تحریر: ڈاکٹر شکیل بلوچ

        ہمگام آرٹیکل        

 

استحصال زدہ معاشرے میں لوگوں کو زیر عتاب لانے اور انہیں اپنے تابع بنانے کیلئے زہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ حربہ اکثر نوجوان طبقے کے اوپر زیادہ استعمال کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے زہنی صلاحیتوں کو کھو بیٹھیں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت بالکل محروم ہوں۔

نوجوان اور تعلیم یافتہ طبقہ قوم کے مستقبل کے معمار ہوتے ہیں، کیونکہ وہ تعلیم کے زریعے شعور حاصل کرنے کے بعد ہر حالات اور واقعات سے آشنا ہوتے ہیں، انہیں نفع و نقص، حق و سچ، خیر و شر کا پتہ ہوتا ہے، انہیں اپنے موجودہ استحصال زدہ صورتحال کا بھی ادراک ہوتا ہے کہ وہ کیوں، کیسے اور کس طرح ایسی بدترین زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، آخر کیا وجہ ہے، کون سے اسباب ہیں۔ 

زہنی تشدد کیا ہے اور یہ حربہ کیوں استعمال کیا جاتا ہے؟ وہ اس لئے کہ آپ کی زہنی صلاحیت بالکل کمزور ہوں، اپنے زہنی الجھنوں اور مسائل میں اس حد تک پھنس جائیں کہ آپ سطحی مسائل کے اندر رہتے ہوئے دوسرے اجتماعی مسائل سے بیگانہ رہیں، وہ جو ہر طرح سے آپ کا استحصال کر رہا ہے آپ ان مسائل میں اسطرح الجھ جائیں کہ وہ آپ کے نظر سے ہی اوجھل رہیں اور آپ ان کو دیکھ ہی نہ پائیں۔

استحصال زدہ معاشرے میں تعلیمی نظام کے اندر اکثر طلباء کو مختلف طریقوں سے زہنی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، خواہ وہ انتظامیہ کی طرف سے ہوں، کسی ٹیچر یا کلرک کی طرف سے ہو، ۔۔۔ اکثر محکوم قوم سے تعلق رکھنے والے طلباء کو احساس کمتری دلایا جاتا ہے، انکے ساتھ متعصابہ رویہ رکھا جاتا ہے۔ انہیں یہ احساس دلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ آپ تو اس قابل نہیں کہ آپکو کسی دوسرے اہم تعلیمی ادارے میں ایڈمیشن مل سکے، البتہ آپ کو شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ آپ کو یہاں داخلہ مل گیا ہے اور آپ یہاں تعلیم حاصل کر رہے ہو، آپ تو احسان مند ہو ادارے کا جس نے آپ کو یہاں داخلہ دی ہے۔ وگرنہ آپ تو اس قابل نہیں تھے۔

اب آتے ہیں لسبیلہ یونیورسٹی کی طرف جہاں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے بلوچ طلباء و طالبات پڑھ رہے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں طلباء کو وہ سہولیات میسر نہیں جسطرح پنجاب اور دیگر صوبوں کے تعلیمی اداروں میں دی جاتی ہیں۔ اگر لسبیلہ یونیورسٹی کے ماضی پر نظر دوڑائیں تو پہلے ان میں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوئی تھی، لیکن وائس چانسلر ڈاکٹر دوست محمد بلوچ کے آنے سے یونیورسٹی کی حالت پہلے سے تو کافی بہتر ہوئی لیکن اگر پنجاب اور دیگر یونیورسٹی سے ان کا موازنہ کریں تو یہاں زیرو فیصد کی سہولیات میسر نہیں۔

اب اصل مدعی کی زکر کرتے ہیں، زیر نظر تصویر میں یہ کرسیاں لسبیلہ یونیورسٹی کے طلباء و طالبات کی امتحانات کے لئے سجائی گئی ہیں جس پر اسٹوڈنٹس کو تین گھنٹے مسلسل بیٹھ کر امتحانات کے پیپرز لکھنے ہیں، آپ بخوبی دیکھ سکتے ہیں ان کے آگے کوئی ایسا ٹیبل یاکہ Exam Chair دستیاب نہیں جن پر پیپر رکھ کر امتحانات کے پرچے لکھے جاسکیں۔ 

یہ بھی ایک طرح کی زہنی اور جسمانی تشدد سے کم نہیں، آپ خود اندازہ لگا لیں اگر تین گھنٹوں مسلسل سر نیچھا کرکے پیپر لکھا جائے تو کیا اس سے صحت پر برے اثرات نہیں پڑ سکتے؟ کیا طلباء و طالبات ان پر بیٹھ کر سکون سے پیپر حل کر سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو یہ بھی ایک طرح کا زہنی اور جسمانی تشدد ہے۔ 

مہنگائی کے اس دور میں بھی سمسٹر فیسوں میں کافی حد تک اضافہ کیا گیا ہے جو کہ غریب بلوچ طالب علم جمع پونجھی کے بعد بمشکل اپنے فیس جمع کرتے ہیں۔ یونیورسٹی میں ترقیاتی کاموں کے مد میں سالانہ کروڈوں اربوں روپے کی فنڈز خرد برد کئے جاتے ہیں۔ جسکا کوئی غیرجانبدار اڈیٹنگ نہیں۔ وسائل وساحل سے مالا مال بلوچستان کے یونیورسٹیز اور تعلیمی اداروں کے اندر امتحانی پیپر دینے کیلئےExam Chair تک دستیاب نہیں۔ آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہاں بلوچ طلباء دیگر کن کن مسائل اور مشکلات سے دوچار ہو سکتے ہیں۔