تحریر: وسیم آزاد
ہمگام آرٹیکل
شاعر تخیل سے بھرا ہوا اک ذہن، خیال کی آمد کا منتظر، احساس سے لبریز ایک وجود ، جذبات کے اثر سے پارہ پارہ، امید اور نا امیدی کے لہروں میں بہتا ہوا، اک دماغ جیسے حد درجہ یقین ہوتا ہے کے کوئی بھی شے اپنے وجود میں مکمل نہیں ہوتا باوجود ایسا یقین رکھنے کے بھی وہ اپنے محبوب کو لفظوں میں ایسے سنوارتا ہے اس کے خدوخال ایسے بیان کرتا ہے کہ روہے زمین پر وہ شکل صورت ناپید نظر آتی ہے. شاعر ایک تصوراتی مجسمہ ساز اور تزہین و آرائش کا ہنر مند، کبھی کبھی محبوب سے جداہی کی عمیق گہرائیوں کا الفاظ میں اس طرح پیماہش کرتا ہے کہ آنکھیں بھی جھیل ہو جاتی ہیں ۔
شاعر مکمل طور پر جذبات کی گرفت میں ہوتا ہے وہ عالمِ وجد میں زندہ رہتا ہے۔ حقیقت سے کوسوں دور اپنی دنیا میں، غلامانہ سماج میں ان سے تو بس عوام کے جذبات ابھارنے کا ہی کام لیا جاسکتا ہے۔ سیاست کی پیچ وخم اور جدید عالمی سیاست کے اسرار و رموز کا طالب علم اور کوہی بھی سیاسی گھتیوں کو سلجھانے کی کوشش کرنیوالا شخص ان سے ہر گز یہ امید نہیں رکھ سکتا کہ وہ کسی بھی قوم کی بقا و مفادات کا دفاع کرنے کے انتہائی پیچیدہ اور مشکل ترین عمل کو سر انجام دینے کے قابل بھی ہو سکتے ہیں۔ کہنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ سماج کے ایک متحرک طبقے کی اہمیت سے انکار کیا جائے یا پھر اُس کے صلاحیتوں اور ہنر کو کم سمجھا جائے بلکہ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ تصورات کو الفاظ کا لبادہ پہنانے کا جو شیریں ہنر رکھتے ہیں وہ سیاسی میدان میں مستعمل نہیں ہوسکتا.
شاعروں کے علاوہ ایک طبقہ دانشوروں کا ہے۔ کتابوں کی بھٹی میں کندن سے سونا بننے کا سفر طے کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں جو ہر شے کو علمی و عقلی بنیادوں پر پرکھتے ہیں۔ جن کی نظر میں منطق و دلیل بہترین پیمانے ہیں کسی شے کے صحیح یا غلط ہونے کو ثابت کرنے کیلئے۔ وہ شاعروں کی طرح جذبات سے کام نہیں لیتے، اور نہ ہی وقتی ماحول سے متاثر ہوتے ہیں۔ اسی لئے قوموں کی بقاء، آزادی و ترقی میں دانشور طبقہ ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ یہ دانشوروں کا ہی کام ہے جو وقت کی نبض کو ٹٹول کر حالات کا ادراک کرتے ہوئے ہمیں بتاتے ہیں کہ کس سمت کس رفتار سے سفر کرنا چاہیے۔
چونکہ ہم ایک مقبوضہ سرزمین کے باسی ہیں۔ ہمیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ نہ صرف دشمن بلکہ باقی دنیا کے لوگوں کے بنسبت ہمیں ہر معاملے میں اُن سے زیادہ توانائی صرف کرنے کی، بہتر وقت اور بہترین جگہ پر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے نا کہ وقتی و جذباتی ماحول کے اثر میں بہہ کر فیصلہ لینے یا اپنی رائے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں بات رائے کی ہو رہی ہیں تو مجھے اسے مزید واضح کرنے دیں۔ اک شاعر ادیب یا دانشور کی جڑیں عوام میں ہوتی ہے۔ ایسے میں انکی رائے کو عوام میں سرایت کرنے میں دیر نہیں لگتی۔ یہاں ایک مختصر کہانی بیان کرنے سے شاید میری بات زیادہ بہتر انداز میں واضح ہو۔
پادا کہ رندا پشت کپے
کسی نے تحریک سے خود کے جوڑنے کی وجہ اس شعر کے ایسی اک مصرے کو بتایا تھا۔ کہ جب میں نے ایک جگہ یہ شعر سنا تو خیال آیا کہ آزادی تو بس ملنے کو ہے۔ لیکن ہمارے گھر سے اب تک بلوچستان کی آزادی کیلئے کسی نے قربانی تک نہیں دی اسی کی زبانی کہ اس نے اسی وقت فیصلہ کر لیا کہ مجھے تحریک کا حصہ بننا ہوگا۔ اب یہ ایک الگ بحث ہے کہ کیا یہی پورا سچ ہے۔؟ یہاں بات الفاظ کے اثرات پر ہورہی ہے کہ الفاظ انسان کی سوچ پر کتنا اثر ڈال سکتے ہیں۔ یہ ایک کہانی تھی ایسے کئی کہانیاں بلوچستان کی مٹی میں مدفن ہیں۔
