لیڈرشپ کیا ہے؟ لوگ اپنے لیڈر کے لیے کونسے خصوصیت اور خصلت ڈھونڈتے ہیں؟ زیادہ تر لوگ اپنے لیڈر میں سالمیت،ایمانداری،مخلصی اور وفاداری ڈھونڈتے ہیں اور عموماً لوگ ان چیزوں کو دیکھ کر اپنے لیڈرشپ کا چنائو کرتے ہیں لیکن لیڈرشپ کے لیے ان سے ہٹ کر اور بھی خصوصیات اور خصلت کا ہونا ضروری ہے۔
بقول سمانتھا لیڈرمختلف ہوتے ہیں وہ عام لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں۔جبکہ کتاب پاور اف لیڈرشپ میں لکھا ہے کہ لیڈر کے پاس طاقت لوگوں کی وجہ سے ہوتا ہے اور وہ طاقت لوگوں کی اچھائی اور بہتری کی خاطر استعمال کرتا ہے ناکہ وہ طاقت اپنے نمود ونمائش اور شوشا اور دولت حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ کتاب میں لکھا ہے کہ لیڈر اپنے طاقت کا زنا کرتا ہے جب اسکو وہ اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے تو اس لیڈر اور ایک زانی کے درمیان کوی فرق نہیں رہتا ہے۔
جبکہ 90کے دور میں ایک Buzzwordsزیادہ مشہور تھا وہ تھا empowerیعنی بااختیار بنانا۔ حقیقی لیڈر طاقت اور اختیارات کا شوقین نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ عام لوگوں کو بااختیار بناتا ہے وہ مذید لیڈر اور کیڈر پیداکرتا ہے وہ اپنے وژن کو حقیقت کا روپ دیتا ہے جبکہ ایک جعلی مصنوعی لیڈر قربانیوں اور دوسروں کی لیگسی کو ملک کرتا رہتا ہے جس طرح ایک نومولود بچہ زندہ رہنے کے لیے اپنے ماں کی دودھ پیتا ہے اسی طرح جعلی اور مصنوعی لیڈرشپ دوسروں کی قربانیوں کو پیتا ہے۔ جس طرح دودھ کے بغیر بچہ زندہ نہیں رہ سکتا اسی طرح دوسروں کی قربانیوں کے بغیر مصنوعی لیڈر بھی قائم نہیں رہ سکتا ہے۔
لیڈرشپ کے بارے میں چارلس ولسن نے کہا ہے کہ بوتل کی سائز کتنا بڑا یا چھوٹا ہو کریم ہمیشہ اوپرآتا ہے۔ لیڈرشپ نشیب وفراز سے گزر کر اپنے وژن لانگ ٹرم مقصد سے بوتل کے کریم کی طرح ہمیشہ آخر میں اوپر آئے گا۔ the nature of political leadership king of the mountainکتاب میں لکھا ہے کہ گلاب کسی بھی نام میں گلاب ہے لیکن کسی گلاب میں کانٹا ہوتا ہے تو کسی میں نہیں اور وہ مختلف رنگوں میں بھی ہوتا ہے اسی طرح لیڈر اور حکمران بھی ہیں کچھ آمر اور کچھ جمہوری لیڈر ہوتے ہیں ۔کچھ قوم کو اپنے ذات کے لیے استعمال کرتے ہیں تو کچھ اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پرقربان کرتے ہیں۔ آمر اور جابر لیڈر کسی کو جوابدہ نہیں ہوتے ہیں بلکہ وہ طاقت اور قوت سے اپنے خلاف اواز کو دبانے کی پالیسیوں پر کامزن ہوتے ہیں۔ جس طرح ہتی کے آمر اور جابر François Duvalierجس کا ذاتی فوج تھا جس نے اسکے مخالفین اور انکی پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں کو نشانہ بنایا اور پورے ملک میں ظلم و زیادتی کا بازار گرم کیا۔
ایک دانشور نے دو ہزار سال پہلے لکھا ہے کہ ہوشیاری سے لیڈ کرنے والے دس سپائی سو بغیر دانش اور سمجھداری سے لیڈ کرنے والے سپائیوں کو شکست دے سکتا ہے۔ جنگ لیڈرشپ کی حکمت عملی منصوبہ بندی اور پلاننگ سے جیتا جاتا ہے ناکہ بے وقوفی اور نمود ونمائش سے۔
