تحریر۔ ایم – آر بلوچ
*روزمرہ* کی زندگی میں اپنی بات ایک دوسرے تک پہنچانے کےلیے مختلف ذرائع یا میڈیم کا استعمال کیا جاتا ہے جو میڈیا کہلاتے ہیں اور اسکو انفارمیشن سٹور کرنے کا ذریعہ بھی کہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں معلومات کا ذخیرہ کرنے یا بات چیت کو وسیع پیمانے پر پھیلانے یا منتقل کرنے کے عمل کو میڈیا کہا جاتا ہے۔
میڈیا ایک ایسا چینل ہے جس کے ذریعے ہم کمیونیکیٹ کرسکتے ہیں انٹرٹینمنٹ یعنی تفریح کرسکتے ہیں یاانفارمیشن جمع کر سکتے ہیں۔
بعض اوقات ہم ماس میڈیا یا لوکل میڈیا کا نام سنتے ہیں، ماس میڈیا سے مراد ایسے چینلز ہیں جو ایک بڑے پیمانے پر لوگوں تک پیغام رسانی کا ذریعہ بنتے ہیں، مثلاً ٹی وی اور ریڈیو وغیرہ اور لوکل میڈیا کسی خاص علاقے کے لوگوں کے لیے ہوتا ہے لوکل اخبار، میگزین اور لوکل سوشل میڈیا چینلز وغیرہ اسکی مثالیں ہیں۔
عام طور پر میڈیا کی دو اقسام ہوتی ہیں الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا
آج سے تقریبا 20 سال پہلے پرنٹ میڈیا کا پیغام رسانی میں اہم کردار رہا ہےاور آج بھی کسی حد تک ہے۔یہ میڈیا کی بہت اہم اور پرانی قسم ہے کتابیں اخبار میگزین رسالے پمفلٹ اور کتا بچے وغیرہ اس کی اہم مثالیں ہیں۔
معاشی سیاسی اور جیوگرافیکل انقلاب میں پرنٹ میڈیا نے اہم کردار ادا کیا ہے اور سامراج نے ہمیشہ اس پر قدغن لگانے اور مسخ کرنے کی کوشش کی ہے چاہے وہ ہٹلر کی شکل میں ہو یا پھر پاکستانی سامراج کی شکل میں۔ جب بنگلہ دیش میں آزادی کی لہر اٹھی تو بنگالی نوجوانوں کے پاس تمام ممنوعہ کتابیں اور مواد وغیرہ پر پابندی عائد کی گئی (چونکہ کتابوں پر پابندی تو نہیں ہوتی لیکن ایسی کتابیں جنہیں سامراج اپنے لئے وبال جان سمجھتی ہے ان پر پابندی لگاتی ہے) تو بنگلہ دیش میں بھی یہی ہوا اسی طرح جب بلوچستان (مادر وطن) میں یوسف عزیز مگسی نے شمس گردی اور فریاد بلوچستان کے نام سے پمفلٹ اور کالم لکھے تو اس کے بدلے میں ان کو بھی جیل کاٹنی پڑی۔
اور جب ہم ماضی قریب کی بات کرتے ہیں تو ہمیں بی ایس او آزاد کے چیئرپرسن بانک کریمہ بلوچ کی باتیں یاد آتی ہیں جو یہ کہتی ہوئی نظر آتی ہے کہ بی ایس او آزاد کے لٹریچر وغیرہ کو جلایا جا رہا ہے اور آج بھی بی ایس او کی لٹریچر پر پابندی عائد ہے۔
دوسری قسم الیکٹرانک یا براڈکاسٹنگ میڈیا ہے جس کی مثالیں ٹی وی ریڈیو کمپیوٹر موبائل وغیرہ ہیں اس کی بھی پھر دو اقسام ہوتی ہیں ایک مین اسٹریم میڈیا اور دوسرا سوشل میڈیا، مین سٹریم میڈیا کی بلوچ کی زندگی میں کوئی اہمیت نہیں کیونکہ وہ ریاست کے کنٹرول میں ہوتی ہے وہ جس طرح چاہے نازیوں کی طرح پروپیگنڈے پھیلاتا رہے اور رہی بات سوشل میڈیا کی تو کتابوں ،رسالے اور کتابچے وغیرہ کے بعد سوشل میڈیا نے بلوچ اور بلوچوں کی تحریک (پیغام) کو اپنے بلوچوں کے بعد دنیا تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔
تو آج ہم سوشل میڈیا کے سائٹس اور ان کے استعمال کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کون سے سائٹس یا ایپس جو جہدکاروں کی پیغام رسانی کے لیے مفید ہیں بدقسمتی سے ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں بھی ہم اور ہمارے نوجوان سوشل میڈیا کے صحیح استعمال سے ناواقف ہیں اور وہ یہ نہیں جانتے کہ کون سے سائیٹس پیغام رسانی کے لیے کس حد تک محفوظ ہیں یا ہوسکتےہیں ۔
