تحریر… راشد بلوچ
نعیم صابر نوشکی کے جمالدینی تھے،مجھے نہیں معلوم کہ خضدار میں ان کا خاندان کب آیا تھا لیکن اب خضداری تھے پورے خضداری جب ہم نے دیکھا تو ایک این جی او چلاتے تھے HARD BALOCHISTAN کے نام سے۔۔
یہیں سے میرا ان سے شناسائی ہوئی، بے باک تھے، سچی اور کھری بات کرنے کا مشاق،میں نے انہیں کبھی بھی لگی لپٹی سے بات کرتے نہیں دیکھا۔
عام طور پر این جی اوز زدہ لوگ قومی فکر سے تقریباً غافل ہی ہوتے ہیں البتہ بھڑک بازی ضرور کرتے ہیں مگر اندر سے خالی، نعیم بھی این جی اوزی تھے لیکن بھڑک بازی سے قطعا دور، نمائش سے دور کا واستہ نہ تھا اور ان کے پروگرام بھی عام این جی اوز سے مختلف تھے، پسماندگی اور غربت کے شکار لوگوں کے لئے حقیقی پروگرام پر کام کررہے تھے، جن علاقوں میں نعیم جمالدینی نے کام کیا ہے وہاں کے لوگ آج بھی ان کا نام آنسوؤں کے ساتھ لیتے ہیں۔
نعیم جمالدینی مختلف تھے اپنے کولیگ سے، شہر کے ٹھاٹھ باٹھ والے این جی اوزی بابووں سے، بظاہر این جی والے تھے مگر اندر سے بلوچ، بلوچ کے قومی درد سے آشنا بلوچ اور یہی درد آشنائی ان کے قتل کا سبب بنا۔
مجھے ان کے شہادت کے بعد امید تھا کہ ان کے رفقاء کار ان کے شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر کام کریں گے کم از کم ایک ڈاکومنٹری فلم تو بنائیں گے، لیکن اب تک تو کچھ بھی نظر نہیں آتا ہے شائد آگے انہیں توفیق ہو تو ہو.
مگر ایک بات طے ہے کہ ہم نعیم صابر کے قرضدار ہیں۔
نعیم خضدار کا بھرم تھے، نہیں رہے لیکن وہ ہمیشہ یاد رہیں گے ۔۔۔
فقط نعیم کا ایک نام لیوا.