چند ہفتے قبل جب براھمداگ بگٹی نے اپنے دلی خوائش کا اظہار بی بی سی اردو سے کیا اور پاکستان کی غلامی قبول کرنے پر جب مختلف آزادی پسند کارکنان نے براھمداگ کو آئینہ دیکھنا شروع کیا تب سے سوشل میڈیا، اخبارات اور دوسرے جگہ براھمداگ بگٹی کا قبائلی ٹولہ اپنی اپنی طرف سے قوم کے سامنے انٹریو کا الگ الگ سیاق وسباق بیان کر رہا ہے۔ جیسے کہ کسی آسمانی کتاب کی طرح ہم براھمداگ کے اصل الفاظ سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ یہ قبائلی لکھاری کبھی اپنی سیاسی کرتوں کا ملبہ سنگت حیربیار پر ڈالنے کی ناکام کوشش میں لگے ہوے ہیں تو کبھی آزادی کی سوچ پر سمجھوتے کو ایک گہرا فلسفہ قرار دے رہے ہیں . قبائلی وفاداروں کی دانشوری اور ان کے الزامات کو سمجھنے کے لئے موجودہ جد و جہد کی تاریخ کے ساتھ ساتھ ان علمی معلومات کا بھی جائزہ لینا ضروری ہے جن کی بنیاد پر قبائلی لکھاریوں نے یہ مضامین تحریر کیے ہیں، یہاں پر ان لکھاریوں کو قبائلی کہنا اپنے اندر ازخود ایک وجہ رکھتا ہے جس کی وضاحت میں اس مضمون میں کروں گا۔ بی آر پی کے قیام سے لیکر براھمداگ بگٹی کی آزادی سے دستبرداری کے لئے بہانہ ڈھونڈنے تک ، بہت سے سیاسی واقیا ت ہمارے سامنے سے گزرے ہیں۔ بلوچ قوم کو اچھی ترا یاد ہوگا کہ کس طرح بی آر پی کی وجود پانے کے بعد بلوچ اسٹوڈنٹ ارگنائزیشن کو بی آر پی کا اسٹوڈنٹ ونگ باننے کے لئے سر تھوڑ کوشش کی گئی. اس کے بعد رخ خواتین پینل کی طرف موڑا گیا. دونوں جگہ ناکامی دیکھ کر بی آر پی نے اپنے اسٹوڈنٹ اور خواتین ونگ کا علان کیا. بی این پی کے لئے بی این ایف کو توڑا پھر یو بی اے کے قیام سے لیکر اختر مینگل کی سنگت حیربیار مری کے خلاف سازشوں تک بی آر پی نے ان کی حمایت اور کمک کی، اختر مینگل جیسے پاکستان پرست اور براھمداگ بگٹی کے فکری ہم آہنگی کا اندازہ چند مہینے قبل دی نیوز کے انگلش انڑیوو سے ہی لگایا جاسکتا ہے جہاں براھمداگ بگٹی نے کہا کہ میں اختر مینگل سے اتحاد تو کرسکتا ہوں مگر حیربیار مری سے اتحاد ممکن نہیں . ان تمام واقعات اور برھمداگ بگٹی کے انٹرویو وغیرہ کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بلوچ قومی تحریک اور قوم کو بی آر پی کی لیڈرشپ نے ہمیشہ قبیلہ پرستی کا چشمہ لگا کر دیکھا ہے وہ قوم کو اپنے قبائلی گروہ سمجھتے رئے جہاں قوم سے ہر لفظ پر لبیک کی امید کی گئی۔ براھمداگ کی گرو ہی سوچ اور پالیسی کے آگے روکاوٹ سنگت حیربیار مری تھے اسی لئے تمام محاذ پر ان کے خلاف براھمداگ اور ان کے پارٹی کے کچھ لوگ دانستہ طور پر کام کرتے رہے. بی آر پی کے سادہ لوح اور سادہ مزاج کارکنان ہمیشہ گروہ پرست پارٹی پالیسی کو اس لئے نظر انداز کرتے رہے کیوں کہ ان کو پارٹی لیڈرشپ پر بھروسا اور اعتماد تھا لیکن بقول ابراہیم لنکن ’’ آپ سارے لوگوں کو کچھ عرصے کے لئے بیوقوف بنا سکتے ہو آپ کچھ لوگوں کو ہم وقت بیوقوف بنا سکتے ہو ، مگر تمام لوگوں کو تمام وقت بیوقوف بنانا ممکن نہیں ‘‘ بی بی سی انٹرویو کے بعد براھمداگ سے منسلک لکھاریوں نے زیادہ کوشش کی کے کسی نہ کسی طرح قوم کو یہ باور کرایا جاسکے کہ براھمداگ کا آزادی سے دستبرداری سمجھوتا نہیں بلکہ ایک منفرد حکمت عملی ہے. بیشک جنگ کے دوران ایسے وقت اور حالات بھی قوموں کے سامنے آتے ہیں کہ ان کو مذاکرات کے ٹیبل پر قابض کے ساتھ بیٹھنا پڑتا ہے لیکن تمام جد وجہدوں کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ مذاکرات کے دروان بنیادی نکتہ جس کی بنیاد پر جدوجہد شروع ہوئی ہو پر کسی قیمت کمپرومائز نہیں کیا جا سکتا ہے دوسری طرف براھمداگ بگٹی نے اس کا الٹ کیا ہے۔ براھمداگ کے قبائلی لکھاری شاہنواز بگٹی براھمداگ بگٹی کے دفاع میں لکھے ہوے آرٹیکل میں دعوی بے دلیل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’’ بطور ایک سیاسی رہنما کہ وہ پْرامن مزاکرات کے زریعے ہی ہر مسائل کا حل چاہیں گے اور میرے نزدیک بلوچستان میں تمام لوگ یہی چاہیں گے کہ بنا کسی خون خرابے کے مسئلہ حل ہو جیسا فرانس میں French Revolution آیا جسے Bloodless revolution بھی کہا جاتا ہے جس میں حالات الگ ضرور تھے بلوچ قوم سے مگر پرامن طریقے سے بنا خون کا قطرہ بہے انقلاب آگیا‘‘‘ تاہم براھمداگ کی پالیسی کی دفاع کے لئے شاہنواز بگٹی نے دنیا کی تاریخ ہی تبدیل کردی. درحقیقت فرانسیسی انقلاب ایک خونی انقلاب تھا جس میں بادشاہ سمیت بہت سے لوگوں کا قتل کیا گیا۔ یہ انقلا ب اتنا خونی تھا کہ لوگوں کے سرکاٹنے کے لیے الگ مشین ایجاد کیا گیا تاکہ کم وقت اور موٗثر طریقے سے زیادہ سے زیادو لوگوں کو قتل کیا جاسکے۔ اس انقلاب کو دنیا کا خونی انقلاب کہا جاتا ہے مگر بقول شاہنواز وہاں ایک خون کا قطرہ بھی نہیں بہا اور انقلاب آگیا۔ بلوچ قوم ایک شعور یافتہ قوم ہے آپ کی چٹپٹی تاریخ آپ جیسے رعیت کے لیے حقیقی اور درست ہوسکتی ہے لیکن بلوچ کے لیے اس طرح کے مثال بھونڈے مزاق سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ . جہاں تک آپ کی Bloodless Revolution جسے Glorious Revolution بھی کہا جاتا ہے کا سوال ہے تو یہ انقلاب فرانس میں نہیں بلکہ برطانیہ میں لایا گیا تھا. جہاں پر مذہبی بنیادوں پر اور انگلینڈ کے دشمن فرانس سے قربت کی بنا بادشاہ جیمز کا تختہ الٹا گیا تھا۔ فرنسیسی انقلاب ، انگلینڈ کے انقلاب کے ایک سو ایک سال بعد آیا تھا۔ دنوں انقلابوں کی تاریخ اپنی جگہ مگر میرے خیال سے فرانس اور انگلینڈ کے اس وقت کے حالات کسی بھی طرح بلوچستان کے حالات سے میل نہیں کھاتے کیوں کہ نہ بلوچ کی جدوجہد کسی بادشاہ کا تختہ الٹنے کے لئے ہے نہ ہی بادشاہی نظام کا خاتمہ کرکے عوامی نظام کا نفاذ ہے. بلوچ جدو جہد آزادی کا فطرت انقلابی جد و جہد سے الگ ،یہ جدوجہد ایک آزاد وطن کے حصول کے لیے ہے۔ البتہ ہم فرانسیسی انقلاب سے منسلک نظریہ ریپبلکن ازم پر بحث کرسکتے ہیں جو بی آر پی یعنی بلوچ ریپبلکن پارٹی کا بنیاد ہے.۔ ریپبلکن نظریہ نے قدیم یونان میں جنم لیا لیکن یوروپی تاریخ میں اس کو عملی طور پر روم نے نافذکیا اور اس نظام کو وہیں سے پذیرائی ملی اسی لئے روم کی حکومت کو رومن ریپبلک کہا جاتا رہا ہے مگر جولیس سیزر کے قتل کے بعد رومن ریپبلک کمزور پڑگئی۔ اندرونی خانہ جنگی نے اس کو کمزور کیا اس کے بعد روم کو رومن ریپبلک کے بجائے رومن امپائر کہا جانے لگا۔ ریپبلکن نظام شروع سے بادشاہی نظام سے مختلف تھا اور اگر اس نظام کو بادشاہی نظام کا الٹ کہا جا ئے تو یہ غلط نہیں ہوگا. ریپبلکن نظام پر پندرویں صدی میں نکو لو مکیا ویلی نے رومن نظام کو مدنظر رکھتے ہوے اپنی کتاب Discourses on Livy میں ریپبلیکن نظام کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ وہ اپنی اس کتاب میں ریپبلیکن نظام کو بہتریں نظام حکومت قرار دیتے ہیں۔ قرون وسطی میں جب بھی جموریت یا ریپبلکن نظام کے بارے میں لکھا گیا اس کا مقصد ایسے کسی نظام کے خلاف ہونا تھاجہاں پر کسی کو حکومت کرنے کا حق اس کی صلایتوں کے بجائے پیدائشی حق کے طور پر دیا گیا ہو، پیدائشی حق صرف بادشاہ تک محدود نہیں تھا بلکہ یہ لقب یا ٹا ئیٹل بادشاہ سے لیکر علاقوں کے طاقتور لوگوں کو دیا جاتا اور یہ القاب نسل درنسل ان خاندان کے افراد کو منتقل ہوتے. فرانسیسی انقلاب سے پہلے روسسو نے اپنی کتاب دی سوشل کانڑیکٹ اس نظام کے خلاف لکھی اور کہا کہ دنیا میں تمام انسان برابر ہیں کسی بادشاہ کو یہ حق نہیں کہ پیدائشی طور پر مذہب کے نام پر حکومت کا دعوی کرے اور حق حاکمیت لوگوں کے پاس ہے اسی لئے اگر کوئی بھی حکومت لوگوں کے منشاہ کے خلاف قائم ہو تووہ غیر فطری ہے . انقلاب کے دوران اور بعد، فرانس کو فرنچ ریپبلک بھی اسی لئے کہا جاتا ہے کیوں کہ انقلاب کا مقصد بادشاہی نظام کو ختم کرکے عوامی نظام کا نفاذ تھا . وہ الگ بحث ہے کہ کس طرح فراسیسی انقلاب ناکام ہوا اور نپولین نامی فراسیسی فوجی جنرل اقتدار پر قابض ہوجاتا ہے. ایک طرف ہمارے سامنے ریپبلکن جد وجہد اور نظریات کی تاریخ ہے کہ کس طرح ٹائٹل ، لقب اور حکومت کے پیدائشی حق کے خلاف انقلاب برپا کیا گیا تو دوسری طرف بلوچ ریپبلکن پارٹی ہے جس کا سربرا نوابی ٹائٹل ( جو کہ قبائلی رسم و رواج کے تحت اب تک اسے دیا بھی نہیں گیا )پر کمپرومائز کرنے کو تیار نہیں بلکہ ان کا سیاسی ٹولہ ہر وقت اپنے تحریروں اور بیانوں میں نواب صاحب نواب صاحب کا ورد کرتا دکھائی دیتے ہیں جس کی تازہ جلک قبائلی لکھاریوں کے نئے ناموں سے تحریر شدہ آرٹیکلوں میں واضح ہے. شمبو بلوچ اور پروفیسر ہوت بلوچ جیسے ہزاروں غیر قبائلی نام استعمال کیے جائیں مگر باطن میں چھپا قبائل پرستی اور جی جی حضوری کی فطرت چیخ چیخ کر بول رہی ہے. پروفیسر ھوت نامی شخص اپنے آرٹیکل میں سوال کرتے ہوے پوچھتا ہے کہ ’’ بلوچ آزادی پسند رہنماؤں نواب براہمداغ بگٹی. نواب خیر بخش مری. نواب مہران مری. ڈاکٹر اللہ نظر اور سردار جاوید مینگل سے کیا اختلاف تھے؟‘‘ اب اس سوال میں براھمداگ کو نواب ، مہران کو نواب اور جاوید مینگل کو بہلانے کے لئے سردار کا لقب دینا ازخود قبائلی لکھاریوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ . ریپبلکن ازم اور اس متضاد سوچ جس کو براھمداگ سمیت اس کے قبائلی رعیت آ گے لیکر جارئے ہیں کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ براھمداگ اور ان کا قبائلی ٹولہ خود نہیں جانتا کہ ریپبلکن نظریہ کس طرح وجود میں آیا اور اس کے بنیادی مقاصد کیا ہوتے ہیں۔ اگر اس سیاسی تضاد کو عمیق نگاہی سے دیکھا جائے تو بیشک یہ بی آر پی کے وجود پر ایک سوالیہ نشان ہے کس طرح ریپبلکن کا نام استعمال کرتے ہوے قبائلی ٹائٹل کے لئے جد و جہد کی جاسکتی ہے ؟ اس سوال پر بی آ ر پی کے مخلص کارکنان خود تحقیق اور غورو فکر کریں۔ نیک نیتی سے اگر براھمداگ یہ علم رکھتے کہ ریپبلکن ازم سرداری، نوابی، اور بادشاہی نظام کے خلاف ایک نظریہ ہے تو مجھے یقین ہے وہ اپنی پارٹی کا نام کبھی بھی ریپبلکن نہیں رکھتے کیونکہ ان دل میں ہمیشہ اپنے قبیلے کا نواب بننے کی چاہت رہی ہے۔ شہید اکبر خان بگٹی کی شہادت کے بعد جب براھمداگ کی سیاسی زندگی شروع ہوی تب سے لیکر آج تک ان کا سیاسی کردار پر تضاد ہے۔ اتحاد اور سنگل پارٹی کے نام پر بد ترین پارٹی بازی، خیر بخش مری کے وفات سے پہلے ہر جگہ ان کا نام استعمال کرنا اور وفات کے بعد پاکستان سے مذاکرات کیلئے آزادی کی راہ سے دستبرداری کی خوائش ظاہر کرنا انکی پرتضاد کردار کی فقط چند جلک ہیں۔ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ براھمداگ بگٹی اور ان کا قبائلی لشکر کسی پر بھی تنقید سے پہلے اپنے متضاد کردار پر غورو فکر کریں کیوں کہ کچھ قبائلی وفادار شاہد واضح متنا قض اور متضاد عمل کو دیکھ کر آپ کی پیروکاری کریں لیکن کسی بھی شعور یافتہ بلوچ کے لئے ان متضاد عمل کو دیکھ کر براھمداگ اور پی آر پی کے کردار سے مطمئن ہونا ممکن نہیں ۔