جون ائڈر اپنی کتاب How To Grow Leadersمیں کہتا ہے کہ success in war or battle tend to go hand in hand with good leadership at al levels. یعنی جنگ میں کامیابی ایک اچھے اور تجربہ کار ماہر لیڈرشپ کے ذریعے حاصل ہو سکتا ہے۔
کتاب میں مذید کہتا ہے کہ لیڈرشپ تین وسیع سطح پر ہوسکتا ہے: حکمت عملی آپریشنل ٹیم اگر کسی لیڈرشپ میں یہ تینوں چیزیں ہوں وہ جدوجہد اور جنگ کو منزل تک پہنچاسکتا ہے۔ دنیا کی تاریخ سے ثابت ہوا ہے کہ کسی بھی تنظیم کو ایک اچھا لیڈر کی تلاش رہا ہے اگر لیڈر صحیح ملا تو منزل کا ملنا مشکل نہیں اگر لیڈر غلط ملا تو منزل کے لیے جتنی بھی قربانیاں دی جائے منزل اس قوم اور جہد سے ایسا دور رہتاہے جیسا کہ جنت موت کے بغیر۔
ایلن کٹر اپنی کتاب leadership psychology میں کہتا ہے ہر انسان کو کسی نہ کسی طرح کو ئی لیڈ کرتا ہے۔ لیڈر ماں باپ، استاد،بوس او ر سیاست دان ہوسکتے ہیں۔ ایک اچھا استاد، باپ اولاد یا شاگرد کو سماج میں اسکے رتبہ کو بڑھانے کے لیے رہنمائی کرکے ڈاکٹر،ٹیچر سائنس دان بناتا ہے تو خراب باپ یا ٹیچر کسی کو چور،شرابی اور سماج کے لیے سردرد بنا سکتا ہے۔ اسی طرح ایک اچھا لیڈر بھی اپنے کارکنوں اور جہدکاروں کو جہد اور قوم کی خاطر رول ماڈل بناتا ہے جبکہ غلط لیڈر اپنے کارکنوں اور جہدکاروں کو مافیا چور چکار اور قوم کے لیے سردرد بناتا ہے۔
مسئلہ جہد کار کا نہیں بلکہ لیڈر اور تنظیم کا ہے کہ وہ اپنے جہدکاروں کو کیا بناتا ہے۔ اگر ایک بچے کو میکنک کے پاس بھیجیں تو وہ گاڑی کا استاد بنتا ہے اگر اسی بچے کو چور کے پاس بھیجیں وہ ڈاکو بنتا ہے ۔اس سے ظاہر ہوا مسئلہ بچے میں نہیں بلکہ اسکی تربیت کا ہے اگر لیڈر اور ادارہ بہتر جہدکاروں کو صحیح تعلیم دیں تو وہ قوم او ر ملک کے لیے سرمایہ ہونگے اگر انکی تعلیم چوروں اور ڈاکوئوں کی طرح کیا جائے تو وہ قوم اور تحریک کے لیے عذاب بن جائیں گے۔
اسی طرح ایس وائی اوگلنک اپنی کتا ب leadership power and conseuences.میں کہتا ہے کہ بہت سے لوگ طاقت پاور کے معنی کو صحیح نہیں سمجھتے ہیں وہ ہزار یا دس ہزار لوگوں کو بندوق کے ساتھ ایک تنظیم یا پارٹی میں ہونے کو پاور سمجھتے ہیں حالانکہ پاور اور طاقت کے معنی الگ ہے ۔بقول اسکے پاور کے معنی ہے کہ پاور تعلق اور روحانی رشتہ کا نام ہے ایک قوم کا اپنے لیڈر کے ساتھ دوستانہ اور بھروسہ کا تعلق طاقت اور پاور ہے،ایک بچہ کا باپ کے ساتھ ایک ٹیچر کا طلبا کے ساتھ پاور اس تعلق کی بنیاد پر ہے۔ اسکے مطابق طاقت پوشیدہ چیز ہے اور تعلق کی بنیاد پر وہ کم یا زیادہ ہوتا ہے۔ہم سورج چاند آگ پانی اور پیسہ کی طاقت کو پہچان سکتے ہیں۔ ٓٓٓٓ آگ بارش چاند سورج ایک طاقتور کے ہاتھ میں ہے جسکو خدا کہا جاتاہے لیکن وہ ان کو غلط استعمال نہیں کرتا ہے بلکہ انسانوں کی اچھائی کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوا ہے کہ پاور ہمارا مسئلہ نہیں ہے اور پاور خود صحیح یا غلط نہیں بلکہ پاور صحیح اور غلط اس وقت ہوتا ہے کہ اس کو کس طرح استعمال کیا جاتا ہے۔