خان قلات کی لندن میں پاکستانی مقتدرہ سے تعلق رکھنے والے بلوچ سرداروں اور نوابوں سے تواتر کے ساتھ ملاقاتوں کے بعدیہ سوال مختلف اطراف سے اٹھایا جارہا ہے کہ حیربیار کا موقف اس بابت واضح ہو۔ اگر حیربیار کی بلوچ قومی جہد سے وابستگی کے آغاز سے لیکر اب تک کی موقف کا بغور جائزہ لیا جائے تو شاید بہت سے لوگوں کو اس کی موقف کو سمجھنے میں آسانی ہوگی ، کیونکہ موجودہ تحریک کی شروعات کرنے کے بعد سے حیربیار نے ہر اس بلوچ کی حمایت و کمک کی جس نے اس جہد میں کردار ادا کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ واحد قمبر سے لیکر ڈاکٹر اللہ نظر و بی ایل ایف کی غیر مشروط حمایت و کمک اور پھر یہاں تک جب پاکستان نے اللہ نظر کو مرگ کے قریب لاکر رہا کردیا تو اسی بلوچ قومی جذبے اور تعلق کی بناء پر حیربیار نے اللہ نظر کو بلوچستان سے نکال کر افغانستان اور پھر وہاں سے باہر اس کا علاج کروایا ، اس کے علاوہ براہمداغ کی بی آر اے کی غیر مشروط حمایت و کمک کسی سے پوشیدہ نہیں ، اور جب اکبر خان کی شہادت کے بعد براہمداغ کا گھیرا تنگ کرنے کی پاکستان نے کوشش کی تو اسی حیربیار اور اس کے فکری دوستوں نے اسے بحفاظت افغانستان تک لے گئے ، قطع نظر اس بات کے کہ براہمداغ کے ہمراہ آنے والے وڈیرہ ذادے کی چند ہفتے بعد واپس پاکستان کے سامنے سلامی اور حیربیار کے دوستوں کی نشاندہی آئی ایس آئی کے سامنے کرنے اور ان کی گرفتاری کے باوجود حیربیار نے غیرمشروط براہمداغ کی حمایت جاری رکھی ، اس کے علاوہ جاوید مینگل اور اس کے گروپ کی ہر طرح کی کمک و مدد کرنا بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ لیکن اس کے بعد جب اللہ نظر نے مکران میں اپنی طاقت کی گھمنڈ میں مبتلا ہوکر بے گناہ و سیاسی مخالفین کی قتل عام شروع کی، چور ، ڈاکو اور لیٹروں کی تمیز کئے بغیر بی ایل ایف میں نفری بڑھانے کی کوشش کی اور پھر منشیات کی کاروبار شروع کی ، تو حیربیار نے اس کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا، اسی طرح جب براہمداغ بگٹی ، قومی سوچ و فکر سے ہٹ کر قبائلیت کی تنگ دائرے میں خود کو محدود کرنے کیلئے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کی اور دوست کی شکل وصورت میں حیربیار اور اس کے دوستوں کیلئے سامنے ہر میدان میں رکاوٹیں ڈالنے کا گھناؤنا کھیل شروع کی تو حیربیار نے اس کی حمایت سے خود دور رکھا، اور اسی طرح جب جاوید مینگل نے قومی تحریک سے زیادہ اپنے پاکستان پرست بھائی کو ترجیح دی تو حیربیار ان سے بھی کنارہ کش ہوگئے۔ تو یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا درج بالا اشخاص اور گروپ کی بد اعمالی کا ذمہد ار حیربیار اور اس کے دوستوں کو ٹھہرایا جاسکتا ہے ؟ کیونکہ حیربیار نے اس کی غیر مشروط اور قومی جہد کی وسعت کی خاطر ان کی ہر طرح حمایت و کمک کی ، اور پھر قومی جہد میں مثبت و بہتر کردار ادا کرنا جہاں تنظیمی نظم و ضبط کی محتاج ہوتی ہے وہی یہ انسان کی انفرادی شعور و ضمیر پہ منحصر ہوتا ہے ۔ اب آتے ہیں خان قلات کی طرف ، خان نے پہلے پہل یہ موقف اختیار کی کہ وہ بلوچ کیس کو عالمی عدالت میں لے جائیں گے اور خان کی اس موقف و اعلان کے بابت نواب خیربخش مری کا بیان بھی ریکارڈ پہ موجود ہے کہ خان کی جانب سے عالمی عدلات میں جانے کا اعلان خوش آئند عمل ہے اب اگر خان اپنی موقف سے پیچھے ہٹ کر بلوچستان کی ان سرداروں و نوابوں سے قربت رکھتا ہے تو خان کی اس منفی عمل سے نہ حیربیار خان قلات کو روک سکتا ہے اور نہ ہی حیربیار کے پاس ایسی کوئی طاقت موجود ہے کہ وہ کسی کو زبردستی تحریک سے جوڑ دیں یا اس کا رشتہ ختم کردیں۔ ہاں یہ خان قلات کی انفرادی ضمیر پہ انحصار کرتا ہے کہ وہ کیسے ایسے لوگوں سے میل ملاپ کرکے بلوچ قومی آزادی کے یک نقاطی موقف کے برعکس چند سطحی نقاط رکھ کر واپس مقبوضہ بلوچستان آنے کی رضا مندی ظاہر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ جرگہ فیصلہ کریں تو یہاں پہ پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کون سا جرگہ؟؟؟ اور کون سے جرگہ ممبران ؟؟؟ کیونکہ جن جرگہ ممبران کی بات خان قلات کررہا ہے ان کی اکثریت اس وقت بلوچستان میں جاری بلوچ نسل کشی ، خواتین و بچوں کی دربدری، آبادیوں پہ بمباری اور دیگر جرائم مین برابر ملوث ہیں۔ اور یہ بھی نہیں ہوسکتا ہے کہ خان قلات ، بلوچستان کی اس وقت کی حکومت میں شامل سرداروں اور نوابوں کی جرائم اور بد اعمالی سے واقف نہیں و آگاہ نہیں ہے۔ اب جس طرح اللہ نظر کی برادر کشی و منشیات فروشی، براہمداغ کی قومی سوچ سے نکل کر قبائلیت کی مضبوطی، جاوید مینگل کی تحریک سے زیادہ اپنے پاکستان پرست بھائی کو ترجیح دینے کا ذمہ دار حیربیار نہیں ، بالکل اسی طرح خان قلات کے منفی اعمال و کردار کا ذمہ دار حیربیار کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا ۔