جب اتنی بڑی غیر اعلانیہ ذمہداری شاعروں ادیبوں دانشوروں کے کندھوں پے ہو تو اسے میں ہر شاعر ادیب اور دانشور کا فرض بنتا ہے کہ وہ ہر معاملے میں ممکنہ فائدے و نقصان کا باریک بینی سے جائزہ لے کر ہی شاعری افسانہ نگاری یا جو بھی صنفِ تحریر ہو اسے کاغذ پے اتارے۔ اس شعور کے ساتھ کے وہ جو لکھ رہا ہے اسکی مثال اس تیر کی ہے جس کے کمان سے نکالنے کے بعد تیرانداز کا بھی اس پر کوئی اختیار نہیں رہتا۔ نسلیں آباد بھی ہم کر سکتے ہیں اور برباد بھی۔ ہر شے کیلئے علمی عقلی و منطقی بنیادوں پر ایک حدود مقرر ہیں۔ہر شے اپنے اسی حدود میں میں رہ کر ہی بہتر نتائج فراہم کرسکتا ہے۔ یہاں میں یہ واضح کرتا چلوں کہ میں شاعروں سے مخاطب ہوں دانشوروں سے باقی حضرات اپنی محنت جاری رکھیں جو آج شاعر کی حیثیت سے سوتے ہیں کل سورج کے طلوع ہوتے ہی صحافی بن جاتے ہیں اگلے دن کچھ اور۔۔۔۔۔
ایسے لوگ بیچارے قوم کی بقاء کا کیا سوچیں گے انہیں تو بس اپنی وفاداریاں ثابت کرنی پڑتی ہیں ہر دن۔
بات چل رہی ہیں دانشوروں اور شاعروں کی تحریروں اور تخلیقات کے اثرات کی کہ کیسے عوام کو متاثر کرتے ہیں۔بد قسمتی سے ہمارے یہاں شاعر تو شاعر دانشور بھی باز معاملات میں کافی زیادہ جذباتی نظر آتے ہیں بنا سوچے بنا حقیقت کو سمجھے جلد بازی میں رائے قائم کرتے ہیں فیصلے دیتے ہیں۔ صحیح غلط کو سمجھے بغیر جھوٹ اور سچ میں فرق کیے بغیر۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کیا جائے؟
ہمیں جزباتیت کی رو میں بہنے کی بجائے سمجھ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا ہم میں سے جو بھی جہاں بھی ہیں جن کی فکر جن کا سوچ ایک آزاد قومی ریاست کی تشکیل کرنا ہے اپنی قومی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے ایسے کسی بھی عمل کی آنکھیں بند کر کے حمایت نہ کریں جس کے لیے آپکے سامنے کوئی ٹھوس دلیل نہ رکھی جائے۔ ہم میں سے ہر ایک کی کوشش ہونی چاہیے کے اپنے سیاسی تعلیم کا خود بندوبست کریں تاکہ عمل کے ساتھ ساتھ سوال و تنقید کرنے کی اپنے انسانی فطری عمل کو نکھار کر قومی بقاء کی جدوجہد میں کسی کو بھی چاہیں وہ کسی بھی سطح پہ بیھٹا ہو غلط فیصلے کرنے سے روک سکیں ۔ سوال کریں سوال در سوال کریں نہ تو تنظیمیں مقدس ہیں اور نہ ہی ان کی قیادت تنظیمیں بنتی رہینگی ختم ہوتی رہینگی قیادت ہمیشہ انہی چند لوگوں کے پاس نہیں رہے گی۔ ہمارے لئے اگر کوئی شے مقدس ہونی چاہئیں تو وہ ہے ہمارا قومی سوال، ہماری قومی تحریک جسے وقتی و جذباتی ماحول کی نظر کرنا قومی جرم کے مترادف ہے۔ کیونکہ یہاں بات زندگیوں کی ہے جو قوم کا سرمایہ ہیں۔ جو آزادی کے جذبے سے سرشار ہیں۔ جو غلامی کی خون آلود زنجیروں سے خود کو آزاد کر چکے ہیں۔ جن کی اگلی منزل اب اپنی قوم کی آزادی ہے۔ اپنے کسی بھی ارادی و غیر ارادی عمل سے ایسے نوجوانوں کو غلط راہ پر نہ دھکیلیں انہیں زندہ رہنے دیں انکی سیاسی تربیت پر توجہ مرکوز رکھیں انہیں سخت حالات میں ڈالیں تا کہ وہ زیادہ سے زیادہ سیکھیں ان کی صلاحیتوں کو نکھار کر ان سے قومی فکر کو سیراب کرنے پر سوچیے ۔ زندہ انسان ہی چیزوں کو بدل سکتا ہے بہتر کر سکتا ہے۔