سوشل میڈیا استعمال کرنے والے صارفین اکثر موبائل یا لیپ ٹاپ کا استعمال کرتے ہیں ان کو سب سے پہلے اپنے ڈیوائس کا آئی ایم ای آئی نمبر محفوظ رکھنا چاہیے اگر یہ محفوظ نہیں رہا تو ڈیوائس کا ڈیٹا محفوظ نہیں رہتا۔
پیغام رسانی کےلیے اکثر کچھ ایپس استعمال کیےجاتے ہیں جن میں کچھ محفوظ اور کچھ غیر محفوظ ہوتے ہیں اور ہم ان سے لاعلم ہوتے ہیں ان میں چند ایک کا ذکر نیچے کیا جارہا ہے۔جن میں ٹویٹر ، وٹس اپ ، سگنل ، ٹیلیگرام وغیرہ شامل ہیں۔
سوشل میڈیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونےوالا ایپلیکیشن ٹویٹر ہے جو پیغام رسانی کا اہم ذریعہ ہے لیکن اس میں یوزرز کا ڈیٹا بلکل بھی محفوظ نہیں ۔ پچھلے سال ستمبر میں ٹویٹر کمپنی مالک نے اس بات کا اعتراف کیا اور معافی بھی مانگ لی کہ ٹوئٹر صارفین کا ڈیٹا مطلب ای میل ایڈریس اور فون نمبرز کو کسی تھرڈ پارٹی کے ذریعے غیر ارادی طور پر استعمال کیا گیا، مطلب ٹوئٹر کسی بھی طرح محفوظ نہیں۔ یاد رہے فیس بک اور ٹویٹر پر نظر رکھنے والے اداروں کی وجہ سے دنیا بھر میں پرائیویسی اہم موضوع بن چکا ہے۔
اسی طرح فیس بک ، انسٹاگرام ، گوگل کروم ، ٹک ٹوک، سنیپ چیٹ اور یوٹیوب وغیرہ پیغام رسانی اور پرائیویسی کے معاملے میں خطرناک ترین سائٹس(ایپ) ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب ہم ان میں سے کسی ایک پر بھی کچھ تلاش کرتے ہیں تو دوسرا ایپ اوپن کرتے ہی وہی یا اس سے متعلق چیزیں سامنے آ جاتی ہے تو اس کا مطلب ہے کے ان میں بھی پرائیویسی نہیں، مطلب پرسنل ڈیٹا محفوظ نہیں۔
ٹوئٹر کے بعد وٹس اپ جو اس وقت پیغام رسانی کےلیے اہم ذریعہ ہے اور دنیا میں اک بڑے پیمانے پر اسکو استعمال کیا جاتا ہے ۔لوگ اسمیں اپنا ڈیٹا کو محفوظ سمجھتے ہیں۔لیکن یہ کئی سالوں سے اپنا ڈیٹا فیس بک کے ساتھ شئیر کرتا آرہا ہے یعنی 2014 سے2021 تک واٹس ایپ اور فیس بک کے درمیان ڈیٹا کا تبادلہ ہوتا رہا اور اب بھی تبادلے کا سلسلہ جاری ہے ۔اس میں یونیک ڈیوائس آئی ڈی ،یوزیج، اشتہارات کا ڈیٹا ،فزیکل لوکیشن، فون نمبر ،کانٹیکٹ انفارمیشن اور کانٹیکٹ کی لسٹ ، کون سی ڈیوائس استعمال کرتے ہیں یہ تمام انفارمیشن یہ اکھٹا کرتی ہے۔
لیکن اس معاملے میں وٹس اپ کا کہنا ہے کہ تفصیلات فیس بک سے شیئر نہیں کی جاتی اور نہ ہی ہم صارفین کا شیئر لوکیشن دیکھ سکتے ہیں۔اس کے برعکس
سام موبائل کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ 84 ممالک سے تعلق رکھنے والے 48 کروڑ 70 لاکھ واٹس ایپ صارفین کے فون نمبر پر مبنی ڈیٹابیس ایک ہیکنگ کمیونٹی فورم میں فروخت کے لیے پیش کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ ہیکرز نے ممکنہ طور پر اسکریپنگ نامی طریقہ کار کو استعمال کیا جس کے لیے ویب سائٹس سے ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے۔
مزید بتایا کہ یہ ڈیٹا براہ راست وٹس اپ سے لیک نہیں ہوا بلکہ ہیکرز نے ویب پیجز سے لگ بھگ 50 کروڑ فون نمبروں کو اکٹھا کرکے اس بات کی تصدیق کی کہ یہ وٹس اپ پر استعمال ہورہے ہیں اور پھر ڈیٹابیس کو فروخت کے لیے پیش کردیاگیا۔
