کراچی ( ہمگام نیوز ) کراچی میں بلوچ لاپتہ افراد کی بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4966 ہوگئے ہیں، اظہار یکجہتی کرنے والوں میں این ڈی پی سندھ کے صدر ممتاز بروہی، جئے سندھ محاز کے جنرل سیکرٹری عابد حسین حیدری اور دیگر ہم خیال ساتھیوں نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی
وائس فار بلوچ مسسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے، فوجی آپریشن نہیں ہے، بلوچ فرزندوں کی جبری گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشیں بند ہو چکی ہیں جبکہ اس کے پس پردہ مقبوضہ بلوچستان کو داخلی عالمی میڈیا کے لئے نوگوایریا بنا دیا گیا ہے آپریشن میں شدت کے ساتھ ہزاروں بلوچ فرزند جبری اغوا کیے جا چکے ہیں خواتین کے جبری اغوا کے ساتھ اس میں وسیعت لاکر پورے قبضوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے جہاں لوٹ مار کےبعد فوج کا تمام گھروں کو جلانا بھی معمول بن چکا ہے یا ڈاںٔنامیٹ سے نشانہ بنا کر سویل آبادیوں کو کبھی مزاحمت کاروں کا کیمپ کو کبھی مقابلہ ظاہر کرکے خود پاکستان کا ضامن قرار دیتی ہے جبکہ اجتماعی لاشوں کے ساتھ بلوچ فرزندوں ٹارگٹ کلنگ اور مسخ لاشوں کے سلسلے میں بھی تیزی آںٔی ہے ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ حکومت پاکستان سرزمین بلوچستان پہ موجود بلوچ ساتھیوں کے خلاف اپنی پوری جاریت دکھانے پر بھی آگ بگولہ ہے اور کوشش میں ہے کہ کسی نہ کسی طرح بلوچوں کو نشانہ بنایا جاسکے بلوچ قومی پرامن جدجہد کو کمزور اور غیر مستحکم کیا جاسکے اور دوسری جانب سیاسی تنظیموں کی ریاست انسانیت کش پالیسیوں کے تحت سخت نشانے پر ہے مگر بد بختی ہے کہ تمام ریاستی بربریت کے باوجود تنظیموں کے درمیان آپسی تعاون اشتراکیت نہ ہونے کے برابر ہے جنکی وجوہات کو جاننا اور ایک مشرکہ پلیٹ فارم انتہاںٔی ناگزیر ہو چکا ہے دیگر جماعتوں کی خاموشی بھی تاریخ کا حصہ بن گئی ہے یہ ان لوگوں پر بھاری زمہ داریاں عاہد ہوتی ہیں ورنہ یہ دوریاں کہیں خدا نخواستہ طول نہ پکڑ لیں کہ واپسی ناممکن ہو ویر پرامن جدجہد میں پاکستان کا قبضہ حاوی ہو جائے ۔