دزآپ، ایرانی مقبوضہ بلوچستان میں تباہ کن سیلاب کی وجہ سے کاروباز زندگی اور مواصلات کے تمام زرائع ناکارہ ہوکر رہ گئے ہیں سرباز سراوان نیکشہر اور دیگر علاقوں میں سیلاب کی وجہ سے کئی دیہات کٹ کر رہ گئے ہیں۔ ان علاقوں کے رہائشی امداد کے شدت سے منتظر ہیں۔
مقامی زرائع نے امدادی کارکنوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے امداد کی تقسیم بہت سے متاثرہ علاقوں تک نہیں پہنچ پا رہی ہے۔ راسک کا ضلع پشین کا کوئی پرسان حال نہیں۔ دشتیاری اور چابہار سے باہر بہت سے دیہات مبینہ طور پر مدد کے لیے ایک ہفتے سے انتظار کر رہے ہیں۔ اندازوں کے مطابق سیلاب کی تباہی کا پیمانہ دستیاب وسائل اور امداد سےکہیں زیادہ ہے۔
سیلاب کے دس دن بعد بھی تقریباً 1,000 گاؤں اور 11 شہرتاحال شدید متاثر ہیں۔ سیلاب زدگان کو درپیش امداد کی فراہمی کی صورتحال سرکاری دعوؤں کے برعکس نازک ہے۔ آس پاس کے کئی دیہات سیلابی پانی کی وجہ سے ابھی تک رسائی سے محروم ہیں۔
خود ایرانی اخباری رپورٹوں میں تسلیم کیا گیا ہے کہ وسیع علاقے اور آبادی متاثر ہوئی ہے رسائی کے راستے منقطع ہونے اور سرکار کی امدادی سرگرمیوں میں کمی کی وجہ سے مزید رکاوٹ پیدا ہوچکی ہیں۔
ایرانی شرق اخبار کے 5 مارچ کی رپورٹ کے مطابق موسم بہار سے عین قبل سیلاب نے کیلے کے کھیتوں اور دیگر زرعی زمینوں کو کافی نقصان پہنچایا۔ صوبائی زرعی ادارے کے سربراہ نے بڑے پیمانے پر نقصان کی تصدیق کی ہے جن میں 18,993 ہیکٹر سیراب شدہ زرعی زمین، 1,933 ہیکٹر باغات، 221 گرین ہاؤسز، 300 دیہی اور دہاتوں کے مویشیوں کے فارم، شہد کی مکھیوں کی 15 کالونیاں، 271 زرعی کنویں، ،50 زرعی مشینیں اور اوزار، 115 آبی راستے ، 104 کلو میٹر فارم اور دہاتوں کے سڑکیں۔، 63 کلومیٹر پانی کی منتقلی کے پائپ اور نہریں، 84 ڈیم اور واٹرشیڈ ڈھانچے اور 59 پانی ذخیرہ کرنے کے تالاب قابل زکر ہیں۔