برلن (ہمگام نیوز ) جبری لاپتہ افراد کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے بلوچ نیشنل موومنٹ کی طرف سے جرمنی میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں بڑی تعداد میں بلوچ مہاجرین نے شرکت کی۔ مظاہرے کا مقصد بلوچستان میں پاکستانی فورسز کی طرف سے انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا اجاگر کرنا تھا۔ اس مظاہرے میں جبری گمشدگی کے خلاف جاری تحریک کی طرف توجہ دلایا گیا اور بلوچ نسل کشی کے خلاف پرامن لانگ مارچ کے شرکاء پر طاقت کے استعمال کو تنقید نشانہ بنایا گیا۔
بی این ایم کے سینٹرل کمیٹی ممبر ھمل خان نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا ، جعلی مقابلے میں بالاچ مولابخش کے حراستی قتل کے خلاف اٹھنے والی تحریک ایک فرد یا خاندان کے بارے میں نہیں بلکہ یہ پوری بلوچ قوم کی نمائندہ تحریک ہے۔جس نے جغرافیائی حد بندیوں کو پھلانگتے ہوئے اجتماعی بلوچ قومی شعور کو استعمال کرتے ہوئے قوم کو متحد کیا۔
بی این ایم جرمنی کے صدر اصغر بلوچ نے جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کے گہرے رنج و الم کو بیان کرتے ہوئے تحریک کو منظم کرنے میں بلوچ خواتین کے مزاحمتی کردار کی تعریف کی۔ انھوں نے سن 2009 سے جبری لاپتہ ذاکرمجید کی والدہ کے غیرمتنزل عزم کو اجاگر کرتے ہوئے کہا یہ ایک ماں کی اپنے جبری گمشدہ بیٹے کے لیے انتھک جدوجہد کی مثال ہے۔
بی این ایم جرمنی کی نائب صدر سمل بلوچ نے بلوچ قوم کو درپیش مسائل پر میڈیا کی خاموشی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کی آواز کو عالمی سطح پر پہنچانے کے لیے بی این ایم کے عزم کا اظہار کیا۔ انھوں نے بالاچ اور چاکر کی وراثت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا بلوچ قوم محکومی کے خلاف طویل اور ثابت قدم جدوجہد کر رہی ہے۔
بی این ایم جرمنی کے جوائنٹ سیکریٹری شرحسن نے پاکستان کی طرف سے انسانی حقوق کی پامالیوں پر تنقید کرتے ہوئے اس کی استعماری پالیسیوں کی مذمت کی۔ انھوں نے کہا پاکستان نے بلوچستان کو ایک وسیع قیدخانے میں تبدیل کردیا ہے۔
بی این ایم کے ممبر صادق سعید نے لانگ مارچ کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے پاکستانی ریاست اور میڈیا کی جانب سے جبری لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے مشکلات کا ذکر کیا جنھیں ہراسمنٹ اور بے حسی کا سامنا ہے۔
صفیہ منظور نے بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات اور ذمہ داروں کے احتساب کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اقوام متحدہ سے مداخلت کی اپیل کی۔
سلمی بلوچ نے بلوچستان میں بلوچ جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کی جدوجہد پر توجہ دلاتے ہوئے کہا ، بلوچستان میں جبری گمشدگیاں اور مظالم ایک دردناک معمول بن چکے ہیں۔
بختاور بلوچ نے زور دے کر کہا کہ اسلام آباد میں جاری احتجاج بالاچ مولا بخش کے قتل کے بعد شروع ہونے والے دھرنے کی بازگشت ہے، انھوں نے پاکستانی فوج کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فوج بلوچ نسل کشی میں ملوث ہے۔
احتجاج میں سماجی کارکن فیلکس کی طرف سے اظہار یکجہتی بھی کیا گیا، جنھوں نے پرامن بلوچ کارکنوں کے خلاف طاقت کے استعمال کی مذمت کی۔
بلوچ نیشنل موومنٹ جرمنی چیپٹر کے سابق فنانس سیکرٹری عبدالرحمان اور حسن بلوچ نے جبری لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی حالت زار کی طرف توجہ مبذول کرانے کے لیے مذکورہ احتجاج کو منظم کرنے میں قائدانہ کردار ادا کیا۔
مظاہرے کے اختتام پر، بی این ایم جرمنی کے صدر اصغر علی نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے، بلوچستان کے لوگوں کے لیے اپنی جدوجہد کو جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