موجودہ سیاسی صورتحال پر نظر ثانی کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بلوچ سیاست میں ریاست کی تعریف وقتاًفوقتاً تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ گویا انفرادی سوچ اور قوت نے بلوچ ریاست کو ایک ایسی سیاست کی نظر کیا ہے جس سے بلوچستان کا رقبہ کچھ سیاسی حلقوں میں دن بہ دن سکھڑتا جا رہا ہے۔ 1666 میں بلوچ ریاست کی تشکیل بلوچ قوم کے ابا و اجداد نے کچھ اس طرح کی ہو گی جو موجودہ جدید ریاستوں کی بیان ہے۔ ریاست! یعنی زمین کا ایک رقبہ جس پر ایک قوم آباد ہو جس کی زبان ثقافت کم و بیش ایک ہو۔ جتنا زمین اتنے آسمان کا حصہ جو خشکی اور سمندر پر پھیلا ہو اور وراثت میں سمندر تک کی گہرائی سب ایک قوم کی ملکیت ہے۔ ہر ادوار میں بلوچ قوم کی قصہ کہانیاں یا شاعری اس طے شدہ ریاستی خدوخال کو بیان کرتے ہیں۔ غلام حسین شوہاز سے لے کر سید ظہور شاہ ہاشمی اور مبارک قاضی نے دور حاضر میں اپنی شاعری سے بلوچ قومی جغرافیہ اور قربانیوں کو دوام بخشا ۔
اب دو دہائیوں سے ہم کچھ عجیب و غریب منطق سنتے آرہے ہیں یعنی بلوچستان کی تعارف پاکستانی زیر دست بلوچستان تک ہے ۔ اس طرح کی سوچ کو اگر سیاسی بلوغت کا فقدان کہا جائے تو قطعاً غلط نہیں ہوگا۔ کیونکہ دو دہائیوں سے “تمام جانور برابر ہیں مگر کچھ جانور زیادہ برابر ہیں ” والی سیاست قوم کے ساتھ کھیلی جا رہی ہے۔
جنگ کو دنیا اسٹریٹجی کے اینگل سے دیکھتی ہے۔ شاید ایک باشعور طبقے نے بالاچ گورگیج کو اس لئے اپنا آئیڈیل مانا اور سرخروح بھی یہی کردار ہوتے ہیں وگرنہ دو دہائیوں سے جنگ نے بزدلی اور بہادری کے درمیان ایک اٹل لکیر کھینچ کر رکھی ہے۔ دو دہائیوں سے کچھ آزادی پسند حلقوں نے حاصل و حصول کی طوالت کو ایک ابہام اور کنفیوژن میں بدل کر رکھ دیا۔ یعنی دنیا کیونکر مدد کے لیے میدان عمل میں نہیں کھود رہا مگر ایسی ڈیمانڈ کے بعد بھی اپنے اعمال پر غور کرنے کی زحمت تک نہ کی اور بدلے میں خودکش جیسے اعمال متعارف کرائے جن کی وجہ سے تحریک متاثر ہوتی جا رہی ہے ۔ ریاست کا نعم البدل ریاست ہے،سیاست اور جنگ حصولِ ریاست کے وہ ستون ہے جن سے قومی سیاسی و عسکری جہد کار پالیسز مرتب کرتے ہیں۔ انہی پالیسیز کی بنا پر بلوچستان یا دیگر مقبوضہ ریاستیں اپنے مستقبل کا روڈ میپ مرتب کرتے ہیں تاکہ بعد از آزادی قوم آسودہ حال ہو۔ بلوچ جہد میں ابتک انقلاب اور آزادی کے فلسفے کو میکسچر کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ جنگ کے دو پہلو بہت واضح ہیں۔ ایک اسٹریٹجی اور دوسری ٹیکٹکس۔ دونوں کو اگر ایک قصے کی طرح بیان کروں تو بہتر ہے۔
کہتے ہیں ایک زمین کے بڑے ٹکڑ ے پر شیطان کے دو سپوت نحوست اور ملعون قابض تھے۔دونوں چونکہ شیطانی صفت کے پیداوار تھے تو ظلم وجبر، مکر و فریب دونوں کی وراثت تھی اور فطرت کے لحاظ سے دوست بھی۔ اسٹریٹجی ان دونوں کے فطرت مکر اور برے چہرے سے خوب واقف تھا اور اس نے شیطان کے سپوت نحوست اور ملعون سے اپنے مادر وطن کی آزادی کی جدوجہد شروع کی۔ اسی سفر میں ٹیکٹز نے بھی حصہ لیا چونکہ اسٹریٹجی ایک دور اندیش عمل کا حامی تھا اس نے ٹیکٹز کی بھر پور انداز میں مدد کی۔
