تحریر: نور احمد ساجدی
قوم کے بیشتر لوگ خود کو تعلیم اور شعور یافتہ سمجھ کر دوسروں کی کردار کشی اور الزام تراشی پر لگے ہیں، لیکن بدبختی سے انہیں یہ علم نہیں کہ انکے اپنی ہی گھر جل کر راکھ میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ اکثر زیادہ تر نوجوان اپنی زاتی نمود و نمائش کیلئے کسی بھی نا انصافی کو سامنے لے کر دوسروں پر خوب تنقید کرتے ہیں لیکن جب اپنی باری آتی ہے تو ہم اس بات کو ہرگز برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے ہیں کہ کوئی ہم پر تنقید برائے اصلاح کرے، دراصل اس بارے میں ایک کتاب لکھا تھا کہ سب سے پہلے اپنے آپ کو بدلو تب آپ معاشرے کو بدل سکتے ہو۔ لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو ہم اس چیز سے کوسوں دور ہیں، ہم صرف لفاظی طور پر یہ دعویٰ کرتے ہیں لیکن عملی طور پر ہماری سوچ اب بھی اپاہج ہے، ہماری سوچ میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں، ہمیں تنقید کے بارے میں کوئی علم نہیں، معاشرہ کے ہر مسئلے کا زمہ دار پورا معاشرہ ہے اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ معاشرے میں بسنے والے ہر فرد کا یہ زمہ داری بنتا ہے کہ معاشرے میں ہونے والی انصافیوں کے خلاف آواز اٹھائیں، چاہے ان مسائل میں ہمارے گھر والے ملوث ہی کیوں نہ ہوں، اسکے علاوہ ہماری سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم باہر کے لوگوں کو جلد تسلیم کرتے ہیں، لیکن اپنے قوم کے لوگوں کو کبھی تسلیم نہیں کرتے، اگر اپنے لوگ کوئی اچھا راستہ دکھانے یاکہ کوئی نصیحت کرنے کی کوشش کرے تو ہم پوراََ ان کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگتے ہیں۔
بد قسمتی سے جو لوگ خود کو شعور یافتہ سمجھتے ہیں، یہی لوگ انہی مرض کا شکار ہیں، کیونکہ انہوں نے خود کو عقل کل سمجھ کر کسی بھی قسم کی مثبت سوچ اور تبدیلی کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے ہیں۔ معاشرے میں ہونے والی نا انصافیوں، لیڈرز کی غلطیوں اور دیگر اہم موضوعات جن کا براہ راست تعلق معاشرے کے مسائل ہر ہوں تو ان پر لکھاری ہزار بار سوچ رہا ہوتا ہے کہ لکھوں یا کہ خاموش رہوں، اگر لکھوں تو کیا لکھوں۔ کیونکہ وہ بھی کسی نہ کسی طرح ڈر رہا ہوتا ہے کہ کہیں ان کو تنقید کا سامنا کرنا نہ پڑے، اس معاشرے کے مسائل پر لکھنا بھی اپنے پاؤں پر کلھاڈی مارنے کے مترادف ہے۔ لیکن اجتماعی اور قومی سطح پر دیکھا جائے تو معاشرے میں رہنے والے ہر فرد ظلم و ستم سہہ رہا ہے۔ کیونکہ غلام قوم کے اندر ان تمام مسائل کو تقدیر اور قسمت سمجھ کر خاموشی اختیار کرتے ہیں کہ جی ہماری قسمت میں یہی لکھا ہے۔
یہاں کی نفسیات ایسی ہے کہ ہم میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ہی باقی نہیں رہی اور ایک غلام معاشرے میں رہتے ہوئے ان ساری چیزوں کو ہم بغیر سوچے سمجھے ماننے کو تیار ہیں کیونکہ ہم زہنی طور پر غلام بن چکے ہیں، اس پر دانشور کہتے ہیں کہ جس نے سوال نہیں کیا وہ زوال ہوا۔ ہر بات اور فیصلے کو بِنا تحقیق کے قبول نہیں کیا جاتا ہے کیونکہ اس طرح کے فیصلے جو بغیر سوچے سمجھے کئے جاتے ہیں تو اس طرح کے فیصلے بعد میں نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں اور یہی فیصلے قوم کے نوجوانوں کو زوال کی طرف لے جاتے ہیں۔ ہر کسی کو عقل کل سمجھ کر اندھا بھروسہ کرنے سے گریز کریں، خود سے سوال پوچھیں، خودتنقیدی کے عمل سے گزریں، اپنے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو بڑھادیں، تو ان تمام معاملات ہمارے سمجھ میں آنا شروع ہوجاتے ہیں، تب جاکر ان تمام مسائل کے حل کیلئے ہمارے پاس راستے نکلنا شروع ہو جاتے ہیں۔