کوئٹہ( ہمگام نیوز ) بلوچ یکجہتی کمیٹی نے تربت میں اسکول ٹیچر اور طالب علم راؤف بلوچ اور نصیر آباد سے امداد جوکیو کو مقامی وار لارڈ کے ذریعے قتل کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت اور ان واقعات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کو ریاست کالونی طرز کی پالیسیوں کے ذریعے چلانے کی کوشش کر رہی ہے جو آخرکار ریاست کیلئے ہی تباہ کن ہونگے۔

 بلوچستان میں بندوق تھما کر ڈیتھ اسکواڈز کے گروہ بناکر انہیں مذہبی لبادے میں ڈال کر ریاست بلوچستان میں مذہبی قتل و غارت گری اور انارکیت پھیلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ راؤف سے پہلے بھی بلوچستان میں ریاست کی پشت پناہی میں ایسے گروپس نے طالبات کے اسکولوں کو جلانے ، پنجگور و دیگر علاقوں میں پمفلیٹ و حتی کے حملہ کرنے اور ایسے ان گنت واقعات کروائے ہیں جن کا بنیادی مقصد بلوچ سماج کو اندر سے کھوکھلا کرنا ہے، ان اقدامات کو روکنے کا واحد طریقہ قومی بقاء و مزاحمت میں پنہاں ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ترجمان نے کیچ اور نصیر آباد کے واقعات کو ریاست کی اس پالیسی کا حصہ قرار دیا جس کا مقصد ایک بلوچ سماج کے سیکولر ویلیوز کو تباہ کرنا، طلباء کو علمی و شعوری لٹریچر سے دور رکھنا، معاشرے میں انارکیت پھیلانا، بلوچ حقوق کیلئے جاری تحریک کو کاؤنٹر کرنا، سیاسی و علمی افراد کو مذہبی گروپس کے نام پر قتل کرنا جبکہ دوسری جانب نصیر آباد میں پالیسی مختلف اور نوابوں و جاگیرداروں کے ذریعے بنایا گیا ہے۔ جہاں کیچ میں مذہبی گروپس کے نام پر قتل و غارت کی جاتی ہے تو وہیں نصیر آباد میں نواب و سرداروں کے ذریعے عام بلوچ کا قتل جاری ہے ، کسانوں کے حقوق اور اپنے لوگوں کیلئے آواز اٹھانے والے امداد جوکیو کو بے دردی سے قتل کیا گیا ہے لیکن ریاست غائب ہے کیونکہ ان تمام گروپس کی پشت پناہی ریاست ہی کر رہی ہے۔ نا نواب مگسی کو بلوچ عوام نے یہ حق دیا ہے اور نا ہی کسی مذہبی گروپ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ بلوچستان میں کسی بھی نوجوان یا شخص کو قتل کرنے کا حق دیں بلکہ یہ حق ریاست نے ان کی دی ہے تاکہ بلوچستان میں لوگ قومی فکر و سوچ اور ریاستی و غیر مقامی سرمایہ دار کی لوٹ مار کا بھول کر اندرونی لڑائیوں میں مصروف رہیں۔ ریاست کی یہ پالیسیاں بلوچ قوم کے اندر جو عدم تحفظ جنم دے رہے ہیں یہ ریاست کیلئے ہی خطرناک ہے ، لیکن ریاستی تھنک تھینکس یہ سمجھ رہے ہیں کہ بلوچستان کو ان کے ذریعے کنٹرول کیا جائے گا۔ بلوچستان میں قانون اپنی موت مر چکی ہے، نا تربت قتل میں انتظامیہ ایکشن لے رہی ہے اور نا ہی نصیر آباد میں امداد جوکیو کے قتل پر انتظامیہ کوئی ایکشن لے رہی بلکہ نصیر آباد میں انتظامیہ اور مقامی پولیس قاتلوں کا دستہ اول بن کر عام عوام پر قہر برسا رہی ہے اور امداد جوکیو کے قتل کے بعد اس کے لاش کو تحویل میں لیکر انہیں سپرد خاک کرنا بھی نہیں دیا گیا ہے۔ ان حالات کو دیکھ کر بلوچ قوم کے باشعور افراد کو سمجھنا چاہیے کہ بلوچستان میں اس وقت ریاست جن پالیسیوں پر کارفرما ہے اگر ان کا مقابلہ نہیں کیا گیا تو وہ وقت دور نہیں جب بلوچستان کو ریاست ان کے لوگوں کیلئے رہنے کے قابل نہیں چھوڑے گا۔

ترجمان نے راؤف بلوچ اور امداد جوکیو کے قتل پر ریاستی اداروں اور نام نہاد وفاقی و قوم پرست جماعت و اداروں کی خاموشی پر کہا کہ ان کی خاموشی دراصل بلوچستان کے حوالے سے ان کی پالیسیاں واضح کر رہی ہے۔ ان کی خاموشی بلوچستان میں مذہب و جاگیرداریت کے نام پر بلوچ نوجوانوں کے قتل کی حمایت کر رہے ہیں۔ ریاست کے ادارے ان ملزم و مجرموں کو سزا دینے کے بجائے ان کی پشت پناہی کرنے، انہیں اسلحہ دینے اور انہیں ٹرینگ دینے کا کام کرتے ہیں تاکہ وہ بلوچستان میں ایسے حالات پیدا کر سکیں جو ریاست کیلئے سازگار ہوں لیکن جو آگ ریاست ان نام نہاد گروپ کے ذریعے بلوچستان میں لگانا چاہتا ہے اس آگ سے ریاست خود بھی محفوظ نہیں رہے گا۔