وقت گزرتا گیا اور جب نحوست نے محسوس کی کہ اسٹریٹجی اپنے موقف سے دستبردار نہیں ہو رہا تو نحوست اور ملعون نے ایک چال چلی کیوں نہ ٹیکٹز کو نحوست دوستی اور دیگر لالچ دیکر اسٹریٹجی سے دور رکھیں۔ اس پر عمل ہوا نحوست اور ملعون کو خاطر خواہ کامیابی ملی قومی طاقت منتشر ہوئی۔ قصہ مختصر پھر ہوا یوں کہ ملعون پر ایک پریشانی کا دور آیا اس نے طاقت اور دیگر تمام حربے استعمال کیے مگر حاصل کچھ نہ ہونے کی صورت میں دونوں شیطانی صفت کرداروں نے ایک ڈھونگ رچایا اور زمین کے باسیوں پر حملہ کر کے جشن منانا شروع کیا۔
یہاں ٹیکٹز بالکل ناکام اور برین واش ہو چکا تھا اسکی سوچ بس ایک تھی “دو طاقتوں سے جنگ کیسے “؟ مگر اسٹریٹجی چونکہ دوراندیش صفت کا مالک تھا اس نے جنگ میں ٹائم اور اسپیس کو اس وقت تک تھامے رکھا جب دونوں یعنی نحوست اور ملعون اپنے شیطانی عکس کو چھپا کر ایک نشست کرنے جا رہے تھے کہ اسٹرٹیجی نے ایک ایسی ضرب نحوست کے گرفت کردہ زمین پر ملعون پر لگائی کہ دونوں ششدر ہو کر رہ گئے اور پھر سے بغل گیر ہو گئے کیونکہ انھیں یقین ہو چلا تھا کہ اسٹریٹجی ایک ریجنل پاور کی جانب گامزن ہے جو صفتء شیطان کی یقینی موت ہے”
رابرٹ گرین اپنی کتاب 33 اسٹریٹجی آف وار میں کہتا ہے اسٹریٹجی ایک مرتب کردہ پلاننگ کا نام جس کے ذریعے منزل کا حصول سٹرٹیجسٹ کا ٹارگٹ ہوتا ہے۔ ساٹریٹجسٹ اپنے منزل کے حصول میں کبھی ابہام اور کنفیوژن کا شکار نہیں ہوتا کیونکہ اسے پتہ ہوتا ہے کہ منزل کا حصول کن بنیادوں پر ممکن ہے کیونکہ اسٹرٹیٹجسٹ گرینڈ اسٹریٹجی کو حتمی شکل دینے کی خاطر جنگ کے تمام پہلوؤں پر غور کرتا ہے اور اس کے لیے لازمی ہے کہ اسے دنیا کے بارے میں مکمل آگاہی ہو اور اسکا سیاسی اور دماغی اپروچ ہمیشہ حقیقت پسندی پر مبنی ہو۔
اسی طر ح Carl con Clausewitz اپنی کتاب ” On War” میں اس فرق کو واضح کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ٹیکٹز کا لوجک میدان جنگ میں جیتنا ہو تا ہے اور سٹریٹجی کا لوجک/حکمت یہ ہے کہ اسٹرٹیجسٹ ان فتوحات کو جنگ کے اختتام تک پہنچانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
جنگی علوم کے مطابق غلط سوچ سمت اور جنگی راہ اگر اپنی راہ ہموار کر لے تو وہ ایک قانون یعنی Murphy Law ان پر لاگو ہوتا ہے۔ جس سے غلطی پر غلطی کا عمل اس قدر شدت اختیار کرتا ہے کہ آخر کار تباہی کی طرف جانا ایک اٹل حقیقت بن جاتی ہے اور تامل طرز پر جنگ ، سیاست اور اسٹریٹجی کو ناکام بنا دیتی ہے۔ تامل اپنی طاقت میں بے مثل تھے بلوچ قوت سرو سامان اور خودکش حملہ آوروں کی تعداد میں کئی گنا مضبوط تھے مگر دنیا کے سیاست کو انھوں نے ردی کی ٹوکری میں پھینک دی اور ہزاروں قربانیوں کے باوجود ناکام رہے۔
اس کی سب سے بڑی وجہ سیاست کی حوصلہ شکنی اور عالمی جنگی اصولوں کو روندنہ تھا۔ اگر تامل جنگ میں اسٹریٹجی مرتب کرتے ٹائم اور اسپیس کو وار میں جگہ دیتے، سیاست کو منظم کرتے تو آج سری لنکا کےمعاشی دیوالیہ سے اپنے سرزمین کی جغرافیائی حدود کو سیاسی اور عسکری پروٹیکشن دے کر عالمی سفارکاری سے ایک ممبر اسٹیٹ ہوتے۔
