کوئٹہ ( ہمگام نیوز) وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کوئٹہ پریس کلب کے باہر لگے احتجاجی کیمپ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ لوگوں کے مشکور ہیں کہ آپ صحافی حضرات ہماری پریس کانفرنس کوریج کرنے کے لیے آئے، ہم امید کرتے ہیں کہ آپ لوگ ہماری آواز بنوگے۔

 2015 میں جب میں امریکہ جانے کے لیے کراچی ائیرپورٹ پہنچا تو امیگریشن کے مراحل سے گزار کر لانچ میں جاکر بیٹھا تو وہاں پر وہاں پر ائیرپورٹ انتظامیہ اور دیگر سرکاری اداروں کے اہلکار میرے پاس آکر مجھے سے کہا کہ میرا نام ای سی ایل میں ہے میں امریکہ نہیں جاسکتا تو انہوں نے مجھے امریکہ جانے نہیں دیا پھر میں نے سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی کہ میرے نام کو ای سی ایل سے نکالا جائے تو سندھ ہائی کورٹ سے جواب طلب کیا کہ قدیر بلوچ کا نام کیوں ای سی ایل میں ڈالا گیا ہے تو حکومت سندھ ہائی کورٹ کو مطمئن نہیں کرسکا تو سندھ ہائی کورٹ نے حکومت کو حکم دیا کہ میرا نام ای سی ایل سے نکالا جائے تو میرا نام ای سی ایل سے نکالا گیا۔

 دوسری مرتبہ 2018 میں میرا نام دوبارہ ای سی ایل میں ڈالا گیا تو بلوچستان ہائی کورٹ سے رجوع کیا جہاں پر حکومت معزز عدالت کے سامنے اپنے موقف کا دفاع نہیں کرسکی اور عدلیہ نے میرے حق میں فیصلہ دیا اور میرا نام ای سی ایل سے نکالا گیا۔

 2020 میں تیسری مرتبہ میرا نام ای سی ایل کی لسٹ میں شامل کردیا تو میں پھر بلوچستان ہائی کورٹ سے رجوع کیا تو معزز عدالت نے حکومت سے جواب طلب کی کہ ماما قدیر کا نام کیوں بار بار ای سی ایل میں شامل کیا جارہا ہے تو حکومت نے میرے خلاف مختلف الزامات لگائے 2020ئ سے میرا کیس مئی 2023ئ تک بلوچستان ہائی کورٹ میں چلتا رہا جہاں پر حکومت نے مجھ پر لگائے گئے الزامات ثابت نہیں کرسکا تو بلوچستان ہائی نے 5 مئی 2023 کو میرے حق میں فیصلہ دیا کہ ماما قدیر کا نام ای سی ایل سے نکالا جائے تو میرا نام ای سی ایل سے نکالا گیا۔

مگر پھر چوتھی مرتبہ موجودہ نگراں حکومت نے میرا نام ای سی ایل میں ڈال دیا ہے۔ میں ایک انسانی حقوق کا کارکن ہوں اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے پلیٹ فارم سے 2009 سے پرامن اور ملکی قوانین کے تحت جد و جہد کرتا آرہا ہوں ہماری جدوجہد کا مقصد یہ ہے کہ ملک میں ماورائے آئین اقدامات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا راستہ روکا جائے، آئین کی بالادستی ہو اور ملک کے طاقتور ادارے جو بھی اقدام اٹھائیں وہ ملکی قوانین کے تحت اٹھائے اور کوئی ادارہ اپنے آپ کو ملکی قوانین سے بالاتر نہ سمجھے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ اگر کسی پر کوئی الزام ہے تو انہیں گرفتاری کے بعد 24 گھنٹے کے اندر اندر کسی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جائے۔

لاپتہ افراد کو فوری طور پر منظر عام پر لایا جائے جو مجرم ہے انہیں عدالت کے دریعے سزا دی جائے جو بے قصور ہے انہیں رہا کیا جائے۔ شہریوں کی جبری گمشدگیاں ایک ماورائے آئین اقدام ہے جسکی روک تھام کی جائے جو لاپتہ افراد اس دنیا میں نہیں انکے خاندان کو بتایا جائے، جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو ملکی قوانین کے تحت حل کیا جائے اور جو ملکی ادارے جبری گمشدگیوں میں ملوث ہیں انکے اختیارات کو کم کرنے اور انکے ماورائے آئین اقدامات کے خلاف قانون سازی کی جائے۔

میں نے اپنی جد و جہد کا مقصد آپ لوگوں کے سامنے بیان کیا جس سے آپ لوگ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے پلیٹ فارم سے ہم جو جدوجہد کررہے ہیں وہ ملکی قوانین سے منحرف نہیں بلکہ ملکی قوانین کے تحت ہے پرامن اور آئینی جد و جہد کے باوجود میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ میرا نام کیوں بار بار ای سی ایل میں شامل کیا جاتا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ریاست اور ریاستی ادارے ہماری پرامن اور آئینی جدوجہد سے خائف ہیں، انہیں صرف ڈر یہ ہے کہ ہم تنظیمی سطح پر ریاستی اداروں کے ماورائے آئین اقدامات کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اجاگر کررہے ہیں جس سے انکی بدنامی ہورہی ہے جن کی وجہ سے وہ ہماری تنظیم کے رہنماوں کو مختلف طریقوں سے تنگ کرتے آرہے ہیں اور میرا نام بار بار ای سی ایل میں شامل کرتے آرہے ہیں۔

ہم ریاست اور ریاستی اداروں کو کہنا چاہتے ہیں کہ آپ لوگوں کہ یہ اقدامات ملکی آئین و قانون اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی اور پرامن اور آئینی آوازوں پر قدغن لگانے کے مترادف ہے جسکی ہم شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور ریاست اور ریاستی اداروں پر واضح کرتے ہیں کہ ہم اسطرح کے اقدامات سے اپنے جد و جہد سے دستبردار نہیں ہونگے بلکہ ہم مستقل مزاجی سے اپنا پرامن اور آئینی جد و جہد کو جاری رکھیں گے۔

آخر میں ہم سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت سیاسی پارٹیوں، طلباءتنظیموں، انسانی حقوق کی تنظیموں، صحافی و وکلائ برادری سمیت تمام طبقہ فکر کے لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ریاست اور ریاستی اداروں کے اس ناروا سلوک کے خلاف بھرپور آواز اٹھائے اور ہمیں اور لاپتہ افراد کے حوالے سے ہمارے پرامن و آئینی جد و جہد کو تحفظ فراہم کرے۔