جینیوا (ہمگام نیوز) بی این ایم کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے انڈیا نریٹیو کے صحافی راول کمار کے ساتھ ٹویٹر پر ہوئے اسپیس پروگرام کے دوران گفتگو کے ابتدائیہ میں کہا کہ ہمیں اس نشست کے لیے دعوت دینے کا شکریہ۔ آپ کا شکریہ کہ آپ بلوچستان کے بارے میں بات کرتے ہیں، لکھتے ہیں اور یہاں کے لوگوں کا دکھ اور غم سمجھتے ہیں یا سنتے ہیں، یقینا بحیثیت صحافی آپ لوگوں کا یہ فرض اور ذمہ داری بھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہاں موجود یا آپ کے دیش میں موجود سننے والوں کے لیے کہ، جب ہم بلوچستان کی بات کرتے ہیں تو بہت سی چیزیں ذہن میں آجاتی ہیں۔ ایک وسیع سرزمین، ایک خوبصورت علاقہ جہاں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں، اور سب اپنی آزادی سے اپنے مذاہب کے مطابق عبادت کرتے ہیں [یا کرتے تھے، یہ ایک علیٰحدہ اور لمبی بحث ہے]۔ وہاں ہندو، سکھ اور عیسائی بھی رہتے ہیں۔ آج تک کسی بلوچ نے کسی ہندو، سکھ اور عیسائی کو تکلیف نہیں پہنچائی ہے، بلکہ ان کی حفاظت کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب ہم بلوچستان کی بات کرتے ہیں تو یہاں پر مختلف ادوار میں قابضین ذہن میں آتے ہیں۔ بلوچوں کی روایات اور مزاحمت یاد آتی ہے۔ ظاہر ہے یہاں پر ظلم و جبر، ایک آزاد ریاست سے کالونی بننا، یہ سب چیزیں، ہماری ذہن میں آجاتی ہیں۔ آج جب ہم بات کر رہے ہیں تو یہ بہت سی چیزیں یہاں نہیں ہیں۔ یعنی یہاں کوئی محفوظ نہیں ہے۔ یہاں کوئی مذہبی پریکٹس نہیں کرسکتا۔ مطلب پہلے ہم دوسرے مذاہب کے لوگوں کی حفاظت کرتے تھے، آج ہم خود وہاں محفوظ نہیں ہیں۔ اس سرزمین کو پاکستان نے ایک جیل، دوزخ جسے ہندی میں ’نرک‘ کہتے ہیں، اس میں بدل دیا ہے ، اور ہم اس سے نکلنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔

گولڈ اینڈ بلڈ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج کا مقبوضہ بلوچستان پاکستان کا آدھا حصہ ہے۔ پاکستانی مردم شماری کے مطابق آبادی کے حساب سے ہم بہت کم، دس ملین ہوں گے ، اور ہماری سرزمین قدرتی وسائل بشمول تیل، گیس، کوئلہ، تانبا، سونا اور دیگر معدنیات سے مالا مال ہے۔ ساتھ ہی بلوچستان ساڑھے سات سو کیلو میٹر پر مشتمل ایک وسیع ساحل کا مالک ہے۔ ایک انتہائی اہم اسٹریٹجک لوکیشن ہے۔آبنائے ہرمز سے قریب ہونے کی وجہ سے اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ آبنائے ہرمز دنیا کا سب سے اہم اسٹریٹجک کوریڈورز میں سے ایک ہے، کیونکہ یہ عالمی توانائی کی سپلائی کے لیے ایک اہم ٹرانزٹ پوائنٹ ہے۔ یو ایس انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن (EIA) کے مطابق، تقریباً 21 فیصد عالمی پٹرولیم لیکوائڈ آبنائے ہرمز سے گزرتی ہے۔ یہ گزرگاہ بلوچستان کے ساحل کی اہمیت کو بھی بڑھاتی ہے۔ اسی وجہ سے ساری دنیا کی نظریں بلوچستان پر ٹکی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہاں پر برٹش، روس اور دیگر طاقتوں نے مختلف ادوار میں قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ آج بھی ان کی نظریں یہاں لگی ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے بلوچستان اپنی تاریخ کے بیشتر ادوار میں جنگوں اور مزاحمت کا مرکز رہا ہے۔ بلوچ نے ہر وقت حملہ آووروں اور قابضین کے خلاف مزاحمت کی ہے۔اس کی ایک لمبی داستان ، جو آج بھی جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ وسائل کی بات ہو رہی تھی تو پاکستان کی جانب سے ہم پر قبضہ کے بعد 1954 سے پاکستان بلوچستان کے علاقے سوئی سے گیس نکال کر پاکستان کی گھریلو اور صنعتی ضروریات پوری کر رہا ہے مگر خود سوئی کے لوگ اس سے محروم ہیں۔ پاکستان میں آپ کسی سے پوچھیں، وہ قدرتی گیس کو سوئی گیس کے نام سے جانتا ہے۔ اس کے بعد ریکوڈک، سیندک پروجیکٹ، اس سے سونے چاندی کا نکلنا، ان کا استحصال، یہ چیزیں اس طرح جاری ہیں اور اس کے ساتھ پاکستان کی جانب سے جارحیت جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ ”گولڈ اینڈ بلڈ“ کا فریز سب نے سنا ہے۔ جہاں سونا وہاں خون، اسے اس طرح سے استعمال کیا گیا ہے۔ دولت اور طاقت کے حصول میں اکثر تشدد اور انسانی مصائب (سفرنگ) شامل ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہم بلوچستان میں اس کا سامنا کر رہے ہیں ۔شاید وہ سمجتھے ہیں، دولت، جیسے کہ سونا، چاندی، دوسروں کی زندگیوں کی قیمت پر حاصل کیا جاتا ہے اور اس کے لیے جارحیت یا استحصال کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ جو پاکستان ہر سطح پر کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر، نوآبادیات یا سامراج کے تناظر میں، ”سونے اور خون“ کا مطلب کالونیوں میں قدرتی وسائل اور زمین کا استحصال ہے۔ اس میں لوگوں کی نقل مکانی، غلامی، یا مقامی لوگوں کی نسل کشی شامل ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں کہتی ہیں کہ حکومت پاکستان بلوچ عوام کو مناسب حصہ دیے بغیر بلوچستان کے وسائل کا استحصال کر رہی ہے، اسی وجہ سے وہاں ایک مزاحمت چل رہی ہے۔ اس کو واضح کرتے ہیں کہ اس طرح کچھ بھی نہیں ہے اور نہ ہی بلوچ قوم حصہ مانگ رہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں بلوچستان میں اتنا خون بہنے کے بعد بلوچ کو اپنی سرزمین چاہیے، نہ کہ اپنی سرزمین پر دوسروں کا غلام بن کر اپنے ہی مال میں چھوٹا حصہ لینا ہے، یقینا یہ ہمارا مقصد یا مطالبہ نہیں ہے۔ ہمارا مطالبہ آزادی ہے، جو ہمارا حق بھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جیسے کہ ہمارا آج کا موضوع ہے ”کیا بلوچستان آزادی کی جانب بڑھ رہا ہے؟۔ یقینا ہم اس کا ”ہاں“ میں جواب دیتے ہیں۔ ایسی جدوجہد کا کوئی ٹائم فریم نہیں ہے، لیکن اس کو ہم ”ہاں“ اس لئی کہہ رہے ہیں کیونکہ ہم تحریک میں عوامی شمولیت دیکھ رہے ہیں، یہ ایک مکمل تحریک کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ ثبوت کے لیے یہ کافی ہے کہ بلوچ قوم کو مزید غلام اور کالونی بن کر رہنا برداشت نہیں ۔ ہم آزادی کی جانب بڑھ رہے ہیں، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر تاریخی حقائق بھی ہماری تائید کرتے ہیں کہ بلوچستان پر طاقت سے قبضہ کیا گیا ہے۔ہم دیکھتے ہیں، ہمارا دوسری دنیا کے ساتھ روابط، رشتے اور معاہدے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ پاکستان سے پہلے کالونائزر برٹش تھا، اس کے ساتھ بھی معاہدات تھیں۔ یہ سب چیزیں ہمارے موقف کو مضبوط کرتی ہیں کہ ہم ایک تحریک بن چکے ہیں اور اپنے منزل کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ آج ہماری جدوجہد ہمہ جہت ہے، ادارے بنے ہیں، تنظیمیں مضبوط ہوئی ہیں۔ گراؤنڈ پہ سیاسی مزاحمت ہے، ایک ڈائسپورا تشکیل پاچکی ہے، جو ہر مقبوضہ خطے لے لیے ایک عام سی بات ہے، کیونکہ ہم دیکھتے ہیں جہاں بھی جن لوگووں پر کوئی ظلم ہوتا ہے تو مجبور ہوکر دوسری ملکوں میں جاکر پناہ لیتے ہیں۔ یہ اس ظلم و جبر کی اس شدت کو بھی ایکسپوز کرنے کے لیے کافی ہے کہ گذشتہ پندرہ بیس سالوں سےسیاسی لوگ اور عام بلوچ بلوچستان چھوڑ کر یورپ امریکہ آسٹریلیا سمیت مختلف ممالک میں آکر، حتیٰ کہافغانستان اور ایران میں ڈائسپورا کا حصہ بن گئے ہیں۔ یہ آزادی کی جدوجہد کا حصہ ہیں اور ہمیں یہی چیزیں آزادی کی منزل کی جانب لے جارہی ہیں، بے شک بلوچستان کی آٍزادی ایک حقیقت ہے۔

چین پاکستان اتحاد کے منفی اثرات کا حوالے دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس جبر ،ظلم اور استحصال کو اور بلوچستان پر قبضے کو بڑھاوا دینے کیلئے چین نے پاکستان کے ساتھ ہاتھ ملایا ہے۔ چین کی نظریں بھی ہماری وسائل اور اسٹرٹجک لوکیشن پر ہیں۔ اس کیلئے چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے نام پر ایک بہت بڑا بلین آف ڈالرز پروجیکٹ شروع کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد چین کے علاقے سنکیانگ کو ہائی ویز، ریلوے اور توانائی کی پائپ لائنوں کے نیٹ ورک کے ذریعے بلوچستان گوادر ڈیپ سی پورٹ سے جوڑنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جہاں سی پیک وسائل کو لوٹنے کا ایک ذریعہ ہے وہاں اس کے سماجی، ماحولیاتی اور سیاسی اثرات بھی ہیں۔ یہ خطے میں بیلینس آف پاور شفٹ ہے۔ چین کی بلوچ سمندر میں موجودگی اور اس کی سب میرین کی موجودگی خطے کی تمام ممالک کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے۔ گوکہ یہ ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے لیکن بلوچ قوم اسے تن تنہا اکیلا مقابلہ کر رہا ہے۔ آج بحیثیت قوم ہم نقصان اٹھا رہے ہیں، لیکن ایک بڑے مقصد کے لیے۔ اگر عالمی طاقتوں اور علاقائی طاقتوں نے آکر ہماری مدد نہیں کی، ان میں مداخلت نہیں کی تو یہ ان کے لیے بھی بڑا نقصان ثابت ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں CPEC منصوبے کے حوالے سے ایک بڑا مسئلہ مقامی آبادیوں کی نقل مکانی ہے، ظاہر ہے مقامی آبادی ہم بلوچ ہیں جو ہزاروں سالوں سے یہاں رہ رہے ہیں۔ شاہراہوں، ریلوے اور دیگر منصوبوں کے نام چیزیں کی جارہی ہیں، وہاں ہمارا نقصان، جو ہو رہا ہے، کھیتی باڑی، زمین (فارم لینڈ)، چراگائیں اور جنگلات کا نقصان ہو رہا ہے۔ جنگلات کی نقصان ذکر آیا ۔ پاکستانی فوج کئی جگہوں پر جنگلات کو جلا رہی ہے۔ اس کی وجہ سے بہت سے لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر داخلی طور پر بے گھر افراد (IDPs) بننے پر مجبور ہوئے ہیں۔ وہ سندھ یا بلوچستان کے دوسرے علاقوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بچی ہوئی آبادی کو پاکستانی فوج کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر جارحیت کا سامنا ہے۔ اس وجہ سے ان کی سماجی اور ثقافتی اقدار میں بھی خلل پیدا ہوا ہے۔ بہت سے لوگ اپنی آبائی زمینوں سے الگ ہوکر روایتی طرز زندگی سے محروم ہو چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی پچہتر سالہ ظلم و جبر کی ایک لمبی فہرست ہے۔ آج ہزاروں لوگ جبری گمشدہ ہیں اور ہزاروں شہید کئے گئے ہیں۔ ہم یقینا میڈیا کے ذریعے، دوسرے فورمز کے ذریعے، ان مظالم کو دنیا کے سامنے لانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ کئی فورمز تک ہم نے رسائی حاصل کی ہے۔ اب دنیا اور عالمی طاقتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہاں مداخلت کرے اور اس جاری نسل کشی کو روکے۔ بلوچستان میں بنگلہ دیش کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔

بلوچستان میں بی این ایم کی موبلائزیشن کے سوال پر انہوں نے کہا کہ جو آزادی پسند جماعتیں ہیں، جیسے بی این ایم، ایف بی ایم، بی آر پی، ایک زمانے میں جب ہم بلوچستان میں تھے، تو سب کا موبلائزیشن کا کوئی اور طریقہ تھا۔ جب پاکستان نے ”مارو اور پھینکو“ کی پالیسی شروع کی، تو اس کے بعد یہ سب تنظیمیں اور سیاسی کارکن زیر زمین چلے گئے۔ آج کی صورتحال یہ ہے کہ بلوچستان میں ہماری پالیسی، جو ہماری آئین کو حصہ بھی ہے، کہ ہم بلوچستان میں کھلے طور اپنے نام سے سرگرمی نہیں کرتے۔ ہم نے وہاں جوتنظیمی ڈھانچہ تشکیل دیا ہے، وہ زیر زمین یا سیل سسٹم کا طریقہ اور آزادی کی جدوجہد میں لوگوں کو موبلائز کرنے کے لیے ان سے مل کر اس کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ تقریبا ان سب تنظیموں کا یہی طریقہ کار ہے۔ جو نقصانات ہم نے پہلے اٹھائے ہیں، قیادت سے لے کر عام کارکن تک، جیسے ہمارے بانی چئیرمین غلام محمد بلوچ کی شہادت سے لے کر عام ممبر تک ہم نے سامنا کیا، کے بعد ہم نے طریقہ کار تبدیل کیے ہیں۔ اس کے علاوہ انسانی حقوق کی تنظیمیں ہیں وہ بلوچستان اور بلوچستان سے باہر کام کر رہی ہیں، سرگرمیاں کر رہی ہیں۔ جو لوگ جبری لاپتہ ہیں، پاکستان کا ان پر یہی الزام ہے کہ یہ سب جتنے بھی جبری لاپتہ ہیں، پاکستان کہتا ہے پانچ ہزار ہیں، ہم کہتے ہیں، چالیس ہزار ہیں، ان سب پر الزام ہے کہ وہ سب آزادی پسند ہیں۔ آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آزادی کی مانگ کتنی ہے اور یہ کس طرح موبلائز ہیں۔ آج بھی اس موبلائزیشن کو روکنے کے لیے، اس موومنٹ کو کم کرنے کے لیے ”مارو اور پھینکو، فیک انکاؤنٹرز جاری ہیں، لیکن لوگوں کی آواز، جو مختلف اداروں کے ناموں سے، بلوچستان کے اندر اور باہر، وہ اس عمل کو آگے لے جارہے ہیں۔ ہم لوگ باہر بیٹھ کر بھی لوگوں سے رابطے میں ہیں۔ لوگوں کو موبلائز کرنے کے جو طریقے ہیں، کچھ طریقے ہم نے اوپن کی ہیں، کچھ اور ہیں لیکن ایک تسلسل ہے۔ وہ کسی اور طریقے سے مگر اسی رفتار سے جاری ہے۔ اس میں کمی نہیں آئی ہے۔ اس آگاہی اور موبلائزیشن کا عمل ہم پڑھ لکھ کر، ہم اس طر ح کے اسپیس کرکے، ہم آڈیوز بھیج کر، کر رہے ہیں۔ ہماری ایک بہت بڑی ویب سائیٹ زرمبش جو نیوز چلاتی ہے، وہ لوگوں کو دن میں دو دفعہ بلوچستان کے بارے میں حالات پہنچاتی ہے، آڈیو اور ویڈیو شکل میں، اور لکھی صورت میں، یہ سب چیزیں کرکے دن میں تین چار دفعہ لوگوں سے بلوچستان کے تمام حالات، موبلائزیشن کرنے کا عمل، پارٹی کا پرچار، اسی طرح سے کر رہے ہیں۔ اس کے علاہ کچھ پوشیدہ طریقوں سے ہم نے موبلائزیشن کا عمل جاری رکھا ہوا ہے۔

