کتاب: فلسفۂ اخلاق کے عناصر

مصنف: جیمز ریچلز — اسٹوارٹ ریچلز

اردو ترجمہ: عمر عدیل

– حصہ چہارم (آخری)

– اخلاقی اور نفسیاتی خودغرضیت

اخلاقی خودغرضیت (Ethical Egoism) کا یہ دعویٰ ہے کہ ہر کسی کو خالصتاً صرف اپنے ذاتی مفادات کے حصول کی کوشش کرنی چاہئیے۔ اس کے برعکس، نفسیاتی خودغرضیت (Psychological Egoism) اس بات پر زور دیتا ہے کہ دراصل ہر شخص خالصتاً صرف اپنے ہی مفادات کا تعاقب کرتا ہے۔ یہ (دونوں) نظریات ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔

“یہ کہنا الگ بات ہے کہ لوگ ذاتی مفاد رکھتے ہیں (نفسیاتی خودغرضیت)، لیکن یہ کہنا بالکل الگ بات ہے کہ لوگوں کو ذاتی مفاد رکھنا چاہئیے (اخلاقی خودغرضیت)۔”

نفسیاتی خودغرضیت انسانی فطرت یا (انسانی) معاملات کی حقیقت کے بارے میں دعویٰ کرتا ہے اور اخلاقی خود غرضیت اخلاقیات سے متعلق یا (انسانی) معاملات کیسے ہونے چاہیئے کے بارے میں دعویٰ کرتا ہے۔

نفسیاتی خودغرضیت، کوئی اخلاقی نظریہ نہیں بلکہ نفسیات انسانی کا ایک نظریہ ہے۔ لیکن مفکرین اخلاق کے لئے یہ ہمیشہ ہی محل فکر رہا ہے۔

اگر نفسیاتی خودغرضیت درست ہو تو فلسفۂ اخلاق بےمعنی محسوس ہوگا۔ بہرحال، اگر لوگ چاہتے نہ چاہتے ہمیشہ خود غرضانہ برتاؤ ہی کریں گے تو یہ بحث بے معنی ہو جاتی ہے کہ کیا کرنا چاہئیے؟ انہیں جو کچھ بھی کرنا چاہئیے، وہ اسے نہیں کر پائیں گے۔ تب ایسا سوچنا نادانی ہوگی کہ ہمارے اخلاقی نظریات حقیقی دنیا میں کوئی اہمیت رکھ سکتے ہیں۔

• نفسیانی خودغرضیت کے دو دلائل

1) ہم ہمیشہ وہ کرتے ہیں جو ہم کرنا چاہتے ہیں !

یہ دلیل کہ ہم ہمیشہ وہ کرتے ہیں جو ہم کرنا چاہتے ہیں ڈیل کارنیگی (Dael Carmgie) نے، اپنی پہلی اور سب سے بہترین سیلف ہیلپ بک، “دوستی کیسے جیتی جائے اور بااثر کیسے بنیں؟” میں یہ کہا تھا کہ “جس دن سے آپ نے جنم لیا، اس دن سے آپ نے جو بھی کام کیا وہ اس لئے کیا کیونکہ آپ کو کچھ چاہئیے تھا۔”

کارنیگی نے “خواہش” کو نفسیات انسانی کی کلید خیال کیا۔ اگر وہ درست تھا، تو جب ہم ایک شخص کے فعل کو ایثار اور دوسرے کے فعل کو خودغرضی قرار دیتے ہیں، تب شاید ہم اس حقیقت کو نظر انداز کر رہے ہوتے ہیں کہ ہر معاملے میں ہر شخص صرف وہی کر رہا ہے جو وہ سب سے زیادہ چاہتا ہے۔

