تحریر ۔۔ ۔ صورت خان بلوچ

     ھمگام آرٹیکلز

میں ایک بلوچ اپنی ماں کی پیٹ میں تھا والدین کی خواہش تھی کہ بیٹا اسی دنیا میں آکر اور پرامن زندگی گزارے گا کہ ہمارے علاقے میں پاکستانی فورسسز نے فوجی آپریشن کیا گیا بمبارمنٹ کی گئی بڑی تکلیف کے بعد میرے والدین اپنے جان بچا کر بھاگ گئے اور محفوظ رہے بدقسمتی سے میں نو ماہ پورا ہونے کے بجائے 7 ماہ میں پیدا ہوئے اور تڑپ تڑپ کر والدین کے سامنے دم توڑ گیا کیونکہ والد ریاستی جارحیت کی وجہ نہ میرے والدہ کو ڈاکٹر تک یا ھسپتال نہ لے جاسکا اور نہ میرا علاج کروا سکے

والدین اپنے آبائی علاقے سے نقل مکانی کرکے پہاڑی علاقوں میں زندگی بسر کرنے لگے اور میرا پیدائش ہوئی تب میں نے سکول کا دروازہ تک نہیں دیکھا بڑے ہوکر اپنے والد کے مال مویشی پالتا تھا وہاں بھی ریاستی جارحیت شروع ہوئی مجھے پکڑا گیا اور مجھے ٹارچر کرکے شھید کرکے پھینک دیا گیا

والدین یہی علاقہ و مال داری چھوڑ کر بلوچستان کے کسی اور دیہی علاقے میں آباد ہوگئے تاکہ وہاں کچھ وقت سکون کی زندگی گزر جائے اور کھیتی باڑی شروع کی آہستہ آہستہ معیشت میں بہتری آ ہی گئی اور میں جب اس دنیا میں آئی تو والدین نے رسم و رواج کے مطابق بہت خوشی منائی اور آس پاس کے لوگوں کو دعوت دے کر بڑا پروگرام بنایا گیا لوگوں کو کھانا دیا گیا اپنے خوشی میں شرکت کرنے والوں کو گفٹ دیئے گئے میں بڑا ہوگیا اپنے والدین کا ہاتھ بٹانے لگا ایک دن اچانک علاقے میں فوجی لوگ آئے کہا گیا کہ یہ علاقہ خالی کردیں ہم اپنا بنایا ہوا ایٹمی بم کا تجربہ کرنا ہے زبردستی ہمیں اپنی ہی سرزمین سے نکال کر وہاں ایٹمی دھماکہ کیا گیا ہمارے زرخیز زمین کو راکھ کی ڈھیر میں تبدیل کر دیا گیا تمام درخت جل کر سوکھ گئے اسی علاقے کے حیوانات اور چرند پرند مرنے لگے آج تک وہاں کے رہنے والے لوگ مختلف بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں معزوربچے پیدا ہوتے ہیں

تو والدین مجبوری سے بلوچستان کے کسی اور علاقے میں آباد ہوگئے وہاں کھیتی باڑی کا کام کرنے لگے کھیتی باڑی کو وسعت دینے کے لئے زراعت کی مشینری خرید کر لایا گیا مگر بدقسمتی سے وہاں بھی پاکستانی فورسسز نے فوجی آپریشن کیا زمین پے کھڑا فصل جلا دیا سٹور میں زخیرہ اناج ضبط کرکے لے گیا زراعت کی مشینری کو فوج اپنے ساتھ لے گیا مجھے بھی گرفتار کرکے ٹارچر کرکے قتل کیا گیا

دوبارہ میں زندہ ہوکر اپنے والدین کو خوشحال ہونا دیکھنا چاہتا تھا والدین نے میری زندگی اور مجھے زندہ رہنے کے لئے شہر کا رخ کر لیا تاکہ اب وہاں مجھے تعلیم دلوا سکیں میں پڑھ کر اپنے اوپر ہونے والی ظلم کا آواز اٹھا سکوں جب یونیورسٹی لیول میں ہم پہنچ گئے تو وہاں بھی ریاستی غنڈوں نے حملہ کرکے مجھے مارا پیٹا زخمی کر دیا اور میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے والدین کے سامنے ہمیشہ کے لئے جدا ہوگئے

دوبارہ زندہ ہو کر اپنے شہر سے دور کراچی میں والدین نے مجھے پڑھنے کے لئے رشتہ دار کے ہاں بھیجا تاکہ میں وہاں کچھ پڑھ کے اپنا آواز اٹھا سکو اس ظلم و جبر کی خلاف

جب میں نے تعلیم مکمل کر لی تو میں واپس اپنے ماں باپ سے ملنے کے لئے اپنے آبائی علاقے جارہا تھا تو ریاست کی بنائی ہوئی خونی اور ٹوٹ پوٹ شاہراہ پے روڈ حادثے کا شکار ہو کے میرا لاش والدین کے سامنے رکھا گیا کیونکہ میں بلوچ اور مقبوضہ بلوچستان کا باشندہ تھا