سوشل میڈیا کے صرف کچھ سائٹس یا ایپس ہیں جن میں پرائیویسی اور ڈیٹا محفوظ ہونے کی امید لگائی جاسکتی ہے جن میں سے ٹیلی گرام ، سگنل، وائر اور ای میل کے ذریعے پیغام رسانی وغیرہ ۔
ٹیلی گرام ایک ایسا ایپ ہے جس میں پرائیویسی اور ڈیٹا کو محفوظ سمجھا جاتا ہےلیکن وٹس اپ کی طرح یہ بھی نام، فون نمبر، کانٹیکٹس اور یوزر آئی ڈی کے ساتھ آئی پی ایڈریس بھی اکھٹا کرتی ہے سگنل جیسی یوزر ڈیٹا پرائیویسی اور شفافیت اس ایپ میں ممکن نہیں ، ٹیلیگرام میں یہ بھی واضح نہیں کہ سرورز میں جانے کے بعد سار فین کے پیغامات کا کیا ہوتا ہے ٹیلی گرام کے صارفین کا ڈیٹا بھی کئی بار ہیک ہوچکا ہے۔ مارچ 2020 میں چار کروڑ سے زیادہ صارفین کے یوزر آئی ڈیز اور فون نمبر منظرعام پر آئے تھے اس سے قبل 2016 میں ڈیڑھ کروڑ صارفین کا ڈیٹا سامنے آیا تھا۔
اسکے بعد جی میل پیغام رسانی کا اہم ذریعہ ہے،اسکے ذریعے ہونےوالے پیغام رسانی کے عمل کو کسی حد تک محفوظ تصور کیا جاتا ہے ۔ جی میل اسپیم اور خطرناک لنکس کے99.9فیصد کو آپ کے ان باکس میں پہنچنے سے روکتی ہے۔ جب کوئی مشکوک ای میل آتی ہے تو جی میل اس کو کنٹرول میں رکھ کر انفارم کرتی ہے۔بعض اوقات ہم کوئی لنک اوپن کرتے ہیں تو اسکے اوپن ہونے سے پہلے ایک نوٹیفیکیشن آتی ہے کہ یہ ایڈ یا لنک آپ کےلیے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔
جی میل میں پیغامات کو محفوظ رکھنے کے لیے ڈرافٹ باکس کےنام سے ایک باکس موجود ہوتا ہے اس میں پیغام کو محفوظ کرکے اپنے قریبی دوست یا جہد کار (جس تک پیغام پہنچانا مطلوب ہو) کو اپنا جی میل پاسورڈ دے دیاجاتاہے وہ یہ پاسورڈ لگا کر اسکا جی میل اوپن کرکے اپنا پیغام وصول کرتا ہے اور اس کے بعد اس پاسورڈ کو ریسیٹ کیا جاتا ہے۔اکثر بڑے جہد کار اسی طرح پیغام رسانی کرتے ہیں۔
اسکے بعد پیغام رسانی کےلیے جس ایپ کا استعمال کیا جاتا ہے وہ سگنل ہے۔سگنل کو دنیا کا مشہور اور محفوظ ترین ایپ تصور کیا جاتا ہے۔اس کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ صارفین کا ڈیٹا اکھٹا نہیں کرتی اور یہ بہت سے پرائیویسی آپشن بھی فراہم کرتی ہے اس میں مخصوص لاکس ، بلینک، نوٹیفیکیشن پوپ اپ ، چہرہ دھندلانے والے ٹولز اور خودبخود غائب ہوجانےوالے پیغامات وغیرہ جیسی پرائیویسیاں ہوتی ہیں اس ایپ کو ٹیلی گرام سے زیادہ محفوظ تصور کیا جاتا ہے۔
ایک انقلابی کےلیے ان مصنوعی چیزوں پہ یقین کرنا بےوقوفی کےسوا کچھ نہیں ہوگی۔اسلیے ایک جہد کار پیغام رسانی کے معاملے میں جتنا خود کو محفوظ رکھ سکتا ہے خود کو محفوظ رکھے اور ذہن میں یہ بات ضرور رکھنا چاہیے کہ کوئی کتنا ہی محفوظ ایپ کیوں نہ ہو اس پہ بھروسہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ وہ کسی بھی وقت اپنی مفادات کی خاطر اپنی پالیسیاں بدل سکتے ہیں۔
اوپر ڈیٹا جمع(اکھٹا) کرنے کا ذکر کیا گیا ہے جب کسی ایپ میں ڈیٹا اکھٹا ہونے کی گنجائش موجود ہوتو اس میں ڈیٹا یا پرائیویسی لیک ہونے کی بھی گنجائش موجود ہوتی ہیں۔اسلیے اپنے پیغام رسانی کےلیے محفوظ سے محفوظ ترین ذرائع کا انتخاب کریں تاکہ آپ محفوظ رہیں۔کیونکہ آپ ہی اپنے بلوچ راج کی امید ہیں اور اس قومی تحریک کو آپ ہی نے آگے لے کر جانا ہے۔