شہید نواب اکبر خان بگٹی کی نویں برسی کے موقع پر وژن سے عاری خود ساختہ نواب براہمدغ بگٹی کا بی بی سی انٹرویو سننے کو ملا جس میں موصوف انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ پاکستان سے مذاکرات کا واضح اشارہ دے رہا تھا، ان کا کہنا تھا کہ ہمارے دروازے پاکستان کے لیے ہمیشہ کھلے ہیں اور جو بھی ہم سے رابطہ کرے گا ہم اسے نا امید نہیں کریں گے، ایک اور سوال کے جواب میں براہمدغ بگٹی نے کہا کہ ہم نے اس جنگ کا آغاز اپنے عوام کے پر جوش اسرار پر کیا تھا اور اب اگر قوم کہتی ہے تو ہم مذاکرات کجا ہم عوام کے کہنے پر پاکستان کے ساتھ بیٹھنے کو یعنی اس کی غلامی قبول کرنے کو بھی تیار ہیں،جہاں انہوں نے یہ اشارہ دیا کہ آج بھی ڈیرہ بگٹی کے عوام گیس کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے لکڑیاں جمع کر کے جلانے پر مجبور ہیں یعنی ہماری جنگ کا محور زیادہ سے زیادہ سہولیات کا حصول ہی ہے،یہی موقف بی این پی مینگل کا بھی ہے،وہیں اپنے موقف پر گرفت نہ رکھتے ہوئے انڈیا سے مدد کی بھی اپیل کرتے ہوئے پایا گیا جو سرا سر مضحکہ خیز ہے،سراسیمگی کے شکار بی آر پی کے لیڈر یہ بھی کہتے ہوئے پائے گئے کہ ہمارے پاس کوئی ایجنڈا نہیں جو ایجنڈا دشمن رکھے گا ہم اسی پر بات کریں گے جبکہ اتنے سالوں سے موصوف اس بات پر لیڈری کے مزے لْوٹتا رہا کہ ہم آزادی چاہتے ہیں،آج ایک عام کارکن سے بھی پوچھو تو اپنا واضح موقف رکھتا ہے جبکہ لیڈر کو اس بات کا بھی پتہ نہیں کہ میرا موقف( ایجنڈا ) کیا ہے۔ نواب براہمداغ بگٹی آپ کل بھی ایک سیاسی بچے تھے آج بھی وہی ہو آپ کا یہ کہنا کہ ہم عوام کے کہنے پر اس جنگ کا آغاز کرنے پر مجبور ہوئے ہیں تو اس میں آپ کی لیڈری کہاں مطلب آپ کو قوم نے لیڈ کیا ہے جبکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ آپ قوم کی رہنمائی کرتے کیونکہ آپ لیڈری کا دعوی کرتے ہو قوم نہیں،لیڈر وہ ہوتا ہے جو اپنی قوم کو غلامی کی دلدل سے نکالنے کی صلاحیت رکھتا ہے آنے والے وقت کے متعلق وژن رکھتا ہے لیکن کیا کیا جائے ،بچے غیر سیاسی ہوتے ہیں، نواب براہمداغ بگٹی میں ایک ادنی سا سیاسی ورکر ہوتے ہوئے بھی وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ آج بھی بلوچ قوم کی اکثریت روڈ نالی اور سہولت ہی چاہتے ہیں تو اتنے خون خرابے کی کیا ضرورت تھی،اتنے لوگوں کو پنجاب اور سندھ میں دربدر کرنے اور مہاجروں کی زندگی گزارنے کی کیا ضرورت تھی، اور ان منحرف وڈیروں کا کیا ہوگا جنھیں روزانہ کی بنیاد پر آپ نے جنگ سے منہ موڑنے پر قتل کیا تھا آج تم خود اسی غلامی کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے ہو۔ براہمداغ بگٹی سے میرا ایک سادہ سا سوال ہے آپ کا یہ کہنا کہ اگر قوم کہے تو ہم اس جنگ سے دستبردار ہونے کو تیار ہیں تو ان ہزاروں شہداء کو کس کھاتے میں ڈالو گے جنہوں نے ایک آزاد وطن کی مانگ کرتے ہوئے جان نچھاور کی؟ جناب آج وہ دور نہیں جب آپ لوگ بلوچ قوم اپنا غلام اور تحریک اپنے گھر کی رکھیل سمجھتے تھے،آج وہ دور بھی نہیں کہ تم لوگ کہو گے تو قوم ہتھیار پھینکے گی اور اس غلط فہمی میں بھی مت رہنا کہ بلوچستان میں صرف آپ کا قبیلہ صرف آپ کے کہنے پر جنگ کر رہا ہے۔ جناب حقیقت یہ ہے کہ آپ کو اْس وقت بھی اپنی معتبری اور رائلٹی سے سروکار تھی اور آج بھی آپ کی سوئی وہیں پر اٹکی ہوئی ہے، آپ کل بھی ایک رائلٹی خور تھے اور آج بھی اپنے دس لاکھ ڈالر مالیت کے ہی گیت گاتے ہو،( بلوچستان بارڈر سے پکڑے گئے سونے کے زیورات سے بھرے صندوقچے زیرِ بحث نہیں جنھیں آپ ڈیرہ بگٹی سے سوئٹزرلینڈ منگوا رہے تھے ) بہت کچھ نہیں جانتا لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ لیڈر حرثی، لالچی، کاروباری نہیں ہوتا بلکہ وہ بے غرض ہوتا ہے، لیڈر اپنا سب کچھ لٹا دیتے ہیں جبکہ ابھی تک آپ صرف بینک بیلنس بناتے ہوئے نظر آتے ہو۔ کل اگر بنگان بگٹی دشمن سے ہاتھ ملانے پر سزائے موت کا حقدار ٹھہرا ، آپ کے چچا طلال بگٹی دشمن کے حامی ہونے پر حقارت کی نظر سے دیکھا گیا، سرفراز بگٹی دشمن کا ہمکار ہونے پر قومی مجرم ٹھہرا دیا جاتا ہے اور ستار بگٹی عرف وڈیرہ عالم بگٹی سرنڈر کرنے پر نفرت کا نشانہ بن سکتا ہے تو آج دشمن سے مذاکرات کا حامی بھرنے پر قوم آپ کو سر آنکھوں پر بٹھائے گی؟ آپ میں اور اْن میں زرہ برابر بھی فرق نہیں۔ کہتے ہیں انسان جس صحبت میں رہتا ہے اسی سے تربیت و اثر حاصل کر لیتا ہے. جنیوا میں جاوید مینگل اور اسکے بیٹے، ڈاکٹر اللہ نظر کا سیاسی ہمنشیں حمل حیدر مہران مری اور اندرونی طور پر سرکار پاکستان کا خاص و ناس سردار اختر مینگل جناب کے سیاسی رفقاء کے طور پر جانے جاتے ہیں اور آج پنجابی کی طرف براہمداغ کے بڑھتے قدم بھی اسی تربیت کا شاخسانہ ہی ہے۔ چند ماہ پہلے بھی براہمداغ نے اپنے اخباری بیان میں کہا تھا کہ بی این ایم اور بی این پی مینگل سے اتحاد ہو سکتی ہے لیکن خان قلات اور سنگت حیربیار سے ہرگز نہیں کیونکہ یہ لوگ کسی سیاسی پارٹی سے تعلق نہیں رکھتے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سنگت حیربیار کا دشمن کی بابت دو ٹوک موقف بلوچ قوم کے سامنے ہے جس سے آپ لوگ کوسوں دور ہو۔ براہمداغ بگٹی صاحب آپ لوگ بلوچ قوم کو جتنی اندھی سمجھتے ہو اْتنی نہیں جتنے تم لوگ خود ہو، تم وہی ہو جو حیربیار کی جانب سے پیش کردہ چارٹر کو بلاجواز مسترد کرتے ہو، تیرہ نومبر شہداء ڈے سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہو اور بلوچ قومی بیرک کو متنازعہ بناتے ہو اور آج دشمن کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہو. وہ دن دور نہیں جب اسی محفل میں بیٹھے ایک دن میڈیا میں یہ خبر بھی سنیں گے جب آپ شان و شوکت سے دشمن کے ساتھ ہاتھ ملا رہے ہونگے. پھر ایک ایک کرتے ہوئے آپ کے سیاسی یتیم ساتھی بھی آپ کے پیچھے ہو لینگے. پہلے آپ، پھر مہران مری پھر جاوید مینگل اور آخر میں آپ سب کا لاڈلا مکران کا شیر. توبہ استغفار