تحریر : ایم بلوچ
ملا بھرام سے مہشور محمد کریم ولد حاجی شے محمد جو مند کے سیاہ سنگلات پہاڑی علاقے “بانسر” میں پیدا ہوئے جہاں کی آبادی صرف دو خاندانوں پہ مشتمل تھی، ملا کو انکی ماں بچن میں سیاھُک کے نام سے پکارتی ہے یوں ہی جوانی تک انکو یہی نام جچتا ہے،ملا والدین کی پرمان میں اپنے مویشیوں اور باغات کی دیکھ بھال بھی انتہائی خلوصِ نیت سے کرتا ہے۔
علاقے میں جب فوجی بربریتوں کا آغاز ہوتا ہے تو فوج کا کرنل روز ان کے گاؤں میں مشہور زمانہ سرمچاروں کے گھروں پہ چھاپے مارتی، پبلک کو ٹارچر کرتا کہ کہاں ہیں سرمچار لیکن ملا جیسے گمنام سپاہی کے گھروں کے قریب بھی نہیں آتا۔
وقت کے چلتے فوجی کرنل اپنے مخبروں کے سہارے اپنی معلومات تیز کرکے صرف لفظ ملا کو ڈھونڈنے میں کامیابی حاصل کرتا ہے لیکن انکا گھر کہاں ہے انکی فیملی کہاں ہے کچھ پتہ نہیں۔
یوں ہی جب چند بزدلوں میں سرنڈری کا دور آیا تو ملا کے گھر کی نشاندہی بھی ہوگئی انکی فیملی پر بے حد دباؤ ڈالا گیا کہ ملا آکر سرنڈر کردے جبکہ کرنل اپنی تمام تر طاقت کو آزما کر بھی ملا کو طاقت سے زیر نہ کر سکے تو انکو ہر قسم کی مراعات کی پیشکش کی گئی کہ ملا آئے انکو جتنی دولت شُہرت یا جس ملک سٹل ہونا چاہتے ہیں ریاست انکی خواہشات پر اترنے کیلئے تیار ہے لیکن ملا تماتر خواہشات ٹکرا کر اپنی موقف پر ڈٹے رہے اور منظم گوریلہ حکمت عملیوں سے دشمن پر مزید کہر بن کر برس پڑے۔
کسی بھی فیصلے پر ملا کی زبان پہ کبھی ہاں نہیں تھا،ہر تقریر میں انکی بحث تھی،ہر فیصلہ پر اسکا اختلاف لازمی تھا وہ ہمیشہ کسی بھی منصوبہ بندی سے پہلے آگے پیچھے سب کا جائزہ لیکر ہی اپنا فیصلہ رکھتے اور تمامتر تنظیمی کمانڈرون کی علاقوں میں نافید حرکتوں سے ملا بلکل پاک تھے عوامی سطح پر کسی بھی نقطہ چینی میں ملا ہمیشہ بری الذمہ تھے۔
ملا کسی بھی فیصلے پہ کبھی ہاں نہیں کہتا تھا اور کسی بھی حکمت عملی پہ عملاً اتھرنا ہو تو آگے پیچھے چاروں اطراف جائزہ لیکر صرف اور صرف قبضہ گیر کی کمر تھوڑنے کی شک سو فیصد ہو تب وہ عمل پیرہ ہوتے اور کسی بھی جنگجوہ کو بھرتی کرنے سے پہلے انکی زاتی اختیار و پختگی کو دیکھتے اور اسے مسلح جنگ کی صفحوں میں جگہ دیتے کیونکہ وہ ایک سخت اصولوں کے حامی ایک گوریلہ جہدکار تھے۔
ملا سخت گوریلہ اصولوں کے پابند ایک بامرد اور بہادر جنگجوہ تھے جنکی کارراوائیاں ہمیشہ دشمن کے عزائم کو خاک ملانے پہ اٹل تھے اور کئی ادوار میں وہ دشمن کی گھیراؤ میں انکی عزائم کو خاک میں ملاکر باحفاظت اپنے ساتھیوں کے ساتھ نکلنے میں کامیاب رہے ہیں۔