• اس دلیل میں دو نقائص

۱) تاہم اس دلیل میں نقص ہے۔ ایسی چیزیں بھی ہیں جو ہم صرف چاہت کی بناء پر نہیں کرتے، بلکہ اس لئے کرتے ہیں کیونکہ ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم کو ایسے کرنا چاہئیے۔ مثال کے طور پر، میں اپنی نانی کو خط لکھ سکتا ہوں، کیونکہ میں نے اپنی والدہ سے وعدہ کیا تھا کہ میں لکھوں گا، حالانکہ میں نہیں لکھنا چاہتا۔ بعض دفعہ یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ ہم ایسے کام اس لئے کرتے ہیں، کیونکہ ہماری سب سے بڑی خواہش اپنے وعدے نبھانا ہوتی ہے۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ یہ کہنا صریحاً غلط ہے کہ میری سب سے بڑی خواہش اپنا وعدہ نبھانا ہوتی ہے۔ دراصل میری سب بڑی خواہش وعدہ توڑنا ہوتی ہے، نبھانا نہیں، مگر میں اپنی ضمیر کی وجہ سے ایسا نہیں کرتا۔

۲) اس دلیل میں ایک اور نقص بھی ہے۔ محض یہ حقیقت کہ آپ اپنی خواہشات پر عمل کرتے ہیں کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ صرف اپنی پرواہ کر رہے ہیں؛ یہ سب اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کی خواہش کیا ہے۔ اگر آپ صرف اپنی پرواہ کرتے ہیں اور دوسروں کے بارے میں نہیں سوچتے، تب آپ خودغرضی سے کام لے رہے ہیں؛ لیکن اگر آپ خواہش کرتے ہیں کہ دوسرے لوگ خوش ہوں، اور آپ اس خواہش پر عمل بھی کرتے ہیں، تو پھر آپ خود غرض نہیں ہیں۔ دوسرے الفاظ میں: یہ جانچنے کیلئے کہ آیا کوئی عمل خودغرضی ہے یا نہیں، مسئلہ یہ نہیں ہے کہ وہ عمل خواہش پر مبنی ہے یا نہیں: مسئلہ یہ ہے کہ وہ کسی قسم کی خواہش پر مبنی ہے۔ اگر آپ کسی کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو، پھر آپ کا محرک جذبہ ایثار ہے خودغرضی نہیں۔

لہذا، یہ استدلال ہر طرح سے غلط ہے۔ اسکا مفروضہ درست نہیں ہے۔ ہم ہمیشہ وہ نہیں کرتے جو ہم زیادہ تر کرنا چاہتے ہیں۔ حتی کہ اگر یہ درست ہو بھی، تو مطلوب نتیجہ اس مفروضے سے اخذ نہیں ہو گا۔

2) ہم ہمیشہ وہی کرتے ہیں جو کرنا ہمیں خوشی دیتا ہے !

نفسیاتی خود غرضیت کی دوسری دلیل۔ اس حقیقت سے استدعا کرتی ہے کہ نام نہاد اقدام ایثار ہر اس شخص میں خود اطمینانی کا احساس پیدا کرتے ہیں جو انہیں انجام دیتا ہے۔ بے لوث کام کرنا لوگوں کو اپنے بارے میں اچھا محسوس کراتا ہے، اور اسی وجہ سے وہ ایسا کام کرتے ہیں۔

انیسوی ویں صدی کے ایک اخبار کے مطابق، یہ دلیل ابراہم لنکن نے دی تھی؛

“مسٹر لنکن نے ایک بار چھکڑا گاڑی میں سفر کرتے، اپنے ساتھی مسافر سے ذکر کیا کہ تمام انسان خودغرضی کے سبب اچھے کام کرتے ہیں۔ جب وہ ایک ہلکے پل کے اوپر سے گزر رہے تھے جو ایک وسیع دلدل پر پھیلا ہوا تھا، ان کا ساتھی مسافر انکے موقف کی مخالفت کر رہا تھا۔ جیسے ہی انہوں نے اس پل کو عبور کیا، انہوں نے ایک پتلی کمر والی کسان بڑھیا کو کنارے پر شدید شور مچاتے دیکھا، اس کے خنزیر دلدل میں پھنس گئے تھے اور انکے ڈوبنے کا خطرہ تھا۔ جیسے ہی چھکڑا گاڑی نے پہاڑی پر چڑھنا شروع کیا۔ مسٹر لنکن نے آواز دی، “کوچوان، ذرا رک جاؤ؟”۔

