاں پر پاکستان کو ایک طرف سیاسی مشکلات کا سامنا ہے تو دوسری طرف پاکستانی فوج کے جنرلوں اور کرنیلوں کی آپس میں اختلافات اور تیسری طرف پاکستان کے معیشت اور پاکستان کی قرضوں سے ڈوبتی ہوئی کشتی جسے نہ سہارہ مل رہا ہے اور نہ ہی کنارہ ۔
ایک طرف پاکستان کے سیاسی اختلافات جنکی دھڑیں دن بدن کمزور ہوتی جا رہی ہیں، پنجاب پاکستان کا وہ صوبہ ہے جہاں کے لوگ پاکستانی فوج کے غلطیوں کو آنکھوں پر لیتے تھے اور انہیں ماننے کیلئے بلکل تیار نہیں تھے۔ لیکن اب پنجابی بھی اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے مان رہے ہیں کہ پاکستان کا اصل دشمن آئی ایس آئی اور اس کی افواج ہیں اور اکثر پاکستانی ملک سے باہر جا کر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف یوٹیوب چینل اور دوسرے نیوز چینل بنا رہے ہیں اور اس طرح پاکستان میں اختلافات خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو کاٹنے کو تیار ہیں اور اس صورتحال میں پاکستان کئی مذہبی جماعت اور گروپوں میں تقسیم ہے جو ایک دوسرے کے خلاف فتوے صادر کرتےرہتے ہیں عنقریب یہی لگتا ہے کہ پاکستان میں آنے والے وقتوں میں خانہ جنگی مذہبی گروپوں کے درمیان چھڑجائے گی۔
ایک طرف پاکستانی معیشت کی بگڑتی ہوئی حالت جہاں پر آٹا دستیاب نہیں ،جہاں پر بجلی نہیں جہاں پر پانی نہیں، روزگار نہیں اور کافی ایسی جگہیں ہیں جہاں پر پروفیسر اور ڈاکٹروں ٹیچر کی تنخواہ نہیں مل رہے ہیں دوسری طرف پاکستانی معیشت اقرضوں میں اتنا ڈوب چکا ہے جہاں کوئی باہر کی ملک سرمایہ کاری کو تیار نہیں اور دوسری طرف لوگوں کی جان اور مال کی کوئی گارنٹی نہیں اور دوسری طرف یونیورسٹی، کالج ،اسکول، ہیلتھ سیکٹر روڈ وغیرہ بنانے کی بجٹ نہیں۔
ایک طرف شہباز شریف در بہ در بھیک مانگتے دکھائی دیتے ہیں، جہاں پہ وہ سعودی عرب کو اپنا بڑا بھائی اور دوسرے ممالک کو چھوٹا بھائی وغیرہ کے القابات سے نواز رہے ہیں کہ کسی طرح ان کے جیب سے کچھ نا کچھ نکال کر ،اپنے اور مزید پاکستانی جرنیلوں کا پیٹ بڑھا کرسکے۔
ایک طرف پاکستان کے اندرونی مسائل جہاں پر پاکستان بلوچستان پر قابض ہیں وہاں پر بلوچ آزادی پسند اپنی سرزمین کے دفاع میں ہر دن پاکستانی پروجیکٹوں اور پاکستان کی تعمیراتی جگہوں کو ٹارگٹ کر رہے ہیں۔
تو دوسری طرف سی پیک پروجیکٹ ، جس پر پاکستان چائینا کو سبز باغ دکھا رہا ہے جو بالکل ناکام دکھائی دے رہا ہے ۔
پاکستان کے پاس مقبوضہ بلوچستان یونیورسٹی کے اساتذائوں و گورنمنٹ ہاسپٹل کے ڈاکٹروں کو تنخواہ دینے کی بھی گنجائش نہیں رہی۔