اس کے بر عکس نارتھ ویتنام نے اکیلے سائوتھ ویتنام کو اپنی سیاسی بصیرت کے بنیاد پر متحدہ ویتنام بنا کر امریکہ جیسے عالمی طاقت کو شکست پر مجبور کیا۔ اسکی وجہ سیاسی حکمت عملی اور جنگ کو سیاست سے آشنائی تھی۔ آخری کیل جو امریکہ کی عسکری تابو ت میں ٹوکی گئی وہ سیاسی و عسکری مشترکہ تھی جو ویتنام پالیسی پر امریکہ جیسی پاور جو چار ایران اور پاکستان کو ملا کر اس سے زیادہ ہے مگر اس کی بھی ویک پوائنٹ یعنی” امریکی پبلک اوپینن” کو ویتنام جنگ کی طرف موڈنا تھا کیونکہ دنیا کی ایسی سیاسی طاقت کا وجود نہیں تھا جو امریکہ کو مجبور کر سکتا مگر عوامی شعور جو پاکستان و ایرانی عوام میں زرہ برابر نہیں کیونکہ عوامی سطح پر بھی پنجابی اور فارس بلوچوں کے ہمدرد نہیں۔
بلوچ قوم بخوبی اس امر سے اگر واقف ہے تو سمت کا تعین کیونکر نہیں کر پارہی یعنی حصول آزادی مگر کیسے؟ خود کش حملوں سے ؟ یا پھر دفاعی جنگ اور دنیا کی کمک سے؟ اگر خودکش حملوں سے تو قوم کو اتنی بڑی آزمائش کے بعد حاصل کیا ہو گا ؟افغانستان یا پھر تامل تحریک کی ناکامی میرے خیال میں اور کوئی مثال میرے ناقص رائے میں نہیں۔ البتہ دنیا کی تاریخ دفاعی جنگ اور دنیا کی کمک سے بھری پڑی ہے۔ اسے عوامل کی حوصلہ افزائی یا حوصلہ شکنی آزادی پسند پارٹیاں کرتی ہیں مگر ہمارے ہاں سیاسی پارٹیاں مورل اتھارٹی سے قاصر ہیں کہ قوم کو اس سمت کچھ آگاہی دے کہ کونسا عمل درست اور کونسا غلط ہے تاکہ جانوں کا ضیاع کم ہو۔ اگر یہی طرز سیاسی پارٹیوں کا رہا تو دشمن اس جذباتی کیفیت سے تحریک کو بڑے نقصان سے دوچار کرے گا جس کی مثال ماضی قریب میں بلوچوں نے دیکھی اور سہی ہے۔
جدید دور جدید تحریک کی ڈیمانڈ کرتی ہے۔دنیا تحریک کے ساتھ سیاسی سوچ کو پرکھتی ہے یعنی قوم کیونکر آزادی چاہتی ہے اور اسکی آزادی میں ریاستی ادارے کس طرز کے ہونگے۔ایا انسٹیٹوشن سیاسی اور معاشی انکلوسیو ہونگے یا فرسودہ ایبسولوٹیسٹ ایکسٹریکٹیو بنیاد پر ہونگے۔
بلوچ تاریخ میں پہلی مرتبہ سنگت حیر بیار مری نے دنیا کے اس ڈیمانڈ اور خوشحال بلوچ قوم کے مستقبل کے لیے بلوچستان لیبریشن چارٹر کو متعارف کرایا۔بہ نفس نفیس خود تمام بلوچ اسٹیک ہولڈرز کے حوالے کرنے کے بعد اسے قوم کے سامنے رکھا کہ قوم اپنی مستقبل کے لیے اگر چاہے تو اس چارٹر میں ردوبدل کر سکتی ہے۔ سنگت نے اپنی ذاتی پسند نہ پسند کو کبھی بھی قوم پر نہیں تھونپا یہی وہ سیاسی اقدار ہے جس کے حصول کے لئے فرانس برطانیہ امریکہ اور دیگر یورپی ممالک کو انقلاب کی ضرورت پڑی مگر یہ بلوچ قوم کی خوش قسمتی ہے کہ سنگت حیربیار مری جیسے لیڈر قوم کی خاطر مثبت سوچ پر عمل پیرا ہے تاکہ بعد از آزادی قوم دو دہائیوں میں دنیا کے مساوی اپنی قد کاٹ کو دیکھے اور ریاست بلوچستان کا باشندہ ہونے پر فخر کرے کیونکہ قوموں کی پہچان جدید دور میں صرف اور صرف انکے ریاستی اداروں سے ہوتی ہے جو اپنے عوام کے تمام انڈیکٹرز کو داخلی اور خارجی سطح پر مثبت انداز میں پیش کرے۔ اگر ریاستی سوچ متحدہ بلوچستان ہو سیاست قومی اور اداروں کی یکجہتی پر منحصر ہو اور جنگ اسٹریٹیجک ہو تو دشمن جتنا طاقتور اور شاطر ہو آزادی بلوچ قوم کے اور شکست دشمنوں کے مقدر میںیقینا ہو گی۔