تحریر ـ مالک بلوچ
ھمگام آرٹیکلز
جب زبان کی اہمیت و افادیت کو دیکھا جائے تو زبان کے بارے میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ زبان قوموں کی شناخت ہوتی ہے، جسطرح ہر ایک قوم کی اپنی ثقافت، تہذیب، رسم ورواج ہوتی ہے، اسی طرح ایک قوم کی تشکیل کیلئے زبان کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، البتہ ایک قوم کے اندر ایک سے زبانیں بولی جاسکتی ہیں۔
زبان کی ترقی و ترویج تب ممکن ہے جب قوم کے لوگ اپنی زبان میں پڑھیں، لکھیں اور بولیں۔ جب قوم کی وجود اور شناخت کو تحفظ دینا ہے تو زمین، تہزیب و ثقافت، رسم و رواج، کے ساتھ ساتھ زبان کی ترقی اور ترویج ضروری ہے اور اس قوم کے وارثوں کو تاحیات اپنی مادری زبان کی پاسداری کرنی ہے۔
ایک ریسرچ کے مطابق دنیا میں سات ہزار سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں، اور دنیا کے ان سات ہزار زبانوں میں سے ایک زبان بلوچی بھی ہے، جسکا آکسفورڈ ڈکشنری میں بھی ذکر کیا گیا ہے کہ بلوچی زبان چند ممالک میں استعمال ہو رہا ہے ان ممالک میں سے بلوچستان ،ایران اور عرب ممالک بھی شامل ہیں جہاں بلوچ قوم کی بڑی تعداد آباد ہے ان ممالک میں بلوچی اور برواہوئی زبان کثیر تعداد میں استعمال ہوتا ہے۔ زبان کا تحفظ قوم کی تحفظ ہے، جب زبان ذندہ و حیات ہوتا ہے تو قوم تاحیات ذندہ ہوگا۔ کیونکہ زبان قوموں کی پہچان اور
شناخت کی مانند ہوتی ہے۔
بلوچی زبان کے بارے میں مطالعہ کریں تو آج بلوچی زبان کو سرکاری سطح پر اتنی اہمیت نہیں دی گئی ہے، تعلیمی اداروں میں بھی بلوچی زبان کو نہیں پڑھایا جاتا ہے۔ لیکن بلوچ قوم کے نوجوان اب اپنی زبان کی ترویج کیلئے کام کر رہے ہیں، اگر تاریخ میں دیکھا جائے تو بلوچی زبان کی ترویج کیلئے سب سے زیادہ جس شخص نے محنت کی ہے، جس نے اپنی ساری زندگی بلوچی زبان کے لیے وقف کیا گیا تھا۔ وہ شخص بلوچی زبان کے مشہور و معروف لکھاری (نبشتہ کار ) واجہ سید ظہور شاہ ھاشمی ہے جس کی کوشش رہی ہے کہ دنیا میں بلوچی زبان کی وجود تاحیات قائم رہے۔ سید کی جدوجہد اور محنت کی بدولت بلوچی زبان میں ڈکشنری ”سید گنج“ لکھی گئی ہے جن میں بلوچی زبان کے ہزاروں لاکھوں الفاظ محفوظ ہیں۔
آج کے سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل دور میں زبان کی ترویج آسان ہے، اسی طرح آج ان کی وجہ سے بلوچی زبان کی کافی ترویج ہورہی ہے، بلوچی زبان پر زیادہ سے زیادہ کام ہو رہا ہے، جوکہ یہ ہماری لئے خوشی کی بات ہے کہ بلوچ نوجوان اپنی مادری زبان میں لکھتے اور پڑھتے ہیں، بحیثیت ایک قوم ہمیں اپنے مادری زبان کی اہمیت کا ادراک رکھنا چاہئے اور بلوچی و براہوئی زبان کی ترویج کو اپنے اولین ترجیحات پر رکھنا چاہئے تاکہ ہمارے آنے والے نسل اسی طرح اپنی پہچان کو برقرار رکھ سکیں۔
زبان کی ترقی و ترویج کیلئے ہر ایک بلوچ فرزند پر یہ فرض بنتا ہے کہ کسی بھی ادارے میں جہاں کہیں زیر تعلیم ہے یا کہ تعلیمی ادارے سے فارغ ہے تو وہ بلوچی زبان کی ترویج کو اپنی زمہ داری سمجھ لے، بلوچی زبان کو پڑھے اور بلوچی زبان میں لکھے، تاکہ بلوچی زبان کی وجود تاحیات قائم و دائم رہے۔
بلوچی و براہوئی زبان بلوچ قوم کی پہچان ہیں سلامت رہیں بلوچ قومی زبانیں۔