دوبارہ میں زندہ ہوکر اپنے ہی شہر میں تعلیم حاصل کر لیا اور باپ نے کہا کہ اس دفعہ آپ کو ریاستی اداروں کے لئے کام کرنا ہے تاکہ ریاستی اداروں کی مسلسل زھنی ٹارچر سے ہم بچ پائیں اور آپ کی زندگی بن جائے تو میں لیویز فورس میں بھرتی ہوا چند وقت بعد وہاں سے بھی مجھے بلوچ ہونے کے ناطے اٹھایا گیا اور مارکر لاش ویرانے میں پھینک دی گئی کیونکہ میں بلوچ تھا

دوبارہ میں زندہ ہوکر تعلیم کرکے صحافت کی میدان اترے تاکہ اپنے ہی علاقائی مسائل کو اجاگر کر سکوں تاکہ بلوچ قوم پے ظلم کا داستان بیان کر سکوں یہ بھی ظالم کو راس نہ آئی مجھے ٹارگٹ کرکے قتل کردیا گیا کیونکہ میں بلوچ تھا

پھر سے زندہ لوٹ کر اپنا تعلیم مکمل کرنے بعد ڈاکٹر بننے کی کوشش کی کہ اپنے ہی قوم کے لوگوں کا بہتر علاج کر سکوں مگر بھی بلوچ ہونے کے ناطے مجھے اٹھایا گیا اور میری لاش کو مسخ کرکے پھینک دیا گیا کیوں کہ میں ایک بلوچ تھا

پھر سے زندہ لوٹ کر تعلیم کے لئے پنجاب کا رخ کیا تاکہ وہاں سے میں محفوظ ہوکر اپنا تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے ہی قوم کے کام میں آجاؤ مگر وہاں بھی ریاست نے اپنے غنڈوں کے زریعے میرے سر کو ڈنڈوں سے وار کرکے پھاڑ دیا میرا قصور یہ تھا کہ میں بلوچ اور مقبوضہ بلوچستان سے تعلق رکھتا تھا

پھر سے زندہ ہوکر تعلیم کی میدان سے دور ہوکر ڈیزل کا کاروبار اپنی ہی سرزمین میں شروع کر دیا جو کہ ایران کی باڈر سے حب چوکی تک لاکر بیچتا تھا

اپنے گھر چلانے کے لئے وہاں بھی راستے میں ہر جگہ بھاری رقم رشوت دینا پڑتا تھا مجبوری سے آمدن کا %90 رشوت کی طور پر ریاستی ادارے وصول کرتے تھے ایک دن رشوت نہ دینے کی بناپر مجھ پر فائرنگ کیا گیا گاڈی ڈیزل سے بھرا تھا فائرنگ کی وجہ گاڈی نے آگ پکڑلی اور میں زندہ جھلس کر راکھ کی ڈھیر بن گئی

(جاری ہے)

حصہ دوئم

پھر سے والدین نے مجھے ایک بلوچ کی حیثیت سے بیر ون ملک بھیجا تاکہ میں وہاں اپنا تعلیم مکمل کرکے واپس اپنے ہی سرزمین میں آکر اپنے قوم کی بھلائی کے لئے کچھ کر سکوں اپنا تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں نےوکالت کی ڈگری حاصل کی تاکہ مظلوم بلوچوں کا دفاع کر سکوں اور اپنے ہی سرزمین میں آکر لاپتہ بلوچوں کی وکالت شروع کی تاکہ ریاستی ٹارچر سیلوں سے لاپتہ بلوچ بازیاب ہو جائیں

پھر مجھے بھی ظلم کے خلاف آواز اٹھانے پے لاپتہ کیا گیا

پھر سے ایک اور بلوچ بچی زرینہ مری پیدا ہوگئی تاکہ اب بچی کی شکل میں ہم لکھ پڑھ کر بلوچ قوم کے لئے کچھ کر سکوں تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک سکول ٹیچر بن کر اپنی خدمات جاری رکھی تو بھی ریاستی اداروں نے میری گھر میں چھاپہ مار کر مجھے اپنی شیر خوار بچی کے ساتھ 2005 کو اٹھایا گیا اور آج تک 18 سال گزرنے کے باوجود لاپتہ ہوگئی ہوں

پھر سے زندہ ہوکر ایک بلوچ بن کر سیاسی جدوجہد شروع کر دی گئی کہ الیکشن میں لڑ کر وہاں سے اپنی جدوجہد جاری رکھوں جب میں منسٹر بنا اور اسمبلی میں گئے تو وہاں بھی اکثریت ریاستی اداروں کے نمائندے تھے میرے رائے کا کوئی احترام نہیں کیا گیا بلوچ حق کی بات کرنے پر ملک غدار ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا اور مجھے حراست میں لیکر زاندانوں میں ڈالا گیا