پھر مسٹر لنکن گاڑی سے کود کر پیچھے بھاگے، اور نتھے خنزیروں کو دلدل اور پانی سے نکال کر کنارے پر چھوڑ آئے۔ جب وہ لوٹے تو ان کے ساتھی نے کہا: “مسٹر لنکن! اس واقعے میں، خودغرضی کہاں ہے؟”۔

“خدا تجھ پر رحم کرے ایڈ” یہ صریح خود غرضی تھی۔ اگر میں نے ان خنزیروں کیلئے متفکر بڑھیا کو ایسے ہی چھوڑ دیا ہوتا، تو مجھے سارا دن ذہنی سکون نہ ملتا۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں نے ایسا ذہنی سکون حاصل کرنے کے لئے کیا ہے؟”

اس واقعے میں، دیانتدار لنکن نے نفسیاتی خودغرضیت کے ایک وقتی حربے “محرکات کی تعبیرِ نو کی حکمت عملی” کا استعمال کیا۔ سب جانتے ہیں کہ لوگ بعض اوقات باایثار عمل کرتے نظر آتے ہیں؛ لیکن اگر ہم توجہ کریں تو، ہمیں پتا چلتا ہے کہ معاملہ کچھ اور ہے۔ اور عموماً یہ دریافت کرنا مشکل نہیں ہوتا کہ “بے لوث” برتاؤ دراصل عامل کے کسی نہ کسی مفاد سے وابستہ ہے۔ یوں، لنکن اس ذہنی سکون کا ذکر کرتے ہیں، جو انہیں خنزیروں کو بچانے سے ملا۔

اس سب کے باوجود، لنکن کی دلیل ناقص ہے۔ اس حقیقت کا امکان ہے کہ خنزیروں کو بچانے میں ان کا ایک مقصد اپنا ذہنی سکون بھی تھا۔ مگر اس حقیقت کا، کہ لنکن کا محرک

خودغرضی تھا، یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ اس میں محرک ایثار نہیں تھا۔ دراصل ہوسکتا ہے کہ، لنکن کی خنزیروں کو بچانے کی خواہش، انکی ذہنی سکون کو برقرار رکھنے کی خواہش سے بھی بڑھ کر ہو اور اگر لنکن کے معاملے میں یہ حقیقت نہ بھی ہو تو دیگر معاملات میں یہ حقیقت ضرور ہوگی؟ اگر میں کسی بچے کو ڈوبتا دیکھوں، تو عموماً میری اس بچے کو بچانے کی خواہش، ضمیر کی خلش سے بچنے کی خواہش سے بڑی ہوگی۔ ایسے معاملات نفسیاتی خودغرضیت کے جوابی نمونے ہیں۔

ایثار کے بعض واقعات ایسے بھی ہیں جہاں، ہمارے خود غرضانہ مقاصد کا امکان نہیں۔

• نفسیاتی خودغرضیت کا نتیجہ

اگر نفسیاتی خود غرضیت اتنی نامعقول ہے، تو کیوں اتنے ذہین لوگ اس کی طرف راغب ہوئے؟ بعض لوگ اس نظریے میں پنہاں انسانی فطرت کے روکھے پن کو پسند کرتے ہیں اور دیگر کو اس کی سادگی پسند آسکتی ہے۔ دراصل، یہ مسحورکن ہوگا، کہ اگر کوئی ایک ہی کلیہ تمام انسانی رویوں کی وضاحت کرسکے، لیکن اس مقصد کے لئے انسان بہت پیچیدہ لگتا ہے۔ نفسیاتی خودغرضیت کوئی قابل اعتبار نظریہ نہیں ہے۔

لہذا، اخلاقیات کو نفسیاتی خودغرضیت سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اخلاقی نظریہ سازی کو، انسانی فطرت کے غیر حقیقی تصور پر مبنی اس کار عبث کی حاجت نہیں ہے۔