واشنگٹن( ہمگام نیوز ) گذشتہ چند ہفتوں کے دوران بین الاقوامی پانیوں میں ایران کی جانب سے کسی بحری جہاز کو قبضے میں لینے کی ایرانی کوشش سامنے نہیں آئی۔ اس حوالے سے آخری کوشش 5 جولائی کو کی گئی تھی جب امریکی افواج حملے کے علاقے میں پہنچی اور عملاً ایرانی بحریہ کو دو بحری جہازوں کو قبضے میں لینے سے روک دیا تھا۔ ان میں سے ایک جہاز کو عمان شہر اور دوسرے کو مسقط کے قریب ساحل سمندر میں روکنے کی کوشش کی گئی تھی۔
حملے رک گئے
امریکی عسکری ذرائع نے گذشتہ گھنٹوں کے دوران ’العربیہ‘ اور ’الحدث‘ سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ گذشتہ ہفتوں میں تجارتی بحری جہازوں کے خلاف ایران کی کوئی نئی کوشش نہیں دیکھی گئی۔ ذرائع نے خطے میں امریکی فوجی دستوں کے متحرک ہونے کا حوالہ دیا اور بتایا کہ گذشتہ ہفتوں کے دوران فضائیہ نے “F-35″ طیاروں اور”F-16” طیاروں کے دو الگ الگ سکواڈرن بھیجے تھے جب کہ گذشتہ موسم بہار سے فضائیہ نے “A-10” طیاروں کا سکواڈرن اپنے پاس رکھا ہوا تھا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ امریکیوں نے خطے میں دو امریکی بیڑوں اور ان کے بحری جہازوں کو تعینات کر رکھا ہے۔ اس طرح وہ آبنائے ہرمز اور خلیج عمان کو فضا اور سمندر سے سکیورٹی فراہم کرکے ان کی منزل کی طرف لے جاتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ امریکی افواج نے افغانستان سے انخلاء کے مہینوں میں دو طیارہ بردار بحری جہاز بھیجے، لیکن اس بار امریکی اپنی افواج کو ایران کی طرف سے کی جانے والی کارروائیوں کا مقابلہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
بلٹ ان ڈیٹرنس
گذشتہ دس برسوں کے دوران امریکی فوج نے مشرق وسطیٰ میں خطرات کا سامنا کرنے کے لیے نئے طریقے تلاش کیے ہیں اور افواج میں کمی کا فیصلہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت میں کیا گیا تھا۔ اس فیصلے کے تحت پینٹاگان نے افواج کی تعداد 2020ء کی نسبت چالیس ہزار سے کم کر دی تھی۔
مشرق وسطیٰ میں فوج میں کمی کا فیصلہ سابق امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر کے دور میں ہوا جو موجودہ سیکریٹری دفاع لائیڈ آسٹن کے دور میں بھی برقرار رہا ہے لیکن بعد میں نے لائیڈ آسٹن نےمشرق وسطیٰ میں فوج کو “انٹیگریٹڈ ڈیٹرنس” کی ضرورت قرار دیا۔ 2021ء کے موسم خزاں میں بحرین کانفرنس میں ایک تقریر میں انہوں نے وضاحت کی کہ امریکا سمندری سلامتی سمیت خطے کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے اپنے شراکت داروں اور اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔
تاہم گذشتہ دو سالوں میں بین الاقوامی پانیوں میں تجارتی بحری جہازوں خاص طور پر امریکی کمپنیوں کی ملکیت میں تیل کی کھیپ لے جانے والے بحری جہازوں پر حملوں میں اضافہ ہوا۔
تیزی سے پھیلاؤ
امریکیوں نے وقتاً فوقتاً امریکی فضائیہ کے اسکواڈرن بھیج کر ایرانی اقدامات کو روکنے کے لیے کام کیا۔
امریکی فوجی حکام نے ’العربیہ‘ اور ’الحدث‘ کو بتایا کہ خطے کے دفاع اور سلامتی کے لیے نیا اصول “تیز تعیناتی” پر مبنی ہے۔؎
مثال کے طور پر دیو ہیکل B-52 طیارے اکثر امریکی فضائیہ کے ساتھ B-52 پرواز کرتے ہیں۔
امریکیوں نے “تیز تعیناتی” کے ذریعے کوشش کی کہ افواج کی مستقل تعیناتی کا حل نکالا جائے اور ایرانیوں کو عبرت کا پیغام دیا جائے، لیکن ایران کو احساس ہو گیا۔ امریکیوں کے مطابق فضائی کمک آتی جاتی رہتی ہے۔ وہ دنوں یا ہفتوں کے بعد چلی جاتی ہیں۔ اس طرح امریکی افواج “تیزی سے مداخلت” کرنے کی اپنی صلاحیت کھو دیتی ہیں۔
ڈیٹرنس ناکام ہو گئی
ایرانی افواج نے امریکی موجودگی میں اس خلا سے فائدہ اٹھانے کے لیے کام کیا اور خلیج عمان اور آبنائے ہرمز میں تجارتی بحری جہازوں پر اس وقت حملہ کرنا شروع کیا جب تعداد اور امریکی سازوسامان اپنی کم ترین سطح پر تھے۔
ایران بھی تیل کمپنیوں کی قیادت میں خوف و ہراس پھیلانے میں کامیاب ہو گیا کیونکہ بعض رپورٹس کے مطابق ایرانی تیل سے لدے بحری جہازوں کو امریکی حکام نے ضبط کر لیا ہے۔ وہ خلیج میکسیکو میں ہیں اور امریکی کمپنیاں ان کو اتار کر مارکیٹ میں فروخت کرنا چاہتی ہیں لیکن امریکی کمپنیوں نے ایرانیوں کے خوف سے ایسا کرنے سے گریز کیا۔
شاید امریکی یوم آزادی کے موقع پر جو کچھ ہوا وہ امریکی نقطہ نظر میں ایک اہم معاملہ ہے جیسا کہ وزارت دفاع کے سابق انڈر سیکرٹری نے اپنا عہدہ چھوڑنے سے پہلے انکشاف کیا تھا کہ وزیر دفاع نے سینیر حکام کو ایک میٹنگ میں مدعو کیا جب وہ 4 جولائی کا جشن منا رہے تھے۔ وجہ یہ ہے کہ ایرانی افواج اس وقت تجارتی بحری جہازوں کے قریب پہنچی تھیں اور یہ خلیج عرب کے وقتکے مطابق 5 جولائی کی صبح کا وقت تھا۔