زمین سورج اور چاند کی طرح لوگوں کی بھلائی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے یاکہ آمروں کی طرح طاقت اور پاور کو لوگوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک اچھا لیڈر پاور طاقت کو سمجھتا ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھااچھے رشتہ اور تعلق کی وجہ سے قائم ہے اور اسکو لوگوں اور اپنے قوم کی بہتری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس طرح جارج واشنگٹن سمیت بہتریں لیڈرشپ نے اپنے پاور اورطاقت اپنے لوگوں کی بہتری کے لیے استعمال کرکے امریکہ کو دنیا کا سپرپاور بنایا۔
اب بلوچ قومی تحریک ایک مراحل سے گزر رہا ہے ،بلوچ اپنے قومی ریاست کی تشکیل کے لیے جدوجہد کررے ہیں۔ ہمارے لیے ایک راستہ ان ناکام جہد کا ہے کہ جہاں نمود ونمائش اور سستی شہرت کے بھوکے مصنوعی لیڈرشپ نے لوگوں کو حج کے دن کی بکریوں کی طرح قربان گاہوں میں قربان کیے مگر انکی تحریک قومی آزادی سے ایسے دورچلاگیا جیساکہ شیطان خدا سے دور ہوا۔ اورایک وہ تحریکیں ہیں کہ جہاں لیڈرشپ نے ایک نسل سے دوسری نسل کی خاطر سوچ بچار کرکے اپنے قوم کو جذباتی بھٹی میں ڈالنے اور شہدا کی لیگسی کو ملک کرنے کے بجائے شعوری اور قومی سوچ دیا اور انکو لانگ ٹرم کے لیے تیار کیا اور کم قربانیوں سے ان کو قومی آزادی ایسے ملا جیسے کہ پانی اور بارش، بالے اور گیند ملتے ہوں۔
اگر بلوچ قابض پاکستان کے مکارانہ دھوکہ دہی اور دونمبری ذہینت سے نہ نکلا تو وہ قابض کی غلامی سے بھی نہیں نکل سکتا ہے اور قابض کی مکارانہ ذہینت بلوچ سوچ سے متضاد ہے۔کیونکہ بلوچ مائنڈ سیٹ پاکستان کی مائنڈ سیٹ کے برعکس ہے۔ پاکستانی مائنڈ سیٹ سے حقیقی لیڈرشپ کا نکلنا ایسا ہی ہے جیسا کہ سور کے پیٹ سے شیر کا پیدا ہونا۔ بلوچ قومی تحریک میں عدم برداشت، کرپشن، دھوکہ دہی،تقسیم درتقسیم،دونمبری،منافقت، مورالٹی کا فقدان،وعدہ خلافی اور اپنے قول و فعل سے انحرفی سمیت سب کچھ قابض پاکستان کی مائنڈ سیٹ کی مصنوعات ہیں جو بلوچ کو بلوچ سے جدا کرچکا ہے جس نے بلوچ کو بلوچ کے لیے اجنبی بنایا ہے۔ اور اس مائنڈ سیٹ سے قومی نجات دھندہ لیڈرشپ کی توقع کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ پتھر سے دودھ نکالنا۔
بلوچستان کو قابض کی غلامی سے ایسا ہی لیڈر آزاد کرسکتا ہے جو خود قابض کی مائنڈ سے خود کو آزاد کرچکا ہو اور ساتھ ہی ساتھ وہ بلوچ کو دشمن کے بجائے دوست سمجھتا ہو۔ وہ لیڈر حکمت عملی آپریشنل اور جنگی ہربوں کو سمجھ سکتا ہو۔ یہ ایک نادانی اور ناسمجھی ہے کہ لیڈر اور جہدکار یہ توقع کے ساتھ جہدکارہا ہو کہ وہ اپنی زندگی میں آزادی کو دیکھ لیگا بلکہ لیڈر اس لیے کام کرتا ہے کہ جب سوسال بعد لوگ اس کے عمل کو دیکھ کر شرمندگی کے بجائے فخر کرتے ہوں کہ اس نے قوم کو ایک سمت راستہ اور صحیح پروگرام دیا جس سے باقی نسلیں چل کر منزل پر پہنچ چکے ہیں اس کے اعمال نامہ میں اگر پاکستانی مائنڈ سیٹ کی طرح فریب منافقت دھوکہ دہی تقسیم در تقسیم اور قوم کو اپنے ذاتی مفادات کے نقصان سے دوچار کرنے کے عمل ہوں تو لوگ اسکی قبر تک کو لعنت ملامت کریں گے۔