آنے والے وقتوں میں پاکستان میں خانہ جنگی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں جہاں پاکستان کو تحریک طالبان، بلوچ آزادی پسند اور سندھی آزادی پسندوں کی طرف سے سخت کاروائیوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور پاکستان کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں کہ اپنی آرمی کے بجٹ کو پورا کر سکے جو خود اپنے ہی پولیس اداروں پہ خودکش حملوں میں ٹارگٹ کر رہا ہے جس کی ایک واضح مثال پشاور پولیس پر حملہ ہے۔ اس طرح کے واقعات کر کے پاکستان دنیا سے دہشتگردی کے نام پر فنڈز وصول کرتے ہیں، پشاور واقع اس کی واضح مثال ہے۔
پاکستان کی ایٹمی اساسوں پر بھی دنیا کی شک و شعبہات ہیں ۔
غیر ممالک ، ایمنسٹی انٹرنیشنل ، اور انٹرنیشنل ہیومین رائیٹس کمیشن کی طرف سے بھی پاکستان میں ہونے والے مظالم کی نوٹس لی گئی ہے جو آنے والوں وقتوں میں پاکستان کے لیے بھیانک ثابت ہوسکتی ہے ۔
پاکستان کی دن بدن بگڑتی یہ صورتحال غیر مسلم خاص کر ہندو و عیسائیوں کا قتل عام و ذبردستی مسلمان بنانے کا عمل بھی بہ دستور جاری ہے اس کے ساتھ ساتھ ان کی عبادت گاہوں کو توڑنا بھی عالمی فورموں میں موزوں بحث ہے ۔
پاکستان کی اپنی پالیسی تھی کہ اپنے عوام کو دوسرے مذہب و ممالک کے خلاف بھڑکایا جائے اور ان کی برین واش کر کے خاص کر افغانستان اور ہندوستان کے خلاف استعمال کیا جائے ، اب یہی پالیسی پاکستان کے لیئے وبال جان بن گئی
2018 میں روس میں ایک نقشہ جاری ہوا تھا جس نقشے میں افغانستان کے بارے میں یہی بتایا گیا تھا کہ دو ہزار بیس کے قریب افغانستان میں طالبان اپنی حکومت کو قائم کریں گے
پاکستان کے بارے میں یہ لکھا گیا تھا کہ 2022 کے بعد پاکستان کے حالات مزید خانہ جنگی کے طرف جائیں گے اور معیشت کی اتنی بگڑتی حالت ہوگی جہاں لوگ ایک دوسرے کو نوچ کر کھا جائیں گے ۔
اگرپاکستان کی کرنسی کا جائزہ لیا جائے تو اس کی قیمت عالمی منڈی میں دن بدن گرتی جارہی ہے جس کی وجہ سے ملک میں مہنگائی عروج پر ہے ، جو بے روزگاری اور کئی مسائل کی سبب بن رہی ہے جس کی وجہ سے چوری اور ڈکیتی میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے
بلوچ سیاسی حلقوں کی طرف سے کہا جارہا ہےکہ 2023 کے بعد بلوچ علاقوں میں بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیمیں سرگرمیوں میں مزید تیزی لارہے ہیں اور ساتھ ہی سندھی آزادی پسند جو پاکستان سے اپنی سرزمین کی آزادی چاہتے ہیں ان کی مسلح تنظیم کی جانب سے مسلح کاروائیوں میں تیزی دیکھی گئی ہے ۔ تحریک طالبان پاکستان بھی اب پاکستان کے لیئے دردِ سر بن گیا ہے جو آئے روز پاکستانی سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتی ہے۔ دنیا پاکستان کے اس بگڑتی ہوئی صورتحال کو عالمی امن کیلئے خطرہ سمجھتی ہے ایسی صورت میں مظلوم اقوام خاص کر بلوچ ، پشتون اور سندھیوں کو یک مشت ہوکر پنجابی تسلط کو ختم کرنے کیلئے مشترکہ جدوجہد کرنی چاہیئے۔