ٹی ٹی پی اور بلوچ قوم دوستوں کے درمیان تعلقات پر ایک سوال کے جواب میں انہوں نےکہا کہ ٹی ٹی پی پشتون نیشنلزم کی تحریک نہیں ہے۔ ٹی ٹی پی پاکستان کے اندر ایک مذہبی تبدیلی چاہتی ہے۔ جو بلوچ تحریک ہے، وہ مذہبی لحاظ سے بہت دور ہے۔ یہ قوم دوستی کی بنیاد پر ایک سیکولر، لبرل موومنٹ ہے۔ پشتون قوم دوستی کے حوالے سے پی ٹی ایم اور دوسرے انسانی حقوق کے ادارے کام کر رہی ہیں، ان کا بلوچ کے ساتھ ایک رابطہ ہے۔ ان کے ساتھ ہم کام کرسکتے ہیں۔ جو پشتون تحریک قوم دوستی کی بنیاد پر ہے، وہ منظور پشتین کی قیادت میں آج پی ٹی ایم کی شکل میں ہے۔ اس کے ساتھ بلوچ قوم دوست مشترکہ کام کرسکتے ہیں۔ یورپ میں ہم نے مشترکہ کوششیں بھی کی ہیں۔ ٹی ٹی پی کا بلوچ تحریک اور تقریبا پشتون نینشنلزم سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔

بلوچ تحریک بلوچستان کے وسائل پر حصہ داری کی مانگ پر انہوں نے کہا کہ ہمارا جو نشینلزم اور جدوجہد ہے، وہ وسائل کی بنیاد پر نہیں ہے، کیونکہ اگر ہم اس تحریک اور جدوجہد کو1948 سے لے لیں تو اس وقت کوئی بھی وسائل، نہ تیل، نہ گیس، نہ آج کے ریکوڈک، نہ سیندک، نہ کاپر مائنز، نہ گولڈ مائنز دریافت ہوئے تھے۔ بلوچ تحریک یا قوم دوستی کی تحریک پاکستان کے بننے سے بھی پہلے ہے۔ آج کی جدوجہد کا وسائل سے کوئی براہ راست وابستگی نہیں ہے۔ ہم 1930 کی دہائی میں دیکھتے ہیں جو جدید قوم دوستی ہے، یوسف عزیز مگسی کے زمانے سے لے کر آج تک جس شکل میں موجود ہے، اس میں وسائل کی بات کبھی بھی نہیں آئی۔ وسائل کی ہم بات کرتے ہیں تو پھر جب پاکستان بننے اور بلوچستان پر قبضے کے بعد جو انھوں نے پہلا وسائل دریافت کیا وہ سوئی کے علاقے میں گیس تھی۔ اس نے باقاعدہ 1953 یا 1954 سے سپلائی کی۔ ایک دو سال کام اور نیٹ ورکنگ میں لگے، 1954 سے اس نے پاکستان کو گیس سپلائی شروع کی ہے۔ اس کے بعد جو وقت بہ وقت دریافت ہوئے ہیں، سوئی کے مختلف مقامات پر، آج ایک سے زائد کنویں ہیں۔ باقی کاپر مائنز اور گولڈ مائنز، وہ پھر نوے کی دہائی میں پاکستان نے مختلف کمپنیوں سے کبھی چلی کے ساتھ، کبھی چلی اور کینیڈا جوائنٹ، اور آ ج وہی سلسلہ چلے آ رہے ہیں۔ اس لیے اس کو ہم ریسورس ریلیٹڈ تحریک نہیں کہہ سکتے ہیں۔ ہماری تحریک جو قوم دوستی کی تحریک ہے، وہ پاکستان بننے سے پہلے بھی اسی طرح تھی، اسی ڈگر پر چل رہی تھی، اور پاکستان کے قبضے کے بعد پاکستان کے خلاف جو مزاحمت ہے، وہ بھی اسی نظریہ پہ چل رہی ہے۔ اس کے بعد پاکستان نے جو استحصال کی ہے، جو دنیا نے ترقی کی ہے، اس ریجن میں، پھر خلیج میں، چونکہ ہمارا ساحلی پٹی خلیج سے ملتی ہے، انھوں نے سمجھا وہاں تیل اور گیس دریافت ہوئے ہیں، وہ یہاں بھی [بلوچستان] بھی دریافت ہو سکتے ہیں۔ انھوں نے ادھر دریافت کرنا شروع کیا۔ پھر آگے چل کر جو سیندک میں بیرک گولڈ کمپنی کے معاہدے ہیں پاکستانی سرکار کے ساتھ، یہ حال ہی کی باتیں ہیں۔