شال (ہمگام نیوز ) بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے کہا ہے کہ پاکستانی فوج کی طرف سے جمعرات کے روز مغربی بلوچستان میں میزائل حملوں کا ہدف بلوچ مہاجرین تھے ۔اس حملے میں دس خواتین وبچوں سمیت بلوچ مہاجرین شہید ہوئے ہیں جن میں بی این ایم کے مرکزی کونسل کے ممبر دوستا محمود بھی شامل ہیں۔بی این ایم شھید چیئرمین دوستا اور دیگر شہدا ء کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ چیئرمین دوستا کی تحریک اور پارٹی کے لیے قربانیاں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گے اور وہ ہماری یادوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
بی این ایم کے ترجمان نے کہا دوستا محمود ، مشرقی بلوچستان کے علاقے پروم ضلع پنجگور کے رہائشی تھے۔ پاکستانی فوج کی طرف سے پروم کے علاقوں میں مسلسل فوجی کارروائیوں سے تنگ آکر خاندان سمیت پروم سے چند کیلومیٹر کے فاصلے پر ایران کے زیرانتظام مغربی بلوچستان میں شمسر ( حق آباد ) نامی گاؤں میں اپنے قریبی رشتہ داروں کے پاس منتقل ہوئے اور وہاں گذشتہ کئی سالوں سے اپنے خاندان کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔جمعرات کے روز پاکستانی فوج کے دانستہ حملوں میں ’بی این ایم کے سینئر ممبر چیئرمین دوستا‘ کو پورے خاندان سمیت قتل کیا گیا۔
انھوں نے کہا بلوچ قوم پر پاکستانی مظالم کی یہ بدترین مثال ہے۔ پاکستان کی طرف سے شہری آبادی پر سات میزائل داغے گئے جو مختلف گھروں پر گرے اور بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ اس حملے میں دس نہتے افراد کو قتل کیا گیا جو پاکستانی فوج کے جبر سے جان بچا کر مغربی بلوچستان ہجرت کر گئے تھے ، ان میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ شہید ہونے والوں میں دوست محمد ولد محمود ( چیئرمین دوستا ) ، ان کی زوجہ شازیہ ، ان کے کمسن بچے : بابر دوست ، ھانی دوست ، چراگ دوست اور پنجگور سے مہاجرت کرنے والے شہیدیونس بلوچ کے خاندان میں سے بلوچ ماں نجمہ بلوچ ، معصوم بچے فرھاد ولد محمد جان ، ماھکان اور ماہ زیب شامل ہیں ۔
بی این ایم کے ترجمان نے کہا خواتین اور بچوں کو شہید کرکے پاکستانی حکام اور پاکستانی میڈیا یہ جھوٹا دعوی کر رہے ہیں کہ پاکستانی فوج نے ’ ایران کے پنجگور پر حملے ‘ کے منہ توڑ جواب میں سرمچاروں کے ٹھکانے تباہ کیے ہیں لیکن حقیقت میں پاکستان نے شہری آبادی کو نشانہ بنایا ہے جس میں خواتین اور بچے شہید ہوئے ہیں جس کے ویڈیو فوٹیجز اور تصاویری ثبوت موجود ہیں ۔چیئرمین دوستا جنھیں پاکستان اس حملے کا مرکزی ہدف بتا رہا ہے ایک ’ نہتے سیاسی کارکن ‘ تھے جو سوشل میڈیا پر اپنی اصل شناخت کے ساتھ متحرک تھے۔
اگر وہ کسی مسلح تنظیم کے کمانڈر ہوتے تو اپنی شناخت کے ساتھ سوشل میڈیا پر سرگرم نہ ہوتے۔
انھوں نے کہا یہ حملہ شدت ، خواتین اور بچوں کی اموات کے حوالے سے اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ضرور ہے لیکن اس سے قبل بھی بلوچ مہاجرین کو ہمسایہ ممالک افغانستان اور ایران کے علاوہ دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی پاکستانی ایجنسیوں کے آلہ کار قتل کرچکے ہیں۔ بلوچ نیشنل موومنٹ مسلسل عالمی برداری سے یہ اپیل کرتی آئی ہے کہ مشرقی بلوچستان سے نقل مکانی کرکے مغربی بلوچستان جانے والوں کو عالمی سطح پر ریفیوجیز کا درجہ دے کر ان کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
ترجمان نے کہا پاکستان کے اس حملے پر خاموش رہنے کی بجائے اس کی اس دہشت گردانہ کارروائی کے خلاف اسے عالمی سطح جوابدہ بنایا جائے۔ اس بات کے ناقابل تردید شواہد ہیں کہ پاکستان نے یہ حملے جان بوجھ کر شہری آبادیوں پر کیے۔ ایسے افراد کو نشانہ بنایا گیا جن کا مسلح سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
اس حملے میں ایک سیاسی ورکر کے علاوہ صرف خواتین اور بچے شہید ہوئے ہیں جنھیں قتل کرکے پاکستان نے فخر سے اس قتل عام کی ذمہ داری قبول کی۔
ترجمان نے اپنے بیان کےآخر میں کہا پاکستان کی ظلم و جبر سے سینکڑوں پارٹی کارکنوں کے علاوہ عام بلوچوں نے جان بچاکر جلاوطنی اختیارکی ہے جوایرانی بندوبستی بلوچستان ، افغانستان ، خلیج ، یورپ ، امریکہ سمیت دنیا بھر میں مقیم ہیں لیکن عالمی اداروں نے اب تک بلوچ مہاجرین کو ترجیحی فہرست میں شامل نہیں کیا۔ اسی وجہ سے بلوچ مہاجرین کو بطور مہاجر رجسٹریشن میں مشکلات کا سامنا ہے اور وہ عالمی سطح پرطے کردہ مہاجرین کے حقوق سے محروم ہیں ۔