تحریر ۔ نذر بلوچ قلندرانی
ھمگا آرٹیکلز
آج شہید بالاچ مری کا ایک قول مجھے بار بار یاد آرہی ہے کہ قومیں مرنے سے نہیں سر جھکانے سے ختم ہوتی ہیں مجھے اپنے قوم کو آج زوال میں دیکھ کر تاسف ہوتی ہے اور آج میں شہید بالاچ مری کے شہادت کو یاد کر کے اپنے قوم کو بری طرح انتشار کا شکار دیکھا رہا ہوں آج ہم نے اپنے شہداؤں کو بھول کر مصنوعی خداؤں کو گھڑا لیا اور یہ جانتے ہوئے کہ یہ مصنوعی خدا ہمارا نہ تو کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ ہی ہمیں کچھ دے سکتے ہیں اس کے باجو بھی ہم اس کی پوجا میں مست ہیں اور اپنے مصنوعی خدا کی خوشنودی کی خاطر اپنے بھائی کا گلا کاٹنے سے بالکل دریغ نہیں کرتے ہم نے اپنے ہی بھائی کو غلام بنا رکھا ہے ہمیں اپنے بھائیوں سے اعتماد اٹھ گیا ہے اور اب غیروں سے وفا کرنے کی امید خام لیے پھرتے ہیں
حالانکہ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ مفاد پرست لوگ کسی کا دوست نہیں ہوتے پھر بھی ہم منافق کی دوستی پر فخر محسوس کرتے ہیں اگر آج ہم اپنے قوم کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ہماری سب سے بڑی خرابی جس کو ہم اپنے خوابی تصور کرتے ہیں وہ عدل و انصاف سے انحراف ہے اور ہم اس بات کے لئے کوشاں ہیں کہ کس طرح کسی کا حق پر ڈاکہ ڈالا جائے۔؟ کسی کے حقوق کو کس طرح چھینا جائے؟ اور کس طرح اپنی حکومت اور شان و شوکت میں اضافہ کیا جائے؟ ہمیں اس بات کا بلکل احساس نہیں کہ ہم پر اپنے ہمسائے کے کیا حقوق ہیں؟ اگر میں حاکم ہو تو میری رعایا مجھ سے کس بات کی توقع کرتی ہے، بلکل ہم تو اپنی رعایا کو ذر خرید غلام سے بھی کم تر تصور کرتے ہیں اصل میں اسی ہوس اقتدار اور احساس ذمہ داری کے فقدان نے میرے قوم کو تباہ و برباد کردیا،
سنگت بالاچ مری بدقسمتی سے آج ہمارے درمیان نہیں ہے کیونکہ زندگی اور موت کا فطری وابسطہ کسی بھی طاقتور یا کمزور کی خواہش کے مطابق تکمیل پزیر نہیں ہوتا، اس کی بہت سے وجوہات ہوتی ہیں جن میں کچھ حادثاتی، کچھ طبعی اور کچھ سوچ و فکر کے برعکس، تضادات اور حق و باطل کے بیچ پیدا ہونے والے حالات میں اپنے لیے آپ تعین کرنے سے متعلق رکھتے ہیں یہاں منتخب راہ پر انجام کا یقین پختہ ہوتا ہے،
مجھے اور میرے جیسے لاکھوں بلوچ فرزندوں کو شہید بالاچ مری کی شہادت پر فخر ہے، شہید نواب بالاچ مری کی وہ تاریخی الفاظ آج بھی ہمارے دلوں میں راج کرتیں ہیں کہ اگر ہم تربیت یافتہ تعداد میں کم ساتھیوں کے ساتھ جذبے کے ساتھ باطل کے خلاف میدان میں اترے تو ہم نظام کو بدل سکتے ہیں ہم ضرور بدلیں گے اور ہم نے ہی بدلنا ہے چاہیے ہمارے جان جائے، گھر، بچے، خاندان، عیش و آرام سب کچھ قربان کرکے اگر ہم کامیاب نہیں ہوئے تو بھی پرواہ نہیں کیونکہ ہم اپنے ائندہ آنے والی نسلوں کے لئے وہ راہ نجات واضح کر کے جا رہے ہیں اور تاریخ میں اپنے فرض کی بابت کسی بھی خوف و لاچ میں آئے بغیر اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے شہداء اور اکابرین کے نقش قدم چل کر سرخرو ہونگے، مگر آج ہم نے یہ شان و شوکت ہستیاں گنوادی ہیں، آج ہم نے جو اپنے حکمران مسلط کر رکھے ہیں انہیں ہمارے مطلق خبر تک نہیں وہ اپنی قوت، مادی حیثیت اور ظاہری رکھ رکھاؤ کو بلند کرنے میں مگن رہتے ہیں ۔