جمعه, اکتوبر 4, 2024
Homeآرٹیکلزاختر مینگل اور ڈاکٹر مالک کی دورِ اقتدار میں بلوچستان پر ایٹمی...

اختر مینگل اور ڈاکٹر مالک کی دورِ اقتدار میں بلوچستان پر ایٹمی دھماکے ہو یا سوات طرزِ آپریشن

تحریر: گل حسن بلوچ

             ہمگام نیوز

بلوچستان کی قسمت میں کبھی خوش حالی نہیں لکھی ہے ہر دور میں دیکھتے ہیں ہر حکمرانوں نے اقتدار سمبھالی ہیں لیکن انہوں نے بلوچستان کی ترقی کیلئے کوئی اقدام نہیں اٹھائی ہیں، انہوں نے اپنے آقاؤں کی خوشنودی کیلئے  بلوچستان کے سائل وسائل کو لوٹ کر عوام کی استحصال کی ہیں اور ساتھ ساتھ بلوچستان میں خون و آگ کے کھیل کھیلی گئی ہیں وہ چاغی میں راسکوہ کے دل میں ایٹمی دھماکہ ہو یا مکران سے لیکر جھالاوان میں سوات طرز آپریشن ہو بلوچ قوم کے نام سے پنجابیوں کے اشاروں پر  چلنے والے حکمرانوں نے اپنے آقاؤں سے ملکر بلوچ قوم کے وجود کو مٹانے کی کوشش کی گئی ہے۔ 28مئی 1998 میں سردار اختر مینگل نے اپنے آقاؤں سے ملکر راسکوہ میں دھماکہ کرنے کیلئے بی این پی کے  کارکنوں کے ساتھ ملکر جس جوش و خروش کے ساتھ نوازشریف کی استقبال کی وہ ہر بلوچ کے دل میں روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ سردار صاحب نے خود نوازشریف کے گاڑی کی ڈرائیونگ کی۔  2013 سے  2016 تک  ڈاکٹر مالک کی دور حکومت میں سوات طرز کی بد ترین آپریشن کی گئی۔ مجھے یاد ہے جب 2016 کو ہم تربت میں پڑھنے کیلئے آئے تھے تو ایف سی ہیڈکوارٹر تربت میں ایک اجلاس منعقد ہوئی اس اجلاس میں ڈاکٹر مالک بحیثیت بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اجلاس میں شرکت کی، اگلے دن میں یہ اعلامیہ سامنے آیا کہ ڈاکٹر مالک بحیثیت وزیر اعلیٰ نے بلوچستان میں مکران سے لیکر جھالاوان تک سوات طرز آپریشن کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے ۔ میں سمجھتا ہوں بلوچستان میں روزانہ کی بنیاد پر آپریشن راسکوہ میں ایٹمی دھماکے سے کم نہیں ہے۔

آج یہی دیکھنے کو مل رہا ہے ڈاکٹر مالک کے حواری اپنی سیاست کو چمکانے کیلئے اختر مینگل کو غدار خود کو وفادار سمجھ رہے ہیں یہ اُن کی خام خیالی ہے سردار اختر مینگل سے لیکر اسلم رئیسانی تک ڈاکٹر مالک سے لیکر جام اور قدوس بزنجو تک سب بلوچ قوم دشمن پالیسیوں کا حصّہ رہے ہیں، بلوچستان کا بچّہ بچّہ جانتا ہے  کہ جب وہ اقتدار میں تھے انہوں نے کیا کیا نہیں کیا ۔آج تک کیا نہیں کر رہے ہیں ، بلوچ اور بلوچستان کی خیرخواہ کوئی نہیں جب ان کے آقاؤں کی جی چاہتا ہے وہ بس حکم دے کر یہ وہی کرتے ہیں ۔

بلوچستان میں جب  چاہیں تو بھیس بدل کر اقتدار میں آکر حکمرانی کریں چائے جتنے بدنام ہو لیکن کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ اسی طرح آج ڈاکٹر مالک اور اختر مینگل نے بھی اپنے بھیس بدلنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ لیکن بلوچ آج اتنے باشعور  ہوچکا ہے کہ ان کو اچھی طرح پہچان تھے ہیں ۔

کچھ لوگ نیشنل پارٹی سے بدنام ہوکر باپ پارٹی کی شکل میں آکر حکمرانی کی جب باپ پارٹی کا سورج غروب ہوگیا تو وہی لوگ دوڑ لگا کر پاکستان پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں تاکہ دوبارہ بلوچ نسل کشی میں اچھی کردار ادا کر سکیں ۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز