تحریر: دیدگ بلوچ
ہمگام آرٹیکلز
“میں اگر انہیں نہیں مارتا تو وہ مجھے یا میرے دوست یا ہم دونوں کو مار دیتے، میں نے سیلف ڈیفنس میں اُن کو مارا ہے اس بات سے یقیناً بے خبر میرا رب بھی نہیں” حمل شہری آبادی سے کوسوں دور بلوچستان کے کسی پہاڑی سلسلے کی چوٹی پر بیٹھا نائیٹ واچ مینی کے ڈیوٹی کے دوران خود سے ہم کلام تھا۔ حمل نے کچھ ہی عرصہ پہلے کسی دوست کے توسط سے مسلح جنگ میں شمولیت اختیار کیا تھا۔ دو دن پہلے حمل اور ایک اور دوست شام کے وقت قریبی دیہات میں واقع دوکان پر کچھ خریدنے گئے تھے لیکن جب دونوں دوکان کے اندر خریداری کر رہے ہوتے تو اسی دوران موٹر سائیکل پر سوار دو فوجی بھی دوکان کی طرف آ رہے ہوتے جن کو دوکان کے اندر موجود حمل اور اسکے دوست کی موجودگی کا پتہ نہیں ہوتا، شاید وہ بھی خریداری کے لیے آ رہے ہوتے۔ لیکن جنہیں دوکان کے قریب آتے دوکان کے دروازے پر پہلے سے الیرٹ کھڑا حمل دیکھ اور پہچان لیتا ہے۔ انہیں دیکھتے ہی حمل ان پر فائر کھول لیتا ہے اور ان پر فائرنگ کرتے دونوں بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ حمل کی فائرنگ سے دونوں فوجی اہلکار اسی وقت موقع پر ہی ہلاک ہوتے ہیں۔
حمل انتہائی حساس نوعیت کا آدمی تھا۔ حمل اپنی عمومی زندگی میں اس قدر نرم اور جزبات سے ہاری بندہ معلوم ہوتا تھا کہ اس کے بیشتر جان پہچان والے اسے ڈرپوک سمجھتے تھے، اور اسکول میں سب سے زیادہ مزاق بھی اسی کا اڑایا جاتا تھا کیونکہ سب کو پتہ ہوتا تھا کہ چھیڑ چھاڑ کرنے اور مزاق اڑانے پر چہرے سے ناپسندیدگی کا اظہار کرنے کے علاوہ وہ کوئی اور ردعمل نہیں دے سکے گا۔ کبھی کبھار وہ خود بھی دل ہی دل میں سوچتا کہ کہیں میں ڈرپوک اور بزدل تو نہیں، اور جب بھی وہ ایسا سوچتا تو اسے نہ چاہتے ہوئے بھی یہ قبول کرنا پڑتا کہ وہ ڈرپوک ہی ہے۔ لیکن جب سے اس نے خود کو عملی طورپر قومی آزادی کے عظیم مقصد و نظریے سے جوڑ کر بندوق اٹھاکر پہاڑوں کا رخ کیا تھا تب سے اس کا اپنے بارے سوچ کافی بدل گیا تھا۔ آج وہ خود سے مخاطب تھا اور سوال کر رہا تھا: “اگر میں بزدل ہوتا تو کیا میں دو مسلح فوجیوں کو مار سکتا تھا؟ اگر میں بزدل ہوتا تو کیا میں اس تباہ کن راستے کا بنا کسی زور زبردستی اپنی مرضی سے حصہ بنتا؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر میں بزدل ہی تھا تو میرا دوست دیدار مجھے اپنے ساتھ کیوں پہاڑوں پر لے آتا؟ دیدار تو مجھے بچپن سے جانتا ہے، اسے میری ہر کمی کمزوری کا پتہ ہے، اگر میں واقعی ڈرپوک اور بزدل یا کسی بھی حوالے سے کمزور ہوتا تو دیدار مجھے اپنے ساتھ رکھنے کا رسک کیوں لیتا؟ دیدار تو بہت عرصہ ہوا ہے اس میدان میں برسرپیکار ہے اس نے اچھے اچھوں کو جھکتے دیکھا ہے ایسے میں اس نے مجھے میرے کہنے پر اپنے ساتھ لے جانے کی حامی کیسے بلا جھجھک بھری۔ ان سوالوں کا بہتر جواب دیدار ہی دے سکتا ہے لہذا کل میں کوشش کروں گا دیدار سے ہی ان کا جواب معلوم کر لوں۔”
