شال (ہمگام نیوز ) بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5191 دن ہوگئے۔کیمپ میں سوراب سے جبری لاپتہ سیف اللہ رودینی کی بہن فرزانہ رودینی بھی شریک رہیں –

فرزانہ رودینی نے کہا کہ اسکے بھائی سیف اللہ رودینی 22 نومبر 2013 کو جبری لاپتہ کیا گیا ،دس سال گزرنے کے بعد اس کی خبر اب تک ہمیں نہیں ملی ہے، عدالت اور کمیشن میں پیش ہونے کے باوجود کوئی سنوائی نہیں ہو رہی ہے ۔

اس موقع پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ کراچی اور بلوچستان کے مختلف علاقوں سے سینکڑوں کے حساب سے نوجوان طلبا بچے بزرگ کو سندھ میں رینجرز بلوچستان میں ایف سی اور خفیہ اداروں کے اہلکار اور سی ٹی ڈی نے جبراً اغوا کیا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ متاثرہ لواحقین مایوسی کے عالم میں مطالبہ کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ اگر انکے لاپتہ پیارے شہید کئے جا چکے ہیں۔ تو براہ کرم انکے نعشیں ہی حوالے کردیں تاکہ انتظار کا کرب تو ختم ہو سکے۔ لواحقین کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اپنے پیاروں کے لئے کئے جانے والے پرامن جدجہد کے جرم کی ریاستی قانوں میں تجویز کردہ کسی بھی سزا کے معافی کے طلب گار نہیں ہیں اگر انکے پیاروں نے کوئی ایسا جرم کیا ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے اور جو بھی سزا مقرر ہے انہیں دیا جائے چاہے وہ موت کی ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن لواحقین کے اس مطالبے پر بھی عملدرامد سے اجتناب برتا جا رہا ہے۔

انھوں نے کہاکہ اگرچہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس ضمن میں کسی حد تک آواز بلند کرتی نظر آتی ہیں مگر وہ اس سلسلے میں باقاعدہ پرامن جہد مسلسل سے پہلو تہی کررہی ہیں جس سے ریاستی قوتوں کو مزید حوصلہ مل رہا ہے اور وہ اس انسانیت سوز عمل کو بلا توقف جاری رکھے ہوئے ہیں جسکا مظاہرہ آئے روز فورسز خفیہ اداروں کی وسیع پیمانے پر کی جانے والی کاروائیوں میں دیکھنے کو مل رہا ہے جن میں سینکڑوں بلوچوں کو جبری اغوا نما گرفتار کرکے لاپتہ کردیا گیا ہے۔

ماما نے کہاکہ ابھی چند دن پہلے پے درپے کئے جانے والے آپریشنز میں عام تعلیم یافتہ بلوچ نوجوانوں کو ریاستی حراست میں لیا گیا تھا انہیں اب تک کسی بھی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا ہے، جبکہ دوسری طرف لاپتہ بلوچوں کی تشددزدہ مسخ نعشوں کی برآمدگی کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ اس کے علاوہ فورسز کی کاروئیوں میں عام بلوچوں کی املاک مال مویشیوں کی ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے بڑھتے ہوئے واقعات نے بھی بلوچ سماج کے دکھوں اور صدمات میں بے پناہ اضافہ کردیا ہے۔