ملا چونکہ مزن بند میں ہی جنمے تھے اس پہاڑی سلسلے میں ہر ایک وادی اور ندی نالے پہ واقفیت رکھتے تھے ملا کو پہاڑوں کا شہزادہ بھی کہا جاتا تھا کہ جتنی طویل مدت تک آپ انہیں پہاڑوں میں زمےداری سونپیں انہیں کہیں بھی آبادیوں میں جانے کا غم ہی نہیں ہوتا ایسا سمجھو کہ وطن کے بلند و باغ پہاڑ ہی انکے سب کچھ تھے اور پہاڑ ہی انکے اصل وارث۔
ملا اتنے مخلص و ایماندار جھدکار تھے جو کسی بھی فیصلے پر پہنچنے کیلئے جلدبازی نہیں کرتے انکے فیصلوں میں خاندانی یا غیر خاندانی امیر یا غریب ہر فیصلے میں اپنی مخلصی اور نیک نیتی دکھاتے لیکن کبھی بھی جانبدارانہ فیصلہ نہیں دیتے کہ یہ انکے زاتی مفاد میں ہو یا گروہی مفاد میں ہو انکا ہر فیصلہ قومیت پہ منحصر تھا۔
یہی ملا کی مخلصی، محنت یا قوم و سرزمین سے بے حد محبت کا نتیجہ ہے کہ خاموشی میں ملا کا کردار سر تھوڑ کر بولنے لگا کہ انہیں قومی تحریک میں اتنی اہمیت ملی کہ ہر جنگجوہ ملا کے ساتھ رہ کر قومی جنگ و تحریک کو آگے لیجانے کی ضد میں رہتا اور ان سے ہی قربت کو ترجیح دیتا ہے۔
پندرہ سالہ اس طویل کردار میں ملا کے چہرے پہ کبھی تھکاوٹ یا مایوسی اور نہ ہی انکی جسم سے کبھی آہ نکلتی تھیں بے حد دباؤ کے باوجود ملا کے چہرے پر ہمیشہ پھولوں بھری مسکراہٹ سجائے رہتا اور وہ ہر اختلاف کو بطور سبق لیکر اپنے قریبی ساتھیوں کو بیاں کرتا تھا۔
ملا کے قریب بلوچستان کا کوئی بھی جنگجوہ یا جہدکار اسکا جانشین سمجھو انکا بیٹا ہی تھا ہر ایک ساتھی کو اتنا پیار دیتا کہ وہ ہمیشہ ملا سے بے حد متاثر رہتا اور ملا سے قربت کے چاہت میں مگن رہتا۔
وطن کی آزادی بے شک قربانی و خون مانگتی ہے لیکن ملا جیسے عظیم و مخلص جہدکاروں کا رخصت ہونا کسی بڑے المیے سے کم نہیں، بلوچ قومی تحریک میں ملا کہ جگہ پر کرنا صدیوں تک ممکن نہیں لیکن ہم اس عہد کے ساتھ ملا اور ہزاروں بلوچ شہدا جنہوں نے بلوچستان کی آزادی کی امید کے ساتھ اپنی قیمتی جانیں ندر کیں انہی ارادوں کے ساتھ آگے بڑھیں گے کہ ہم ایک دن اپنی عظیم مقصد میں ضرور کامیاب ہوکر ہی آزاد ہوں گے۔
دنیا میں کوئی بھی شخص قیامت تک زندہ نہیں رہتا بقول کامریڈ چی گویرا کہ قبرستانوں میں بزدل بھی دفن ہیں اپنے آپ مرنے والے بھی دفن ہیں جو وقت موت کا مقرر ہے ہر کسی نے کسی نا کسی بہانے مرنا ہے لیکن اپنی زندگی کو کسی مقصد کی خاطر قربان کردیں تاکہ دنیا میں ہمیشہ کیلئے زندہ رہو اور ملا بھرام و ساتھیوں نے عظیم مقصد وطن کی خاطر اپنی قیمتی جانیں نچاور کرکے کو ہمیشہ تاریخ میں ہمیشہ کیلئے زندہ رکھا۔
رُخصت اف اواروں سنگت