اگلے دن کیمپ سے تھوڑے ہی فاصلے پر دیدار کو اکیلا کتاب پڑھتے پاکر حمل موقعے سے فائدہ اٹھانے کی نیت سے اس کے پاس جاکر بیٹھ جاتا ہے اور سائیڈ کے جیب سے موبائل نکال کر اسے ٹٹولنا شروع کرتا ہے جبکہ دیدار ادھر ادھر دیکھے بغیر کتاب کا مطالعہ جاری رکھا ہوتا ہے۔
“دیدار آپ سے کچھ پوچھنا ہے” حمل موبائل دوبارہ جیب میں ڈالتے ہوئے دیدار کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا ہے۔
“پوچھیے کیا پوچھنا ہے؟ دیدار کتاب پر انکھیں پہلے کی طرح اٹکائے حمل سے بولتا ہے۔
“بھلا آپ سے بھی کوئی بہتر میری کمی کمزوریوں اور بزدلی کے بارے میں جانتا ہے؟ پھر بھی آپ نے مجھے اپنے ساتھ رکھنے کا فیصلہ بنا سوچے سمجھے کر لیا تھا، اس کی وجہ؟” حمل دیدار سے پوچھتا ہے۔
“آپ کو کس نے کہا ہے آپ بزدل ہو؟ کیا میں نے کبھی آپ کو بزدل کہا ہے؟ یا پھر میری کسی بات سے آپ کو کبھی ایسا تاثر ملا ہے؟” بچپن کے بارے کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن مجھے یاد نہیں میں نے کبھی آپ کو بزدل کہا ہو” دیدار کتاب گودھ میں رکھ کر حمل کی طرف دیکھتے ہوئے اس سے استفسار کرتا ہے۔
“نہیں نہیں آپ کی بات نہیں کر رہا، لیکن آپ نے ان لوگوں کو تو دیکھا ہوگا جو میرے بارے ایسی رائے کا برملا اظہار کرتے تھے۔ یقین کریں کبھی کبھار تو دل ہی دل میں میں بھی اپنی بزدلی کو قبول کرتا تھا البتہ ظاہری طورپر اسے ماننے سے کتنا ہی انکاری کیوں نا دکھائی دیتا”
“ظاہری طورپر آپ کب اس سے انکاری دکھائی دیے ویسے؟ آپ کی ظاہر سے ہی کچھ لوگ آپ کو ایسا سمجھتے تھے” دیدار ہلکی مسکراہٹ سے اس سے کہتا ہے اور پھر روکے بغیر سنجیدگی سے بولتا ہے: ،دیکھ حمل یار، میں کوئی فلاسفر تو نہیں کہ بزدلی اور کمزوری کا کوئی فلسفیانہ تعارف آپ کے سامنے رکھ لوں لیکن میرے خیال سے اصل میں کمزور آپ تب ہوتے جب آپ میں سچائی کے ساتھ کھڑا ہونے کی جرات نہ ہوتی، غلامی کا احساس نہ ہوتا اور اگر احساس ہوتا بھی تو اس کے ہونے کے باوجود بے بسی سے دوسروں کی طرح غلامی کو جھیلتے، اس کے خلاف اٹھ کھڑے نہیں ہوتے، اسے اٹل ہونے یا نصیب میں لکھا سمجھنے کی حماقت میں مبتلا ہوتے، اور ٹھیک اسی طرح بزدل بھی آپ تب ہوتے جب آپ میں غلامی کے خلاف اپنے سے کئی گنا زیادہ طاقتور دشمن سے لڑنے کا ارادہ و جزبہ نہ ہوتا۔ جو لوگ آپ کو بزدل اور ڈرپوک خیال کرتے تھے وہ آج کدھر ہیں کیا کر رہے ہیں اور آپ کدھر ہو اور کیا کر رہے ہو؟ کیا اب بھی آپ کو لگتا ہے وہ صیحح کہتے تھے؟ اور جہاں تک بات آپ کو قبول کرنے کی ہے تو آپ کو اس حقیقت کا علم ہونا چاہیے کہ آپ جیسے دوست گوریلا جنگ میں بہت ہی اہم ہوتے ہیں خاص کر شہری کاموں کو سرانجام دینے اور شہری نیٹ ورکوں کی مضبوطی میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ آپ کے علاقے میں آپ کے جان پہچان والوں میں آپ کی پہچان ایک بزدل اور ڈرپوک کی ہے اور ایسے میں کبھی کوئی گمان بھی نہیں کر سکتا ہے کہ آپ اس تباہ کن جنگ کا کسی طور حصہ ہو۔ یہ ایک گوریلا اور اس سے جڑے اس کے نزدیکی دوستوں کے لیے بہت بڑی چیز ہے۔”
“دیدار یار وہ تو ٹھیک ہے میں سمجھ گیا لیکن یار آپ کو بھی پتہ ہے آپ سے میری کوئی بات پوشیدہ نہیں آپ میرے بچپن کے دوست ہو میں آپ کو اپنا سب سے بااعتماد ساتھی تصور کرتا ہوں لہذا یہ باتیں کسی اور دوست کے سامنے شاید نہیں رکھ سکوں لیکن آپ کے سامنے رکھنے میں مجھے کوئی ہچکچاہٹ نہیں۔ دو دن پہلے میرے ہاتھ سے جو دو فوجی مارے گئے تھے اس کے بعد سے مجھے عجیب وغریب وہم وگمانوں نے گھیرا ہے۔ مجھے پتہ ہے یہ بندوق ہم نے مارنے کے لیے ہی اٹھا رکھے ہیں شوق میں نہیں لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے ترس کیوں آ رہا ہے کیا آپ میری اس کمزوری کو بھی جسٹیفائی کر سکو گے؟ کیا یہ ایک انتہائی خطرناک کمزوری نہیں ہے؟ جن کو مارنے پر باحیثیت ایک آزادی پسند سپاہی مجھے فخر کرنا چاہیے میں انہیں مارنے پر نڈھال ہوں، مجھے لگتا ہے میں دنیا میں اپنی نوعیت کا پہلا جنگجو ہوں جو اپنے دشمن کے نقصان پر خوش ہونے سے زیادہ دکھی ہے۔ اپنے دشمن پر ترس کھانا آپ کو نہیں لگتا ہے ایک سپاہی کے لیے بہت ہی خطرناک ہے؟” حمل نے بلاآخر اپنی دل کی وہ بات دیدار کے سامنے رکھ ہی لیا جو اسے پچھلے دو دنوں سے اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا۔
دیدار حمل کو سننے کے بعد تھوڑا خاموش رہا، کچھ سوچنے کے بعد بولنے لگا: “زاتی طورپر مجھے بھی لگتا ہے ہمیں اپنے دشمن پر ترس نہیں کھانا چاہیے۔ یہ ہمارے حوصلوں کو کمزور کرے گی۔ لیکن اگر دوسری طرف دیکھیں تو ہم بنیادی طورپر انسان ہی ہیں۔ احساس، جزبات، خصلت وغیرہ انسانی ہی رکھتے ہیں۔ ہم کوئی پیشہ ور قاتل نہیں بلکہ بریک بینی سے دیکھیں تو ہم بنیادی طورپر انسانیت کی جنگ ہی لڑ رہے ہیں۔ بحیثیت سپاہی دوران جنگ آپ کے دل میں دشمن کے لیے رحم نہیں ہونا چاہیے۔لیکن جو بھی ہو ہیں تو ہم انسان ہی۔ ہمارا دشمن یا ہمارے مخالف یا پھر دنیا ہمیں اگر انسان نہیں سمجھتا وہ الگ بات ہے لیکن اگر ہمارا دشمن اپنی ناقابلِ بیان ظلم و جبر کے باوجود انسان کے مرتبے پر فائز ہو سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں؟ ہم نے تو ان کی طرح کسی پر قبضہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی ان کی طرح اس قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے ہر طرح کی غیرانسانی سلوک کو قابلِ قبول سمجھ رکھا ہے۔ ہمارا جنگ بنیادی طورپر قبضے کے خلاف ایک فطری ردعمل ہے۔ دیکھ حمل، کوئی کچھ بھی کہے یہ میں بھی جانتا ہوں اور آپ بھی اچھی طرح جانتے ہو کہ ہم اپنے دشمن سے زیادہ انسان ہیں، دشمن کی اصلیت ہمارے سامنے ہے۔ اگر دشمن کا کوئی ہمنوا یا باقی دنیا اس کی اصلیت سے انکاری ہوتا ہے تو یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہم اس میں کچھ نہیں کر سکتے ہیں ہر کسی کی اپنی ضرورتیں اور مجبوریاں ہوں گی۔ حمل جان، انسان جہاں سے بھی ہو، جس بھی زبان بولتا ہو، جس بھی نسل سے ہو اور جس بھی مذہب کا ماننے والا ہو، ہمیں اس سے ہمدردی ہے، ہم کوئی پیشہ ور قاتل نہیں ہیں۔ ہم یہ جنگ بحالت مجبوری لڑ رہے ہیں جنگ کی اصلیت اور نتائج سے ہم بے خبر نہیں۔ ہم پر کسی نے باہر سے آکر جبری طورپر قبضہ کر رکھا ہے، ہمارے وسائل کو ہماری منشا کے بغیر لوٹ رہا ہے، قبضے کی وجہ سے ہمارا قومی شناخت خطرے میں ہے، پرامن مزاحمت کی راہیں بزور طاقت بند کردی گئی ہیں، ایسے میں آخری راستہ بندوق کا ہی بچا ہے جسے ہم نے بحالت مجبوری اختیار کرلیا ہے۔
دیدار بول رہا ہوتا ہے اتنے میں ایک اور دوست پہنچ جاتا ہے اور کھڑے کھڑے دیدار سے مخاطب ہوکر کہتا ہے: “کل فوج نے سنگت شکور کے گھر پر چھاپہ مار کر اس کے دو بھائیوں اور والد کو جبری طورپر اغوا کرکے اپنے ساتھ لے گئے تھے اور آج سنگت کو پیغام بھیج دیا گیا ہے کہ آکر سرینڈر کریں ورنہ تمہارے والد اور بھائیوں کو مار دیں گے۔ سنگت ظہور کا مثال دیتے ہوئے شکور سے کہا گیا ہے کہ اگر آپ اپنے علاقے سے تعلق رکھنے والے ظہور کی طرح ہٹ دھرمی پر اتر آئے اور سرینڈر نہیں کیا تو آپ کو اچھی طرح پتہ ہے ہم نے اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا تھا۔ لیکن سنگت شکور نے انہیں صاف بول دیا ہے میں سرینڈر نہیں کروں گا جو کرنا ہے کر لو۔”
دیدار یہ سب سننے کے بعد کچھ نہیں بولتا ہے، خاموشی سے سنگت کی طرف دیکھتا ہے، چھوٹے وقفے کے بعد حمل کی طرف دیکھتے ہوئے بولتا ہے: “سنگت شکور کے والد اور بھائیوں کا اس جنگ سے کوئی لینا دینا نہیں تھا حتیٰ کہ وہ تو شکور کے جنگ لڑنے والے فیصلے سے خوش نہیں تھے ان کا خیال تھا ریاست سے لڑنا بے کار ہے پہاڑ سے ٹکرانے کے برابر ہے اس لیے شکور سے انہوں نے رابطہ بھی بلکل منقطع کر رکھا تھا۔ یہ بات دشمن کو سنگت شکور کے بارے معلومات دینے والوں اور خود دشمن کو بھی اچھی طرح پتہ ہے لیکن پھر بھی ترس نہیں کھاتا اور ہم ہیں کہ اس پر ترس کھاتے ہیں۔” پھر مصنوعی مگر بامعنی مسکراہٹ چہرے پر لاتے ہوئے بولا: “اور ظلم دیکھیں پاکستانی فوج کے مقابلے میں دنیا کے سامنے دہشت گرد، ظالم اور جابر بھی ہم ہی ہیں۔”