پھر سے میں بلوچ بن کر سیاسی پارٹیوں کی کالوں میں احتجاج کرنے لگا کہ ہمارا سرزمین مقبوضہ ہے ہمارے علاقوں میں فوجی آپریشن بند کیا جائے بلوچ لوگوں کی نسل کشی بند کی جائے تو مجھے اٹھا کر ٹارچر کیا گیا اور مجھے مارنے کے لئے ایک گولی کافی تھا لیکن ان ظالموں نے پورا ایک برسٹ میرے سینے پہ چلایا کہ باقی بلوچ میری مسخ شدہ لاش کو دیکھ کر ریاستی ظلم کو خاموشی سے برداشت کرے

پھر سے میں بلوچ گھرانے سے پیدا ہوکر جب جوان ہوئے تو تمام خوف اور گھبراہٹ ختم کر لی اور اپنے دوستوں کے ساتھ ملکر ریاستی ادروں کی ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھایا تو ہمیں تمام ساتھیوں کے ساتھ اٹھایا گیا اور ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے زریعے 180 دیگر بلوچوں کے ساتھ مار کر لاشوں کو مسخ کرکےتوتک کے علاقے میں ایک کنویں میں ڈالا گیا

پھر سے میں ایک بلوچ گھرانے میں پیدا ہوگئی اپنا تعلیم مکمل کرنے کے بعد بیرون ملک چلے گئے تاکہ وہاں سے بلوچ قوم پر ہونے والی ظلم کو بیان کر سکوں

لیکن وہاں بھی ریاست نے اپنے کرایہ دار قاتلوں کے زریعے مجھے نہایت چالاکی سے مار کر پانی میں ڈبویا کہ کوئی ثبوت نہ رہ پائے

پھر سے میں ایک بلوچ گھرانے سے پیدا ہوکر اس ریاست کی غلامی کو قبول نہ کر آزاد بلوچستان کے لئے پرامن جدوجہد کی مجھے اٹھایا گیا اور مجھے مار کر دیکر سینکڑوں بلوچوں کے ساتھ لاش کو بھی مسخ کرکے ایدھی کے حوالے کیا گیا اور کوئیٹہ کے قریب دشت میں ایک نیا اور گمنام قبرستان میں دفنا دیا گیا جہاں دیگر ہزاروں کی تعداد میں نامعلوم لوگوں کی مسخ شدہ لاشیں ایدھی کے زریعے دفنائی گئی ہیں

پھر سے میں ایک بلوچ گھرانے میں پیدا ہوکر تعلیم مکمل کرنے بعد اپنے قوم پر ہونے والی ظلم کی خلاف آواز اٹھایا تو بھی مجھے اٹھایا گیا اور دیگر 500 لوگوں کے ساتھ میرے بدن کو چیر پھاڑ کرکے کارآمد اعضائے نکال کر باقی لاش کو لاھور نشتر ھسپتال میں رکھ کر چوہوں اور پرندوں کو کھلایا گیا کیونکہ میں اور باقی 500 لوگ اپنے قوم کی ظالموں کے خلاف آواز اٹھاتے تھے

جبری طور پر لاپتہ کیئے گے بلوچوں کی بازیابی کے لیئے لگائے گئےبھوک ہڑتالی کیمپ کو 5202 دن ہوگئے کوئیٹہ سے کراچی اور اسلام آباد تک لانگ مارچ کی طویل داستان …

بلوچستان میں قبضہ گیر اسٹیبلشمنٹ اپنے غیر آئینی اور غیر قانونی قبضہ کو طول دینے کے لیئے تشدد کے ذریعے بلوچ قومی جدجہد کو ختم کرنے کے لئے غیر انسانی حرکات پر عمل پیرا ہے تشدد کرو مارو پھینک دو کی پالیسی کے تحت 2001 سے اب تک ہر مکتبہ فکر کے بلوچوں کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں۔ اور 65000 ہزار سے زاہد بلوچوں کو جبری لاپتہ کیا گیا ہے اور 20000 ہزار سے زائد بلوچوں کو شھید کرکے انکی لاشوں کو ویرانوں میں پھینک دیا گیا بلوچ گھروں پر ریاستی فورسز ایف سی خفیہ ادارے سی ٹی ڈی کی یلغار معمول کی بات ہے فصلوں کو جلانا اور مال مویشیوں کی لوٹ مار کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے بلوچ دانشوروں کی ٹارگٹ کلنگ کی جا رہی ہے۔ بلوچ خواتین بھی ریاستی زندانوں میں اذیتیں سہہ رہی ہیں اور بعض ریاستی فورسز کے ہاتھوں شہید ہوئے ہیں۔ بچے بھی ریاستی درندگی سے نہیں بچھ پائے۔

عالمی انسانی حقوق کے اداروں سے سوال ہے کہ آپ لوگوں کی خاموشی کی وجہ بلوچ قوم کو اپنی ہی سرزمین میں ایک ناجائز قبضہ گیریت نے اتنی ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے کہ گزشتہ 75 سالوں سے جاری ہے ؟